• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ڈی ایم کی صورت میں ایک نیا اتحاد آخر کار وجود میں آگیا ہے جس نے عمران خان کی حکومت کے خلاف کل جماعتی کانفرنس میں چھبیس نکاتی قرار داد کے ساتھ ساتھ چھ نکاتی ایکشن پلان بھی واضح کر دیا ہے۔ آج تحریک انصاف کی حکومت احتساب کے انتقامی نعروں کیساتھ ساتھ انحطاط پذیر بھی ہے۔ سماج میں اس انحطاط کے عمل کو روکنے کے لئے ایک موہوم سی روشنی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی قراردادوں اور ایکشن پلان کی صورت میں نظر آئی ہے۔ نواز شریف کی تقریر نے اس اے پی سی کا موڈ ہی بدل کر رکھ دیا جس کے بعد کسی بھی پارٹی کو بشمول مسلم لیگ ن اس بیانیے سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ ملا۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان میں سیاسی طاقت عوام کے ہاتھوں میں نہیں ہے اور حکمران طبقے منظم ہونے کی وجہ سے پاکستان کی سیاست میں تہتر سال سے اپنا عمل دخل رکھتے ہیں۔ قرارداد میں زور دیا گیا ہے کہ ادارے آئین کے تحت دیے گئے حلف اور اس کی متعین کردہ حدود کی پابندی و پاسداری کرتے ہوئے سیاست میں مداخلت سے باز رہیں۔ کل جماعتی کانفرنس کے اعلامیے میں بلدیاتی اداروں کے بارے میں سرسری ذکر تو کیا گیا ہے لیکن کہیں بھی اس کو ایک بنیادی ادارہ بنانے کا اعادہ نہیں کیا گیا کیونکہ دراصل یہ ایک فیصد اشرافیہ کے مفاد کے خلاف ہے کہ کوئی مزدور، کسان، وکیل، عورتیں اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے غریب لوگ سیاست کا حصہ بن جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس اے پی سی کے اعلامیے میں کہیں بھی طلبہ یونین کی بحالی کا ذکر بھی نہیں کیا گیا۔

کل جماعتی کانفرنس کی قراردادوں کی ایک اہم بات ٹروتھ کمیشن کا قیام ہے جو 1947سے لے کر اب تک کی پاکستان کی حقیقی تاریخ کو دستاویزی شکل دے گا۔ نیلسن منڈیلا نے اٹھائیس سال جیل میں رہنے کے بعد جب اقتدار سنبھالا تو اس نے ٹروتھ کمیشن قائم کیا۔ یہ اصطلاح وہیں سے لی گئی ہے۔ اس نے سفید فام اقلیت کے خلاف کسی قسم کے انتقام سے اجتناب کیا حالانکہ ان سفید فاموں نے سینکڑوں سال ان پر ظلم بزور شمشیر کیا تھا۔ اس نے اعلان کیا کہ ریاست کے تمام ادارے اور اشخاص اس کمیشن کے سامنے پیش ہو کر اپنے ظلم و بربریت کی تاریخ اگر سچ سچ بیان کر دیں تو انہیں معاف کر دیا جائے گا اور ایسا ہی ہوا کیونکہ نیلسن منڈیلا کا مقصد ایک ایسی قوم کی تشکیل کرنا تھا جہاں سفید فام اور سیاہ فام دو مختلف پھولوں کے رنگوں کی طرح ایک گلدستے میں سمو جائیں۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں اداروں نے ایسے سماجی رویے نہیں اپنائے اور نہ ہی تاریخ سے کوئی سبق حاصل کیاہے اسلئے یہ ٹروتھ کمیشن اکیسویں صدی میں ایک اعلیٰ روایتوں کا امین تو ہو سکتا ہے لیکن مروجہ سیاسی و سماجی رویے اس کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ اے پی سی کے ایکشن پلان میں کہا گیا ہے کہ وکلا، کسان، مزدوروں، طالب علموں اور سول سوسائٹی کے ساتھ عوام کو اس تحریک کی سرگرمیوں میں شامل کیا جائے گا لیکن جب الیکشن ریفارمز کی بات کی جاتی ہے تو ان مظلوم طبقات کی نمائندگی کا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔ یاد رہے کہ انہی سیاسی پارٹیوں نے 2017کے الیکشن ایکٹ میں صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کی فیسیں دو ہزار اور چار ہزار سے بڑھا کر بیس ہزار اور چالیس ہزار کر دیں اور الیکشن کے اخراجات پانچ لاکھ سے بڑھا کر پچاس لاکھ کردیے۔ یہ وہ بنیادی تضادات ہیں جن کا سامنا ہماری سیاست کو ہے جس کی وجہ سے یہ خانوادے کبھی ق کی شکل میں اورکبھی باپ کی شکل میں مختلف ادوار میں بڑی سیاسی جماعتوں کی مجبوری بن جاتے ہیں کیونکہ آپ نے خود یہ تہیہ کیا ہوا ہے کہ الیکشن کے پراسیس میں صرف ایک فیصد اشرافیہ ہی تہتر برسوں میں پارلیمنٹ تک پہنچے اور نناوے فیصد عوام ان اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال بن کر رہ جائیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ پاکستان کو جدید نوآبادیاتی پسماندہ ملک کے تمام تر تضادات کو اپنے اندر سمو کر اس ملک کو حقیقی وفاقی مملکت جس میں اٹھارہویں ترمیم کے مطابق صوبائی خودمختاری، غیرجانبدارنہ خارجہ پالیسی، فلاحی ریاست کے تصور کے ساتھ امن اور خوشحالی کا گہوارہ بنا سکتی ہے جس کا خواب قائداعظم محمد علی جناح نے دیکھا تھا۔

تازہ ترین