• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گوگل پر ہر وقت کوئی نہ کوئی اپنی مطلوبہ معلومات سے متعلق کچھ نہ کچھ سرچ کرتا رہتا، اور سرچ انجن صارف کو دنیا بھر میں موجود ہزاروں ویب سائٹس کو اسی صارف کے سامنے چند سیکنڈز میں پیش کردیتا ہے۔

یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ مطلوبہ معلومات کے حصول کے لیے جیسے ہی ہم مخصوص الفاظ کا استعمال کرکے سرچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہماری سرچ کرنے سے متعلق معلومات گوگل تک پہنچ جاتی ہے۔

گوگل کے سرچ پر جو ہم لکھتے ہیں اسے Keyword کہا جاتا ہے اور گوگل کے ڈیٹا بیس میں یہ چیز محفوظ ہوجاتی ہے کہ کس نے کون سے الفاظ کے ساتھ سرچنگ کی ہے۔

غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق امریکی تحقیقاتی اداروں نے گوگل سے کہا ہے کہ انھیں ایسے افراد کا ڈیٹا فراہم کیا جائے تو ان کی کسی مخصوص تفتیش سے متعلق گوگل پر سرچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

رواں سال ہی امریکی ریاست فلوریڈا کی پولیس نے آر کیلی پر جنسی ہراسانی کا الزام لگانے والی خاتون کے خلاف اپنی ہی گاڑی کو گھر کے باہر جلوانے کی تحقیقات کا آغاز کیا۔

اس دوران پولیس نے گوگل کو سرچ وارنٹ دیتے ہوئے کہا کہ انھیں وہ ڈیٹا فراہم کیا جائے کہ جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ دورانِ آتشزدگی کس نے خاتون کے گھر کے پتے کے بارے میں سرچ کیا۔


گوگل نے سرچ وارنٹ کے جواب میں پولیس کو خاتون کے گھر کا پتہ سرچ کرنے والوں کا ڈیٹا حوالے کردیا، جس کی بنیا پر پولیس نے ایک شخص کو حراست میں لیا۔

تاہم اس تمام تر صورتحال کے بعد امریکا کے انسانی حقوق کے اداروں نے گوگل کی جانب سے پولیس کو ڈیٹا فراہم کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور اسے امریکی شہری حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

دوسری جانب گوگل کا کہنا ہے کہ وہ اپنے صارفین کی رازداری کی حفاظت بھی کرتا ہے جبکہ کسی پیچیدہ معاملے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد بھی کرتا ہے۔ 

گوگل کے ڈائریکٹر لا اینفورسمنٹ اینڈ انفارمیشن سیکیورٹی رچرڈ سالگاڈو نے اپنے بیان میں کہا کہ ہمیں مخصوص مطالبات کے دائرہ کار کو محدود کرنے کے لیے وارنٹ درکار ہوتا ہے۔

تازہ ترین