• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تعصب ایک حد تک تو قابل قبول اور قابل برداشت ہے لیکن اس کے بعد یہ جہالت کی سرحدوں میں داخل ہوجاتا ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کے لئے تو بالکل ہی درست نہیں جن کا تعلق علم و دانش کی دنیا سے ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے یہ نکات ملک بھر میں ہر فورم پر ڈسکس ہوتے اور پھر سو فیصد میرٹ پر ان کے جواب تلاش کئے جاتے تو بہتر تھا۔ ہمارا ہر گھر”آمریت“ پر چلتا ہے، خاندان کے سربراہ کی ہر بات بالکل حرف آخر ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود کوئی”ہیڈ آف دی فیملی“ مشاورت کے بغیر کوئی بڑا فیصلہ نہیں کرتا تو ملکی معاملہ میں سارا ملبہ ”فرد واحد“ پر کیسے ڈالا جاسکتا ہے سو اگر قائد تحریک نے یہ کہا کہ
”12اکتوبر 1999ء کے دن سے سب کے خلاف مقدمہ چلایا جائے“ تو اس میں غلط کیا ہے کہ اتنی بڑی واردات ”کلے بندے دا کم نئیں ہوندی“ یعنی اتنے بڑے ایکشن کے پیچھے صرف ایک آدمی نہ ہوتا ہے نہ ہوسکتا ہے۔”میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو“ اور یہ بارہ اکتوبر سے بھی بڑی واردات ہوگی تو کیوں نہ تمام کرداروں کو بے نقاب کرکے زیر احتساب لایا جائے؟
دوسری بہت ہی اہم اور حساس بات یہ کہ اگر پرویز مشرف کے ساتھ کیا جانے والا ناروا سلوک”جائز“ ہے تو پھر اصغر خان کیس میں بڑی بڑی رقمیں بٹورنے والے آئی جے آئی کے تمام رہنماؤں کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کرنے کے بعد ان پر بھی مقدمہ کیوں نہ چلایا جائے؟ ایسا نہ ہوا توآئندہ نسلیں ہماری قبروں پر تھوکیں گی۔
ایم کیو ایم کے قائد کا یہ کہنا بھی قابل غور ہے کہ پرویز مشرف کے ساتھ جو کچھ کیا جارہا ہے اس سے فوج اور حساس اداروں پرمنفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ اس بات کو یقینی بنانا کس کی ذمہ داری ہے کہ افواج پاکستان کے سابق سپہ سالار پر جوتے بازی کی مشق نہ ہو؟ …انصاف اور اس کے تقاضے بالکل علیحدہ بات؟
اور اس سے اختلاف کون کرسکتا ہے کہ پرویز مشرف کو خود پر لگائے گئے الزامات کے دفاع کا بھرپور موقع دینا بھی عدلیہ، الیکشن کمیشن آف پاکستان، نگران حکومت اور سیاسی جماعتوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
اور اس سے بڑا سچ کیا ہوسکتا ہے کہ تاریخ کے اس مقام و مرحلہ پر پاکستان کو ذاتی پسند ناپسند اور انتقام کے نظام سے نکال کر مکمل انصاف کا قیام کس قدر ضروری اور جمہوری تقاضا ہے۔ امید ہے کہ متعلقہ افراد اور ادارے قائد تحریک کی دردمندانہ معروضات پر غور فرمائیں گے کہ نوبت نیلام گھر والے طارق عزیز کے اس محاورہ نما جملے تک آپہنچی ہے کہ……”اب غلطی کی گنجائش نہیں ہے“
کالعدم تحریک طالبان کا یہ اعلان عقل مندوں کے لئے پراسرار قسم کا اشارہ ہے…”ن لیگ، تحریک انصاف، جے یو آئی اور جماعت اسلامی کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔”فی الحال“ فیصلہ صرف سابق حکمران جماعتوں تک محدود ہے۔ ٹارگٹ نہ کی جانے والی جماعتوں سے بھی خیر کی توقع نہیں ہے“۔آخری جملہ ہیرے جواہرات میں تلنے اور سونے کے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے جسے بی بی سی نے بھرپور انداز میں سمجھتے ہوئے سلیس زبان میں کچھ یوں بیان کیا ہے کہ”طالبان”الگ الگ کرکے مارو“ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ طالبان کے اس بیان میں”فی الحال“ کا لفظ پڑھ کر مجھ پر ”حال“ کی سی کیفیت طاری ہے لیکن افسوس ہمارے سیاسی نابغوں کو نہ اب سمجھ آرہی ہے نہ آئندہ کسی ایسے ”خطرے“ کا کوئی امکان ہے کہ ایسی سمجھ بوجھ کے لئے سچ مچ کا سیاستدان ہونا ضرور ی ہے جبکہ ان میں سے بیشتر تو دکاندار ٹائپ لوگ ہیں جو اپنی دکانوں کو”سیاسی پارٹیاں“ بنا کر پیش کرتے ہیں۔پی ٹی آئی مسلسل چڑھت پر ہے اور سیاسی حوالوں سے کشتوں پر پشتے لگارہی ہے۔ سرائیکی علاقوں میں اس کے کامیاب ترین جلسوں نے اس کے حریفوں میں سراسمیگی پیدا کردی ہے تو دوسری طرف جہاں دیکھو الیکشن کمیشن کا یہ رویہ زیر بحث ہے کہ ایک طرف تو اس نے عمران خان کی نواز شریف پر ذاتی تنقید کا نوٹس لے لیا ہے جبکہ دوسری طرف نہ اسے دھماکہ سیریز سنائی دے رہی ہے نہ باقی صوبوں میں لاشیں دکھائی دے رہی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا اسے وہ اشتہار دکھائی نہیں دیا جس میں لوڈ شیڈنگ کے حوالہ سے شہباز شریف سرعام عوام کے ساتھ متضاد وعدے کرکے انہیں ایکسپلائٹ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور پھر اس”ذاتی تنقید“ کا نوٹس کون لے گا جو عرصہ دراز سے صدر زرداری کے خلاف استعمال ہورہی ہے۔ عرصہ دراز سے ایسی زبان درازی ٹھیک ہے تو عمران خان نے ایسا کیا کہہ دیا کہ نوبت نوٹس تک جا پہنچی؟کچھ لوگ ضرورت سے زیادہ”مہذب“بننے کی کوشش میں یہ بھول رہے ہیں کہ”روشن روایات “راتوں رات تبدیل نہیں ہوتیں۔ بھٹو اور بھٹو کے پاکیزہ مخالفین کی زبان دانی یاد کرو جنہوں نے بھٹو کو”ہندو“ ڈیکلیئر کردیا تھا اور ہمارے رفیق باجوہ مرحوم و مغفور کا یہ ذومعنی جملہ کون بھول سکتا ہے کہ ”گزشتہ الیکشن میں نصرت ،بھٹو کی تھی آئندہ الیکشن میں نصرت ہماری ہوگی“ کبھی فرصت ملے تو”پنجابی بولیاں“پڑھ کر دیکھو کہ ڈاکٹر ریاض مجید نے اسی موضوع پر پی ایچ ڈی کی تھی۔ سیاست میں ہلکی پھلکی موسیقی بالخصوص الیکشن کے حوالہ سے تو اس کا”سپائس“ ہے۔ خوبصورت چھیڑ چھاڑ اور جملہ بازی کو بھی جمہوریت کا حسن سمجھو مثلاً چرچل کا تنگ دروازے میں اپنے حریف سے آمنا سامنا ہوگیا۔ دونوں موٹے سے تھے۔ حریف نے کہا”میں گدھوں کو رستہ نہیں دیا کرتا“۔ چرچل نے فوراٰ ایک طرف ہٹتے ہوئے بے ساختہ جواب دیا……”لیکن میں گدھوں کو رستہ دیدیا کرتا ہوں“ قائد ا عظم انتہائی نفیس ،مہذب ،متوازن، منطقی اور ویل منیرڈ انسان تھے۔ آپ نے بھی ایک بار ابوالکلام آزاد کو”شو بوائے آف کانگریس“ قرار دیا تو پورے برصغیر نے اسے انجوائے کیا۔”شوباز“ میں کیا برائی؟بالکل بجا کہ معاملہ گالی گلوچ تک ہرگز نہ جانے پائے۔ باقی خیر ہے، اتنا سنجیدہ و رنجیدہ“ ہونے کی ضرورت نہیں کہ بھائی! یہ الیکشن مہم ہے کوئی ماتمی جلوس نہیں۔یہ سوال مجھ سے بھی پوچھا جارہا ہے کہ تحریک انصاف اور باقی پارٹیوں میں کیا فرق ہے؟ اللہ کو جان دینی اور اپنی قبر میں ہی آسودہ خاک ہونا ہے تو حق بات یہ کہ واقعی کوئی فرق نہیں کیونکہ تحریک انصاف چاند یا مریخ سے نہیں آئی اور نہ ہی اس کے ووٹر، سپورٹر اور لیڈر سکینڈے نیویا سے امپورٹ کئے گئے ہیں لیکن دو فرق ضرور ہیں۔اول :عمران خان صرف تحریک انصاف کے پاس ہیدوم:عمران خان نے اپنے خاندان کے ذریعہ پی ٹی آئی کو پرائیویٹ لمٹیڈ کمپنی نہیں بنا رکھا اور نہ ہی اس پارٹی میں منحوس و مکروہ موروثیت کا کوئی امکان ہے کہ پورے کا پورا خاندان جوتوں سینڈلوں سمیت عوام کے سروں پر سوار ہوجائے۔ن لیگ سیاسی سالن کا نمک سمجھیں جس کے ذکر بنا بات نہیں بنتی اور تازہ ترین یہ کہ اک خبر کے مطابق (”میرے مطابق“نہیں) ن لیگ کے125ناراض امیدوار پارٹی کے لئے خطرہ بن گئے ہیں۔ سہ رکنی کمیٹی ان کو منانے پر جانے کے لئے روانہ ہوچکی جو انہیں مختلف قسم کے جھنجھنے اور لولی پاپ دے گی لیکن جو اپنی لیڈر شپ کو تھوڑا سا بھی سمجھتے ہیں وہ جھانسے میں نہیں آئیں گے…آئے تو ہم خیالوں سے زیادہ پچھتائیں گے ۔نوٹ:۔”ڈے ون“ سے عرض ہے، لکھ کر بھی اور بول کر بھی کہ پنجاب تک محدود الیکشن کو پاکستان کا الیکشن بنانے کے لئے کوئی ایکشن کریں ورنہ……”آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا“ کہ اگر مئی میں”مرگئی مرگئی“ کی قوالی سنائی نہ دی تو درفٹے منہ ایسی”دانشوری“ کے… لیکن افسوس اس ملک کے”مچھر مار“ معززین مگر مچھوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں گے!
تازہ ترین