• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خیال تازہ … شہزادعلی


گذشتہ سے پیوستہ


اور 23دسمبر 1952کو منظور ہونے والی قرار داد میں پاکستان کلیے یہ حد تین سے چھ ہزار رکھی گئی، جبکہ بھارت کیلئےیہ تعداد بارہ ہزار سے اٹھارہ ہزار مقرر کی گئی۔ تھی یہاں پر یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ افواج کی تعداد کے بارے میں فرق رکھ کر پاکستان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا یا پھر اس سے اس وقت کے پاکستانی مزاکرات کاروں یا خارجہ امور کے اہلکاروں کی نااہلی ظاہر ہوتی ہے البتہ بعض شواہد یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان اور اقوام متحدہ کے مزاکرات کار تو برابری کی بنیاد پر معاملات طے کرنے پر زور دیتے رہے مگر بھارت پاکستان کو جارح قرار دینے پر مصر رہا جس باعث افواج کے انخلا پر اتفاق نہیں ہو پایااور آج بالخصوص بھارت کی افواج اور دیگر ملٹری پیرا ملٹری فورسز کی تعداد بعض رپورٹس کے مطابق آٹھ لاکھ بتائی جاتی ہے جو دنیا بھر میں کسی ایک مقام پر غالباً ملٹری کا سب سے بڑا اجتماع ہے جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر میں اتنی بڑی افواج کی تعداد کی موجودگی جو عالمی ادارے کی خلاف ورزی بھی ہے سے وہاں کے عوام کی زندگیاں کس طرح متاثر ہو رہی ہیں _24 جنوری 1957کو منظور کی گئی ایک قرار داد 122 میں کہا گیا کہ نیشنل کانفرنس کی قانون ساز اسمبلی متنازع جموں و کشمیر کے مستقبل سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی۔ اور یاد دہانی کرائی گئی کہ سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر 91کے مطابق جموں و کشمیر کا علاقہ متنازع ہے۔ تاہم دونوں ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کار کشیدہ رہے جس پر 21فروری 1957کو منظور ہونے والی ایک قرارداد میں سلامتی کونسل نے اپنے صدر سے کہا کہ وہ پاکستان اور بھارت کا دورہ کر کے تنازع کشمیر کے حل کیلئے اپنی تجاویز دیں۔ اسی طرح 2 دسمبر 1957کی ایک قرار داد کا حوالہ ملتا ہے جس میں صدر سلامتی کونسل کی رپورٹ میں بھارت اور پاکستان کو امن سے رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے نمائندہ اقوام متحدہ کو کہا گیا کہ وہ پاکستان اور بھارت کا دورہ کرکے تنازع کشمیر پر مزید پیشرفت کیلئے اقدامات تجویز کرے۔اسی طرح 1965 اور 1971کی جنگوں کے دوران بھی کشمیر کے حوالے موجود ہیں آگے چل کر دونوں ممالک کی طرف سے ایٹمی دھماکوں کے تجربات کی مذمت کرتے ہوئے 6جون 1998 کی ایک قرار داد میں دونوں ممالک کو جہاں مزید ایٹمی تجربات نہ کرنے کا کہا گیا۔ وہاں سلامتی کونسل کی طرف سے قضیہ کشمیر کو حل کرانے میں مدد کی بھی پیش کش کی گئی۔ ایک خاص بات شاید بعض قارئین کیلئے باعث تعجب ہو کہ کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ میں بھارت پہلے لے کر گیا، اس باعث یہ پہلو نہایت اہم ہے کہ بین الاقوامی برادری کو یہ باور کرایا جائے کہ جو ملک اس مسئلے کو پہلے عالمی ادارہ میں لے کر گیا وہی اس ادارہ کی قرار دادوں پر عمل درآمد سے پہلو تہی برت رہا ہے۔ کشمیر کے کیس پر جب جائزہ لیا جائے حوالے تو یہ سامنے آتا ہے کہ ماہ اگست 1947 میں برطانیہ سے آزادی کے بعد جب دو خود مختار ریاستیں پاکستان اور بھارت وجود میں آئیں تو ریاستوں اور راجواڑوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنے عوام کی منشا کے مطابق کسی بھی ملک میں شامل ہونے کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔ یا اپنا الگ سٹیٹس برقرار رکھ سکتے ہیں _ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی مگر مہاراجہ کشمیر نے وقت پر کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ اور ج. اکتوبر 1947 میں کشمیر میں جاری مسلمانوں کی نسل کشی روکنے کیلئے پاکستان سے قبائلی لشکر کشمیر میں داخل ہوئے تھے اس کو بنیاد بنا کر بھارت کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ 26اکتوبر 1947کو مہاراجہ کشمیر نے بھارت سے ان قبائلی افراد کے خلاف مدد چاہتے ہوئے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیئے لیکن یہ بھی واضح کیا جاتا رہا ہے کہ یہ الحاق مشروط تھا کہ جیسے ہی حالات معمول پر آئیں گے کشمیر میں رائے شماری ہو گی اور یہ الحاق ہوا یا نہیں اور کیا مہاراجہ کو عوام کی مرضی کےخلاف کسی ایسے الحاق کی اجازت بھی تھی اور پھر یہ کہ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی بھارت کی افواج کی کشمیر میں بدستور موجودگی کا جواز کیا ہے؟ یہ سوالات طویل عرصے سے کشمیر کے مسئلے کے ساتھ اٹھائے جاتے رہے ہیں اور حقیقت جو بھی ہے اس پر سچ کو سامنے لایا جانا بھی ضروری ہے جبکہ 27 اکتوبر 1947بھارت جس نے اپنی فوجیں ہوائی جہازوں کے ذریعے سری نگر میں اتار دیں تھیں وہ بین الاقوامی دنیا کو آج تک اسی الحاق کا جھانسا دیتا چلا آیا ہے اور مزید یہ باور کرایا جاتا ہے کہ بھارت کی افواج کشمیر میں ہونے والی بغاوت کو کچلنے کیلئے وہاں داخل ہوئی تھیں جبکہ کشمیری عوام اسے آزادی کی جدوجہد سے تعبیر کرتے چلے آتے ہیں تاہم اس متعلق حقائق جو بھی ہوں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان واقعات کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلی جنگ چھڑ گئی تھی اور یکم جنوری 1948کو بھارت نے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ سے مدد مانگ لی تھی اور 5فروری 1948 کو اقوام متحدہ نے ایک قرار داد کے ذریعے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا تاکہ وہاں رائے شماری کرائی جا سکے۔ یکم جنوری 1949کو اقوامِ متحدہ نے جنگ بندی کراتے ہوئے دونوں ممالک کی فوجوں کو جنگ بندی لائن کا احترام کرنے کا پابند کیا اور وہاں رائے شماری کرانے کا اعلان کیا مگر بجایے بھارت رائے شماری کا اہتمام کا وعدہ پورا کرتا اس نے 26 جنوری 1950کو اپنے آئین میں آرٹیکل 370کا اضافہ کر دیاجس میں ریاست جموں و کشمیر کو دفاع ، خارجہ اور مواصلات کے علاوہ خود مختار حیثیت دی گئی مگر یہ اقدامات حق خودارادیت کے متبادل نہیں تھے پھر اکتوبر 1950کو شیخ محمد عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس نے جموں و کشمیر میں انتخابات کا مطالبہ کیا تاکہ ریاستی اسمبلی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرے ۔ لیکن 30 مارچ 1951 کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے کشمیر میں انتخابی عمل کو مسترد کرتے ہوئے یہ واضح کر دیا تھا کہ یہ اسمبلی رائے شماری کا متبادل نہیں ہے اور نہ ہی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کر سکتی ہے اس وقت بلکہ ایک نمائندہ مقرر کرنے اور کشمیر کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے کا اعلان بھی کیا گیا مگر اس پر عمل در آمد نہیں کیا گیا۔ ستمبر 1951میں کشمیر کی اسمبلی کے انتخابات میں بھارت کی آشیرباد اور کھلی مداخلت سے نیشنل کانفرنس کو کامیابی ملی اور اسی باعث 31اکتوبر 1951شیخ عبداللہ نے ریاستی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کے حق میں دلائل دیئے _ بلکہ جولائی 1952 میں شیخ محمد عبدااللہ نے دہلی معاہدے پر دستخط کر دیئے جس کے تحت انڈیا کے زیرانتظام ریاست کو داخلی خود مختاری دی جائے گی۔ مگر بھارت نوازی کے باوجود 8 اگست 1953کو شیخ محمد عبدالاللہ کو بطور وزیراعظم فارغ کرکے حراست میں لے کر بھارت میں اسیر کر دیا گیا اور ان کی جگہ بخشی غلام محمد کو وزیر اعظم بنا کر مسلط کیا گیا اور کٹھ پتلی حکومتوں کا سلسلہ ہائے دراز ہوتا گیا۔ اسی طرح کشمیر پر تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اگست 1953کو بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کے مابین دہلی میں ملاقات ہوئی جس میں اپریل 1954 کے آخر تک کشمیر میں رائے شماری کے لیے ایڈمنسٹریٹر تعینات کرنے پر اتفاق کیا گیا ۔تاہم بھارت نے رائے شماری سے انکار کر دیا۔ فروری 1954مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی اسمبلی نے بھارت کے ساتھ الحاق کر دیا۔ پھر مئی 1954 میں ایک آئینی حکم نامہ جس کا تعلق ریاست جموں و کشمیر سے تھا اسے لاگو کر دیا گیا جس کے نتیجے میں دہلی معاہدے کومنسوخ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی عمل داری میں دیتے ہوئے تمام شہری آزادیوں کو ختم کرتا تھا۔ جبکہ 14جنوری 1957کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک بار پھر 1951کی قرارداد کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی اسمبلی کسی طور بھی کشمیر کے مستقبل کے بارے میں فیصلے کا اختیار نہیں رکھتی اور نہ ہی یہ رائے شماری کا متبادل ہوسکتا ہے۔ 26 جنوری 1957کو مقبوضہ کشمیر اسمبلی نے جموں و کشمیر کا آئین نافذ کیا جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی یونین کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔ 9اگست 1955 کو رائے شماری محاذ قائم کیا گیا جس نے شیخ عبداللہ کی رہائی اور اقوام ِ متحدہ کی زیر نگرانی کشمیر میں رائے شماری کا مطالبہ کیا۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ کشمیری عوام نے رائے شماری کے لیے طویل عرصے تک جدوجہد کی ہے برطانیہ سمیت دنیا بھر میں کئی ممالک میں کشمیری باشندے اپنی مختلف سرگرمیوں کے ذریعے رائے شماری کا مطالبہ کرتے چلے ارہے ہیں مقبوضہ کشمیر میں اس مطالبے کےلئے کشمیری عوام نے بے تحاشا قربانیاں دی ہیں یکم مارچ 1990 سری نگر میں اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ کے دفتر کے سامنے پانچ لاکھ سے زائد کشمیریوں نے تاریخی مارچ بھی کیا تھا اور انہوں نے کشمیر میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق رائے شماری کا مطالبہ کیا۔تھا تاہم یہ بھی یاد رہے کہ کشمیری لوگوں کی اس جائز آواز کو دبانے کیلئے بھارتی فوج نے نہتے مظاہرین پر دو مقامات پر فائرنگ کی تھی ۔ اور اسی طرح مختلف اہم ایام پر کشمیری یہ مطالبہ پیش کرتے چکے ارہے ہیں مگر بین الاقوامی دنیا کشمیری عوام کو ان کا یہ جائز حق دلانے کےلئے اس طرح دلچسپی لیتی دکھائی نہیں دیتی جس طرح کے وہ بعض دیگر مسائل پر اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہی ہے اس بارے میں خود کشمیری قیادت کی بھی ناقص حکمت عملی شامل ہے اور بین الاقوامی برادری کے بھارت کے ساتھ تجارتی مفادات بھی تاہم دنیا کے آزاد ممالک میں پاکستان غالباً واحد آزاد ملک ہے جو پر سرد گرم موسم میں کشمیریوں کے حق خودارادیت کےلئے متحرک ہے، میں دیانت داری سے یہ سمجھتا ہوں کہ چاہے شہید زوالفقار علی بھٹو ہوں، میاں نواز شریف، بے نظیر بھٹو شہید، یا عمران خان پاکستان کے حکمران کشمیری عوام کیلئے ہمہ وقت کمر بستہ کھڑے دکھائی دیتے ہیں ان کے اخلاص پر سوال نہیں البتہ شاید وہ کسی بہتر حکمت عملی پر اگر عمل پیرا ہوتے تو کشمیر کی آزادی کی منزل قریب آجاتی اسی طرح عالمی برادری بھی اگر چاہے تو وہ کشمیری عوام کیلئے رائے شماری کا اہتمام کرا کر جنوبی ایشیائی خطے کو جنگ کی کیفیت سے نکلنے میں مدد دے سکتی ہے اور کشمیری قوم بھی سکھ اور چین کی زندگی بسر کرنے کے قابل ہو سکتی ہے بالخصوص اقوام متحدہ پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس ادارے کے وقار کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ اپنی ہی منظور کردہ کشمیر ریزولوشنز پر عملدرآمد کےلئے ایک مرتبہ پھر طریقہ کار وضع کرے اور اپنے اختیارات کو بروئے کار لا کر کشمیر میں رائے شماری کا انعقاد کرے۔ 

تازہ ترین