کراچی کی بارش نے کراچی میں تاریخ تباہی مچائی کراچی میں بارش کے دوران کیماڑی سے سرجانی تک کئی کئی فٹ پانی کئی روز جمع رہا پانی شہریوں کے گھروں میں بھی داخل ہو گیا جس کی وجہ سے شہریوں کا اربوں روپے کا نقصان ہو گیا گرچہ یہ حقیقت ہے کہ حالیہ بارش نے کراچی کی تارئخ کا نوے سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے تاہم سندھ اور کراچی پر کئی عشروں سے حکمرانی کرنے والوں نے کراچی کو مکمل نظر انداز کئے رکھا، کہا جا رہا ہے کہ حالیہ بارش میں پی پی پی ،ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کی سیاست بھی بارش میں بہہ گئی بارش گزرنے کے پانچ روز بعد بھی کراچی کی کچی آبادیوں سمیت کلفٹن ،ڈیفنس سوسائٹی سے پانی کی نکاسی نہیں کی جا سکی جبکہ کراچی کے کاروباری علاقے کھارادر ،بولٹن مارکیٹ اور اطراف کی مارکیٹوں سے بھی بارش کے پانی کی نکاسی نہیں کی جاسکی بارش سے تاجروں کو بھی اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا تاجروں نے کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے، بارش گزرنے کے باوجود شہر کے کئی علاقوں میں بجلی بحال نہیں کی جا سکی ہے بارش کے دوران میئر کراچی سمیت ناظمین ،چیئرمین لاتعلق رہے۔
پندرہ سو سٹی وارڈرن بھی کہیں نظر نہیں آئے، صرف مذہبی جماعتوں کے کارکن ہی عوام کی جانی ،مالی مدد کرتے رہے انہیں خوراک پہنچانے کے علاوہ شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرتے رہے الخدمت ،جے یو آئی ،عالمگیر سیلانی جے ڈی سی ایدھی ،چھیپا کے رضا کار میدان عمل میں رہے بارش کے بعد کم از کم ایک سال تک کراچی معمول پر نہیں آ سکے گا۔
بارش کے بعد کراچی شہر دو دن تک تاریکی میں ڈوبا رہا اور کے الیکٹرک کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی، بارش کی تباہ کاریوں اور حکمرانوں کی جانب سے کسی قسم کے مثبت اقدام نا ہو نے کے بعد امیرجمات اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے مطالبہ کیا کہ کراچی میں رین ایمرجنسی لگاکر اورکراچی کو آفت زدہ قراردے کر آئین کے آرٹیکل 245کے تحت فوج کو بلایا جائے،24گھنٹے گزرنے کے باوجود کراچی کے بیشتر مقامات پر اب بھی پانی موجود ہے اور شہر کے 90فیصد علاقوں سے بجلی غائب ہے،شہر میں اس وقت حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے،وفاقی حکومت نے کراچی کو دوسال سے مسلسل نظر اندازکیا ہوا ہے،صوبائی حکومت نے عوام کی ریلیف کے لیے کوئی کام نہیں کیا،بلدیاتی حکومت نے چار سال اقتدار کے مزے لیے اور آخر میں رونا شروع کردیا،نالوں میں چائنا کٹنگ، کچرا ڈالنے اور سیوریج کا پانی نالوں میں ڈالنے کی وجہ سے بارش کا پانی نالوں سے نہ نکل سکا، ان تمام صورتحال کاجائزہ لے کر ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے اور ان سب کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
دوسری جانب اے این پی کے صوبائی صدر شاہی سید نے بھی حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ نااہل حکمرانوں کی ناقص کارکردگی نے کراچی شہر کو ڈبودیا ہے۔ حکمرانوں کی ناقص کارکردگی کیوجہ سے باران رحمت کراچی والوں کے لئے زحمت بن گئی ہے. ان مشکل حالات میں عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ آپس میں اتحاد اور اتفاق کا مظاہرہ کریں۔ عوام ان مشکل حالات میں حالیہ بارشوں سے متاثرہ خاندانوں کی بھرپور مدد کریں۔
جبکہ پاک سر زمین پارتی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نےبھی حکومت پر کڑی تنقید کی، جمعیت علما اسلام کے مرکزی رہنما قاری محمد عثمان نے بھی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ سندھ حکومت کراچی کو آفت زدہ قرار دیکر شہریوں کی بحالی کیلئے فوری ریلیف فنڈ قائم کرے۔
شہری انتظامیہ اور سندھ حکومت شہریوں پر رحم کرے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی ہدایت پر ارکان اسمبلی اپنے اپنے حلقوں میں رہے اور بارش کی صورت حال کو مانیٹر کرتے رہے خود وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، سینئر وزیر ناصر حسین شاہ اور سعید غنی کراچی کے مختلف علاقوں کا دورہ کرتے رہے تاہم انہوں نے یہ بات تسلیم کی کہ وہ اتنی زیادہ اور ریکارڈ توڑ بارش میں کچھ نہیں کر سکتے وفاق کو بھی سندھ کی مدد کو آئے انہوں نے کراچی کے چھ جبکہ پورے سندھ کے بیس اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات اور ریونیو بورڈ کو ہدایت کی ہے کہ انفراسٹرکچر، مکانات اور فصلوں کو ہونے والے نقصانات کا سروے کرائیں تاکہ سڑکوں کے جال کی بحالی فوری کی جاسکے اور تباہ شدہ مکانات کیلئے معاوضہ بھی دیا جائے۔تاہم انہوں نے کراچی، حیدرآباد اور میرپورخاص ڈویژن کے ڈپٹی کمشنرز کو بارش کے پانی کی نکاسی اور اسی طرح کے دیگر کاموں کیلئے 5 ملین روپے جاری کردیئے۔
جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سندھ کے وزراء کو ہدایات جاری کیں ہیں کہ جب تک صوبے کے ہر شہر، قصبے اور گاؤں سے بارش کے پانی کا آخری قطرے کااخراج نہیں ہوجاتا، وہ میدان میں موجود رہیں۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ، وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ اور وزیر پبلک ہیلتھ انجینئرنگ میر شبیر علی بجارانی سے ٹیلیفون پر گفتگو کے دوران پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سندھ کے وزراء کو ہدایات جاری کیں ہیں کہ جب تک صوبے کے ہر شہر، قصبے اور گاؤں سے بارش کے پانی کا آخری قطرہ اخراج نہیں ہوجاتا، وہ میدان میں موجود رہیں۔
وزیراعلیٰ مراد علی شاہ، وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ اور وزیر پبلک ہیلتھ انجینئرنگ میر شبیر علی بجارانی سے ٹیلیفون پر گفتگو کے دوران پی پی پی چیئرمین نے بارشوں کے دوران بہتر کوآرڈینیشن کے ذریعے خدمات سرانجام دینے پر سندھ کابینہ کے ارکان کو سراہا۔ دوسری جانب کراچی میں بلدیاتی نظام کی مدت ختم ہو گئی ہے اور اب ایڈمنسٹریٹر کے لیے صلاح و مشورے جاری ہیں توقع کی جا رہی ہے کہ اس معاملے پر بھی وفاق اور سندھ کا اتفاق نہیں ہو سکے گا، حلقہ بندیوںسمیت دیگر معاملات کے سبب بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کم از کم چھ ماہ تک مملن نہیں اس لیے ایڈمنسٹریٹر کو خاصہ وقت ملے گا۔