• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کی ترقی پذیر جمہوریتوں کے کچھ فیچر تو بالعموم یکساں ہوتے ہیں، جیسے خاندان میں ہی اقتدار کو مرتکز کرنے کی ذہنیت، عوام کے بڑے طبقے کا اس کو ہضم کر لینا، لیڈر کوبت بنا لینا،متبادل قیادت کا فقدان، نحیف اپوزیشن ،انڈر پریشر میڈیا اور اس کی ڈگمگاتی آزادی، صحافیوں سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کی شکایات، ہر انتخاب مشکوک، انتخابی نتائج بمشکل ماننا، حکومت سے جلد جلد مستعفی ہونے کا مطالبہ وغیرہ، نحیف، جمہوریتوں کی ان بیمار مشترکہ اقدار کے علاوہ ہر ترقی پذیر جمہوریت میں عملی سیاست کے ایسے امتیازی ماڈل بھی شعوری کوشش سے تشکیل پاتے ہیں یا مخصوص صورتحال میں یہ متبادل راہ کے طور پر وجود میں آتے ہیں۔

ہم 1979ء سے تادم ایسے تین بڑے اور ملکی سیاست میں ہلچل پیدا کرنے والے ماڈل دیکھ چکے ہیں اور دیکھ رہے ہیں، جن کا تجربہ مشاہدہ نہ ہمیں زندگی میں ہوا نہ یہ (شاید) دنیا میں کہیں اور پریکٹس ہوئے۔عملی سیاست کے یہ تینوں ماڈلز ایک اعتبار سے ہم شکل ہیں، یہ ماڈل ’’ہوا کے دوش پر سیاست ‘‘ کا ہے، جسے میں ’’براڈکاسٹ پالیٹکس ‘‘ کا نام دے رہا ہوں۔اگرچہ امریکن اینگلوبلاک اور سوویت بلاک کے درمیان 40سالہ سردجنگ میں یہی کمیونیکیشن ٹیکنالوجی استعمال کی گئی اور یہ اس عالمی نظریاتی جنگ میں اس (براڈکاسٹ کمیونیکیشن) کا سب سے وسیع تر اور موثر ترین استعمال تھا لیکن ترقی پذیر جمہوریتوں میں چونکہ ریڈیو براڈ کاسٹنگ سرکاری کنٹرول میں تھی سو وہاں کی سیاست میں اس کا محدود استعمال بھی ممکن نہ تھا ۔تاہم ان ممالک میں اپنے ہی ملک کی سیاست کے حکومت مخالف پیغامات عالمی نشریاتی اداروں سے سنے جاتے جن کے اعتبار (کریڈیبلٹی) کا درجہ بھی بلند تھا۔ سو یہ رائے عامہ کی تشکیل میں تیر بہدف ہوتے۔1977ء میں ملک گیر انتخابی دھاندلیوں پر بھٹو حکومت کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک میں جب آزاد پرنٹ میڈیا پر بھی کڑا سنسر شپ اور طرح طرح کی پابندیاں لگ گئیں تو بی بی سی پاکستانیوں کے لئے سب سے زیادہ موثر ذریعہ ابلاغ بن گیا تھا اور نئی دہلی سے تحریک کو کور کرنے کے لئے آئے بی بی سی کے بیوروچیف مارک ٹیلی کو پیپلز پارٹی والوں نے قومی اتحاد کا دسواں ستارہ قرار دیا تھا واضح رہے قومی اتحاد کے پرچم پر اتحاد کی نو جماعتوں کے حوالے سے 9ستارے تھے دسواں طنزاً مارک ٹیلی کو کہا جانے لگا۔

فروری 1979ء میں ایران میں تو اسلامی انقلاب آیا اس کے برپا ہونے کی بہت بڑی اوریقینی وجہ انقلاب کے پس منظر میں یہی براڈ کاسٹ پالیٹکس تھی جو ایک ہی عظیم تر سیاسی مقصدکے لئے تیر بہدف ثابت ہوئی۔حالانکہ امام خمینی کوئی عملی سیاست میں تھے نہ ان کی کوئی سیاسی جماعت تھی لیکن ایران میں شہنشاہیت کے مکمل غلبے پر بھی دیہات کی غربت، اظہار رائے پر پابندیوں، ایران کی شہرت، خلیج میں امریکی چوکیدار ہونے اور شہروں کے متوسط طبقے کے تیزی سے مغربیت کی طرف مائل ہونے پر، اس سب کی مخالفت و مزاحمت امام صاحب نے بطور ایک مذہبی اسکالر، مذہبی فریضہ سمجھا جب انہوں نے شہنشاہیت کے نشے میں سرشار شاہ کے منہ پر کلمہ حق کہنے کا دروازہ کھولا تو یہ برداشت نہ ہوا ۔ انہیں جلاوطن کر دیا گیا یہ وہ وقت تھا جب مذہب کے سہارے اور مذہبی نوعیت کی بڑی کاز پر کتنی ہی تحریکیں چل رہی تھیں۔سب سے بڑھ کر ہمسایہ پاکستان میں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف تحریک بہت جلد تحریک نظام مصطفیٰ میں تبدیل ہو کر بھٹو حکومت کے مذاکرات پر جلد نہ آنے اور انتخاب کے مطالبے کو ماننے میں گریز سے مارشل لا کے نفاذ پر ختم ہوئی۔ پولینڈ میں سالیڈیرٹی نامی مزدور تحریک نے گرجے کھولنے اورگوشت کی قیمت کم کرنے پر کامیاب تحریک شروع کی، بھارت میں خالصتان تحریک کا رنگ مکمل مذہبی تھا لیکن ان سب میں سب سے نتیجہ خیز امام خمینی کا بغیر سیاسی پلیٹ فارم کے پیرس میں بیٹھے ’’براڈ کاسٹ پالیٹکس‘‘ کا ماڈل ہوا ۔ جناب خمینی کی جو براڈ کاسٹڈ تقریریں قم (ایران میں علماء کا مرکز) کی احتجاجی ریلیوں میں لینڈ کرتی تھیں انہوں نے ایرانی عوام کو موبلائز کرنے میں دیر نہ لگائی اور احتجاجی ریلیاں بہت جلد ایک انقلاب آفرین تحریک میں تبدیل ہو گئیں لیکن ذہن نشین رہے کہ امام صاحب کا سیاسی ہدف عظیم تر، ان کی کریڈیبلٹی بلند درجے پر اور شخصیت سحرانگیز تھی۔ کمیونی کیشن سائنس کے عین مطابق کمیونیکیشن سپورٹ سے کوئی عظیم تر تبدیلی برپا کرنے کے لئے یہ تینوںپوٹینشل شدت سے مطلوب ہوتے ہیں ایک تو (سحرانگیزی )قدرتی ہے دو کا تعلق رہبر کے کردار اور ابلاغ کے مقصد کی واقفیت سے تھا تو انہوں نے پیرس میں بیٹھے ہوا کے دوش پر اپنی سیاست سے وہ کچھ کر دیا، جو بڑی سے بڑی سیاسی جماعت یا کتنی ہی جماعتوں کے اتحاد عشروں میں پیدا کر سکتے، جیسا کہ پاکستان میں مسلم لیگ، پی پی اور کتنے ہی جماعتوں کے اتحاد کتنی ہی ملک گیر تحریکیں چلا کر بھی حقیقی جمہوریت نہیں لاسکے۔ پاکستان میں بھی ہوا کے دوش پر سیاست (براڈکاسٹ پالیٹکس) کے دو ماڈل متعارف ہوئے ۔ایک ایم کیو کے بانی ’’الطاف بھائی ‘‘ نے کیا۔دوسرے کا ابھی آغاز ہی ہوا ان ماڈلز کے کیا نتائج نکلے اور نکلتے نظر آ رہے ہیں اور کیوں نکلے اور نکلتے نظر آ رہے ہیں ؟ ایک کتنا مہلک ثابت ہوا؟ دوسرا کتنا متنازعہ ہے ؟ اتنا کہ ن لیگ کے پاور بیس سنٹرل پنجاب میں باریک دراڑپڑ گئی ۔ (جاری ہے )

تازہ ترین