فلم کی کہانی میں فلم کے ہیرو یا ہیروئن کی بینائی کاختم ہوجانا اور پھر اس کی بحالی، برِصغیر پاک و ہند کی فلموں کا خاص موضوع رہا ہے اور اس موضوع کے تحت بیش تر شان دار اور جان دار فلمیں تخلیق کی گئیں۔ پاکستان میں 1956ء میں بنائی جانے والی رومانی نغمہ بار شاہ کار فلم’’انتظار‘‘ کی ہیروئن ’’نور جہاں‘‘ کو بینائی سے محروم دکھایا گیا، لیکن کہانی کے مطابق اختتام تک مصنف یا ہدایت کار نے یہ ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ وائنڈاپ میں ہیروئن کی بینائی بحال کروائی جائے اور ایسا نہ کرنے کا مصنف اور ہدایت کار کے پاس منطقی جواز موجود تھا اور وہ یہ کہ چوں کہ فلم کے ہیرو سنتوش کمار کو بھی ایک ٹانگ سےمعذور دکھایا گیا تھا، لہٰذا ہیرو نے خُوش دلی سے نابینا ہیروئن کو قبول کرلیا، جب کہ نابینا ہیروئن نے بھی یہ حقیقت جان لینے کے بعد کہ ہیرو ایک واقعے میں اپنی ایک ٹانگ گنوا چکا ہے کو ٹانگ کی معذوری سمیت اپنالیا۔
اسی طرح دوسری جانب1964ء میں بنائی جانے والی معرکۃ الآرا فلم ’’فرنگی‘‘ کی ہیروئن ’’شمیم آرا‘‘ فلم کے ایک منظر میں دکھائی جانے والی گولہ باری کے دوران اپنی آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوجاتی ہیں اور جب فلم کے اختتامی مناظر میں کفر و اسلام کا معرکہ پیش ہوتا ہے، تو ایسے میں شمیم آرا ایک نعت پڑھتی ہیں، دریں اثنا معجزہ رونما ہوتا ہے اور شمیم آرا کی بینائی بحال ہوجاتی ہے۔ ایک اندھی لڑکی کے کردار کواس عظیم فن کارہ نے کمال مہارت سےا دا کیا تھا کہ آج بھی ان کی پرفارمنس ذہنوں میں نقش ہے۔ 1965ء میں نذیر اجمیری نے’’دل کے ٹکرے‘‘ کے ٹائٹل سےایک دل چسپ موثر اور بامقصد فلم بنائی تھی، جس میں لیجنڈری فن کار محمد علی نے اکبر تانگے والا کا کردار ادا کیا تھا۔ 70ء کی دہائی تک آتے آتے ایسے موضوعات کی حامل فلموں کے ٹرینڈ میں کچھ تبدیلی آئی اور فلمی مصنفین نے اپنی کہانی کے کرداروں کی بینائی بحال کروانے کے لیے معجزات کا سہارا لینا ترک کیا اور میڈیکل سائنس سے رجوع کیا۔
27؍ مارچ 1970ء کو ریلیز ہونے والی ہدایت کار ایم اے رشید کی سوشل میوزیکل تخلیق ’’آنسو بن گئے موتی‘‘ میں محمد علی نے ڈبل رول پلے کیا تھا۔ ان میں ایک غریب تھا اور دوسرا سرمایہ دار کا بیٹا۔ فلم کے وِلن ادیب سے لڑتے ہوئے امیر زادے محمد علی کے سر پرشدید چوٹ لگنے سے ان کی بینائی چلی جاتی ہے، جب انہیں کچھ نظر نہیں آتا تو وہ اپنے مخصوص انداز میں گویا ہوتے ہیں ’’اجالے کہاں ہیں ڈاکٹر، اجالے کہاں ہیں‘‘ ان کا ادا کردہ یہ مکالمہ بہت زیادہ زبان زد خاص و عام ہوا۔ بالآخر ڈاکٹرز اپنی بہترین کوششوں کے ساتھ آپریشن کے ذریعے ان کی آنکھوں کی روشنی بحال کرنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔ ’’آنسو بن گئے موتی‘‘ ایک کام یاب سلور جوبلی فلم تھی۔
1970ء ہی میں اقبال شہزاد کی خُوب صورت میوزیکل ڈراما مووی ’’بازی‘‘ میں فلم کے روایتی ہیرو ’’ندیم‘‘ ایک حادثے میں اپنی آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ کہانی کےہیرو محمد علی جو کہ ایک آئی اسپیشلسٹ سرجن ہونے کے ساتھ ساتھ ندیم کے دوست بھی ہوتے ہیں، وہ کام یاب آپریشن کے ذریعے نہ صرف ان کی بینائی بحال کرتے ہیں، بلکہ اپنی منگیتر ’’نشو‘‘ کو ندیم سے منسوب کرکے خود رہائی ملک عدم ہوتے ہیں اور اپنے پیچھے دوستی اور ایثار کی لازوال داستان چھوڑ جاتے ہیں۔ ’’بازی‘‘ 10؍ اپریل 1970ء کو ریلیز ہوئی اور شان دار کام یابی سے ہم کنار ہوئی۔ویورز کو یہ تو معلوم ہی ہوگا کہ ’’بازی‘‘ نشو بیگم کی ڈیبیو فلم تھی۔
1971ء کی ریلیز ہدایت کار قمر زیدی کی نغماتی فلم ’’رم جھم‘‘ میں فلم کی ہیروئن ’’روزینہ‘‘ کو آنکھوں کی عجیب بیماری میں مبتلا دکھایا گیا کہ اچانک کچھ وقت کے لیے وہ دیکھنے کی صلاحیت سے مکمل طور پر محروم ہوجاتی ہیں۔ تاہم کچھ وقت گزرنے کے بعد ان کی بینائی بحال ہوجاتی ہے اور ان کے ساتھ یہ صورت حال بار بار پیش آتی ہے۔ 1971ء میں ہی ریلیز ہونےو الی ایس سلیمان کی سوشل تصویر ’’تیری صورت میری آنکھیں‘‘ میں فلم کی ہیروئن ’’زیبا‘‘ بیگم بچپن ہی میں ایک ٹرین حادثے میں اپنی بینائی گنوادیتی ہیں۔ فلم کے ہیرو محمد علی کو آنکھوں کا ڈاکٹر دکھایا گیا ہے۔ کہانی کے ایک موڑ پر جب نابینا زیبا سے ان کی ملاقات ہوتی ہے، تو وہ ان کی آنکھوں کا آپریشن کرکے بے نور آنکھوں کو روشن کردیتے ہیں اور یُوں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگتے ہیں، اسی محبت کے تناظر میں اس خُوب صورت جوڑی پر فلمایا گیا گیت ’’ڈھونڈھ رہی تھی جانے کب سے تیری صورت میری آنکھیں‘‘ فلم بینوں میں خُوب مقبول رہا۔ اس فلم نے باکس آفس پر بھرپور کام یابی حاصل کی اور شان دار گولڈن جوبلی سے ہم کنار ہوئی۔ زیبا بیگم نے ایک نابینا لڑکی کے کردار کو خُوب صورتی اور تاثر کے ساتھ نبھایا تھا۔
21؍ جولائی 1972ء کو ریلیز ہونے والی ہدایت کار فرید احمد کی آرٹسٹک مووی ’’بندگی‘‘ میں پاکستانی سنیما کی سب سے مقبول ہیروئن ’’شبنم‘‘ نے ایک اندھی لڑکی کا رول پلے کیا۔ کہانی کے مطابق وہ ابتدا میں اندھی نہیں ہوتی، لیکن ایک حادثہ اس سے اس کی بینائی چھین لیتا ہے۔ فلم کے ہیرو ’’وحید مراد‘‘ نے فلم میں ڈاکٹر کارول ادا کیا تھا۔ شبنم کی آنکھوں کی بینائی کی بحالی ایک مشکل اور الجھا ہوا کیس ہوتاہے، جس میں ڈاکٹر وحید مراد، شبنم کی آنکھوں کے علاج کے پروسیس میں خطرناک شعاعوں کی زد میں آجاتے ہیں۔ شبنم کی آنکھوں کی روشنی تو بحال ہوجاتی ہے، لیکن ڈاکٹر ناصر (وحیدمراد) مشینی شعاعوں کے مہلک اثرات کے سبب اپنی زندگی ہار دیتے ہیں۔ ’’بندگی‘‘ ایک نہایت خوب صورت اور معیاری فلم تھی، لیکن باکس آفس پر کوئی رنگ نہیں جما سکی۔
12؍ جولائی 1974ء کو ریلیز ہونے والی پاکستانی فلم انڈسٹری کی بہت زیادہ متاثر کن ڈراما موویز میں سے ایک یادگار مووی’’پھول میرے گلشن کا‘‘ منظر عام پر آئی، جس میں کہانی کی سپورٹنگ فن کارہ نِشو کو نابینا دکھایا گیا۔ گو کہ نِشو آنکھوں کی روشنی سے محروم لڑکی کے رول کو پوری محنت اور لگن سے ، مگر ان کے کردار کو یادگار بنادینے میں مسرور انور کے لکھے گیت’’تو ہی بتا پگلی پون‘‘نے کلیدی کردارادا کیا۔
یہ گیت ایک نابینا لڑکی کی دلی کیفیات کا موثر ترجمان تھا، جس کی دل کش دُھن ایم اشرف نے مرتب کی تھی اور دھیمے و میٹھے سروں سے سجایا تھا، نیرہ نورنے، فلم کے اختتام پر کہانی کا مرکزی کردار ’’پھول‘‘ مرنے سے قبل اپنی آنکھیں نِشو کو ڈونیٹ کردیتا ہے، یُوں اس نابینا لڑکی کی اندھیری دنیا رنگ و نور سے آباد ہوجاتی ہے۔ ’’پھول میرے گلشن کا‘‘ نے باکس آفس پر بلاک بسٹر کام یابی حاصل کی، شان دار گولڈن جوبلی منانے کے بعد مجموعی طور پر 62؍ ہفتے مکمل کیے۔ 3؍ اپریل 1981ء کو ریلیز ہونے والی ہدایت کار شمس چوہدری کی معیاری تخلیق ’’بڑا آدمی‘‘ علی دی گریٹ کی کردار نگاری کے تناظر میں اور دیگر کئی معیاری حوالوں سے ایک یادگار فلم تھی ، جس میں فلم کے سیکنڈ ہاف میں محمد علی چند دشمنوں سے لڑتے ہوئے دماغ پر سخت زخم آنے کے سبب اپنی بینائی کھو بیٹھتے ہیں، اس مرحلے پر آئی سرجن کی حیثیت سے روحی بانو ان کی آنکھوں کا کام یاب آپریشن کرکے ایک بار پھر غریب تانگہ بان عظیم یعنی (محمد علی) کی دنیا کونہ صرف روشن کردیتی ہیں ،بلکہ انہیں اپنا جیون ساتھی منتخب کرلیتی ہیں۔ ’’بڑا آدمی‘‘ نے باکس آفس پر تیز رفتاری سے بزنس کرتے ہوئے گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل کیا اور مجموعی طور پر 61؍ ہفتے زیر نمائش رہی۔