اسلام آ باد میں رواں ہفتے ہونے والی اپوزیشن جما عتو ں کی آل پارٹیز کانفرنس نے ملکی سیا ست میں تلاطم پیدا کر دیا ہے۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت نے جس طرح اپو زیشن کو شکست دی اور سینٹ سے مسترد کردہ بل منظور کرالئے اس سے حکومتی بنچوں کے اعتماد میں اضافہ ہوا تھا کیونکہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن اگر اپنے ممبران کی حاضری کو یقینی بناتی تو یہ بل منظور نہیں ہوسکتے تھے ۔ اپوزیشین کے بعض ممبران کی غیر حاضری نے اپوزیشن کی ساکھ کے بارے میں سوالات کو جنم دیا ہے۔
ان بلوں کی منظوری میں حکومت سے زیادہ موثر کردار مقتدر حلقوں نے ادا کیا۔ اصولی طور پر یہ بل سینٹ میں ہی منظور ہوجانے چاہئیں تھے کیونکہ فیٹف سے متعلق قانون سازی ملک و قوم کے مفاد میں تھی ۔ سینٹ میں قائد ایوان سنیٹر شہزاد وسیم کے تند وتیز لہجہ نے اپوزیشن کو مشتعل کردیا ورنہ یہ دونوں بل قومی اسمبلی میں اپو زیشن کی مشاورت اور رضا مندی سے پاس ہوئے تھے اور اپوزیشن انہیں سینٹ سے منظور کرانے کیلئے تیار تھی۔بلوں کی مشترکہ اجلا س سے منظوری کے بعد حکومت نے اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیا اور پی ٹی آئی کے سوشل میڈیاونگ نے تو غدرای تک کے الزامات لگا دیے۔بہر حال اے پی سی کے ا نعقاد سے حکومت پھر دبائو میں آ گئی ہے ۔
ماضی میں جے یو آئی ف کے مو لا نا فضل الر حمنٰ اور چھوٹی جماعتوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ہومیو پیتھک رویہ کی وجہ سے ان سے راستے الگ کرلئے تھے تاہم اب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت نے مو لا نا فضل الر حمنٰ کو یقین د ہانی کرائی ہے کہ دو نوں جماعتیں حکومت کو گرانے کیلئے عملی طور پر نہ صرف حصہ لیں گی بلکہ استعفوں کے آپشن پر بھی ساتھ دیں گی تاہم اسے سب سے آخری آپشن کے طور پر استعمال کیا جا ئے گا۔ اگرچہ اے پی سی کی میزبانی چیئرمین پیپلز پارٹی بلا ول بھٹو زرداری نے کی اور ان کے سیا سی قد میں اس سرگرمی سے اضافہ ہوا ۔
اپنی کم عمری کے با وجود وہ بتدریج قومی سیا ست میں اپنا مقام بنا رہے ہیں تاہم سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف اپنی دبنگ انٹری اور جارحانہ تقریر سے مین آف دی میچ بن گئے ۔ ان کی تقریر کا محور وزیر اعظم عمران خان سے زیادہ مقتدر حلقے تھے ۔ آ نے والے دن یہ بتائیں گے کہ انہیں یہ تقر یر مہنگی پڑے گی یا کچھ سیا سی فائدہ دلائے گی۔ انہوں نے دو بارہ سے ووٹ کو عزت دو کا جی ٹی روڈ و الےبیانیہ کا ا عادہ کیا۔ نوا شریف طویل عرصہ سے خاموش تھے ۔مریم نواز شریف بھی خاموش رہیں جس سے یہ تاثر پیداہوا کہ یہ خاموشی لیگی قیادت کی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کا نتیجہ ہے کیونکہ مسلم لیگ ن نے آر می چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے بل کے حق میں ووٹ دیاتھا ۔ نواز شریف کے قید ی ہونے کے با وجود انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت بھی ایک غیر معمولی رعایت تھی جو بہر حال اگر عمران خان کے بس میں ہوتا تو شاید وہ کبھی نہ دیتے ۔
سیاسی حلقوں کا یہی کہنا تھا کہ نواز شریف کو رعایت دلوائی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر لیگی قیادت کی مفاہمت ہوچکی تھی تو پھر یکا یک نواز شریف نے کیوں مقتدر حلقوں کے ساتھ محاذ کھولا ہے اور الفاظ کی اتنی گولہ باری کیوں کی۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نواز شریف کے ساتھ کئے گئے وعدوں سے انحراف کیا گیا اور مایوسی کے عالم میں وہ ایک بار پھر نظر یاتی نواز شریف بن گئے ہیں ۔ وہ ایک بار پھر سویلین بالادستی اور ووٹ کو عزت دو کے بیانیہ کو سامنے لے کر آئے ہیں ۔ مسلم لیگ ن نے بہر حال ایک مشکل اور پر خطر راستے کا انتخاب کیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اب نواز شریف لندن میں ہی قیام رکھیں گے اور جارحانہ بیانات دیتے رہیں گے ۔ انہوں نے حکومت اور اداروں کے خلاف چارج شیٹ پیش کی ہے۔ شہباز شریف نے اے پی سی میں بطور پارٹی صدر شرکت کرکے نواز شریف کے بیانیہ کی تائید کی ۔
اس طرح شیخ رشید احمد کی یہ پیش گوئی غلط ثابت ہوگئی کہ مسلم لیگ اب دو ٹکڑوں میں بٹ جا ئے گی۔شہباز شریف اگرچہ مفاہمت کی سیا ست پر یقین رکھتے ہیں لیکن وہ بہرحال نواز شریف سے الگ ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ اے پی سی نے وزیر اعظم عمران خان سے استعفے کا مطالبہ کر دیا ہے ۔ نئے شفاف انتخابات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ملک گیر احتجاج کا اعلان کر دیا ہے۔ جنوری میں اسلام آ باد کیلئے لانگ مارچ کا فیصلہ کیا گیا ہے جس سے قبل ملک میں ریلیوں کے ذ ریعے فضا کو سازگار بنایا جا ئے گا۔ آخر میں بحران پیدا کرنے کیلئے قومی اور صو بائی اسمبلیوں سے استعفے دیے جا ئیں گے۔اے پی سی کا یہ پہلو بھی دلچسپ ہے کہ مو لا نا فضل الرحمنٰ نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ماضی کے رویہ کی وجہ سے زبا نی دعوں پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا جس کے بعد میثاق پاکستان تحر یر کرنے پر اتفاق کیا گیا بہر حال اے پی سی کے نتیجے میں ایک نیا موثر اپوزیشن اتحاد پا کستان ڈیمو کریٹک موومنٹ وجود میں آ گیا ہے ۔
اے پی سی نے جہاں مہنگائی اور دیگر ایشوز کا احاطہ کیا وہاں میڈیا کی آزادی کیلئے بھی آ واز بلند کی ۔ اب میچ شروع ہوگیا ہے۔ حکو مت اب دبائو میں آجا ئے گی کیونکہ اس کی اکثریت بہت قلیل ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کا ہنی مون ختم ہوچکا ہے ۔ حکومت دو سری سالگرہ مناچکی ہے۔ تیسرا سال شروع ہے ۔ حکومتی ترجمانوں نے اپوزیشن کی اے پی سی کو مسترد کردیا ہے۔ وزیر اطلاعات شبلی فراز نے اے پی سی کو حکومت پر دبائو ڈالنے کی ایک بھونڈی کوشش قرار دیا ہے۔ لیکن حکومت نے جس اضطراری کیفیت کا مظاہرہ کیا ہے وہ ان کے خوف کی بھی عکا س ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اب اپوزیشن ر اہنمائوںکے خلاف کیسز کو حکومت بھی جوابی دبائو کیلئے استعمال کرے گی تا ہم ایف بی آر کی 2018کی ٹیکس ڈائریکٹری نے ممبران پارلیمنٹ کی جانب سے ٹیکس کی ادا ئیگی نے بھی کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
جن ممبران پارلیمنٹ اور وزراءکے عالیشان محلات ہیں اور طر ز ز ندگی شاہانہ ہے ان کی جانب سے قلیل ٹیکس کی ادائیگی اور بعض کی جانب سے زیرو ٹیکس کی ادائیگی ظاہر کرتی ہے کہ ان کا طر زرہائش ان کی آمدن سے مطابقت نہیں رکھتا۔ نیب اور ایف بی آر کو انکی انکوائری کرنی چاہئے ۔ قومی اداروں نے حکومت سے بھرپور تعاون کیا ہے لیکن حکومت ابھی تک ملکی معیشت کو بحال اور مستحکم کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ اپوزیشن نے بہر حال اپنی تحریک کو جمہوری اور آئینی احتجاج کا راستہ اپنایا ہے ۔
حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کو انتشار اور انارکی کی طرف بڑھنے سے روکے ۔ اپوزیشن کے جائز اور آئینی مطالبات پر بات چیت کرکے در میانی راستہ نکالے ورنہ نقصان جمہوری نظام کو ہوگا ۔ ملک کو ہوگا۔قومی دارے بھی سیا سی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیداکرنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں ورنہ بے لچک رویے پوائنٹ آف نو ریٹرن کی طرف لے جاتے ہیں جو ناقابل تلافی نقصان کا سبب بنتے ہیں۔