• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی کے سفر میں چند لمحے سوچنے بیٹھوں تو میری گم گشتہ یادوں میں ایک ہنستی مُسکراتی ،پاکیزہ، باحیا روح کی تصویر اُبھر آتی ہے،جو میری پیاری سی دادی جان کی ہے ۔دادی جان نے مشکل سے مشکل حالات کا مَردانہ وار مقابلہ کیا۔ انہوں نے کسی اسکول سے باقاعدہ طور پر تعلیم تو حاصل نہیں کی ، مگر اخبارات وغیرہ باآسانی پڑھ لیتی تھیں۔ اور اتنی شائستہ گفتگو کرتیں کہ ہر کوئی حیران رہ جاتا ۔ ان کے اندر صبر کا مادّہ کُوٹ کُوٹ کر بَھرا تھا۔ اپنے دو بچّوں کےانتقال اور بچّیوں کی شدید بیماری دیکھنے کے باوجود اُنہیں کبھی شکوے شکایات کرتے دیکھا، نہ سُنا۔ ہر وقت کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتیں۔ پورے خاندان میں اُن کا سگھڑاپا اور سلیقہ ضرب المثل تھا۔

زمانۂ طالبِ علمی میں اکثر مَیں گھنٹوں اُن کے کمرے میں بیٹھی خاموشی سے ان کی باتیں سُنتی رہتی تھی۔ یادداشت متاثر ہونے کی وجہ سے انہیں حال کے واقعات یاد نہیں رہتے تھے، مگر ماضی حرف بہ حرف یاد تھا۔ بھارت میں وہ کہاں رہتی تھیں، گھر کتنا بڑا تھا، صحن کتنے تھے، والد، چچا، دادا، نانا کا کیا پیشہ تھا، سب کچھ ازبر تھا۔ ویسے تو مجھے دشمن مُلک ہونے کی وجہ سے بھارت سے کبھی کوئی لگاؤ نہیں رہا، مگر دادی کے قصّے کہانیاں سُن کر بھارت جانے کو جی چاہتا تھا۔ وہ بتاتی تھیں کہ ان کے وسیع و عریض گھر میں تین صحن تھے۔ نیم کے درخت پر جھولا پڑا رہتا تھا اور جب وہ جھولاجھولتیں تو ہمالیہ کی برف پوش چوٹیاں نظر آتی تھیں۔

کم عُمری میں بچّوں کے ذہن میں بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں۔ مَیں جب بھی ان سے کوئی سوال پوچھتی، وہ بہت پیار سے تسلّی بخش جواب دیتیں۔ بعض اوقات امّی سے ڈانٹ پڑتی تو مَیں فوراًدادی سے شکایت کرتی۔ پھر وہ بہت شفقت سے سمجھاتیں کہ ’’بٹیا! امّاں ہیں تمہاری۔ دِل چھوٹا نہیں کرتے۔ تمہارے بھلے ہی کے لیے ڈانٹتی ہیں۔ بس چُپ کر کے سُن لیا کرو، بڑوں کے سامنے بولنا بے ادبی ہوتی ہے۔‘‘ اُس وقت تو ان کی باتیں سمجھ نہ آتی تھیں، مگر آج زندگی کے اس مقام پر پہنچ کے سب سمجھ آتی ہیں۔ ایک بار وہ شیشے پر لگی تصویر کُھرچ کُھرچ کر صاف کررہی تھیں اور ساتھ کہتی جاتیں کہ’’بٹیا! جس جگہ تصویریں ہوں، وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔‘‘تو مجھے آج تک نماز پڑھنے سے پہلے یا ویسے بھی ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ کمرے میں کوئی تصویر وغیرہ نہ ہو۔

دادی جان کسی کو اپنی وجہ سے پریشان نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ایک دفعہ زینہ اُترتے ہوئے نہ جانے کیسے ان کا پاؤں پھسل گیا اور وہ گر گئیں۔ یہ دیکھ کر میرے ہاتھ پاؤں پُھول گئے۔ فوراً ہی سب ان کے آس پاس جمع ہوگئے۔ دادی جب تھوڑی پُرسکون ہوئیں، تو میری فق صُورت دیکھ کر اُلٹا مجھے تسلّی دینے لگیں کہ’’بٹیا رانی! مَیں ٹھیک ہوں، مجھے کچھ نہیں ہوا۔‘‘حالاں کہ درد کی شدّت ان کے چہرے سے عیاں تھی۔ یادداشت کی کم زوری کے باعث اکثر وہ کسی کو پہچان نہیں پاتی تھیں۔ ایک باروہ رات میں امّی کے پاس آئیں اور کہنے لگیں، ’’ہائے ہائے بٹیا! کمرے میں نہ جانے کون گھس آیا ہے؟؟‘‘امّی نے انہیں بتایا کہ یہ آپ کے شوہر ہیں،مگر وہ دادا کو پہچاننے سے انکاری ہوگئیں۔ 

امّی کے لاکھ سمجھانے پر بھی نہ مانیں، تو ابّو انھیں اپنے کمرے میں لے آئے، تب کہیں جاکر پُرسکون ہوئیں۔دادا جان حکیم تھے اور ان کا اپنا مطب تھا۔ وہ اپنی الماری میں بسکٹس اور نمکو رکھتے تھے،جو ہر آنے جانے والے بڑے، چھوٹے کو دیا کرتے۔ اس لیےانہیں سب لاڈ سے’’بسکٹ والے نانا‘‘بھی کہتے تھے۔ ایک بار مَیں اور دادی الماری کھولے کھڑے تھے، تو دادی نے میری طرف رازدارانہ مُسکراہٹ کے ساتھ دیکھتے ہوئے اوپر کی طرف اشارہ کیا، جہاں بسکٹس اور نمکو رکھےتھے۔ پھر مَیں نے نمکو اور دادی نے بسکٹس کی دعوت اُڑائی۔ انھیں کبھی بھوک لگتی، تو اظہار کا انداز بھی بہت نرالا ہوتا تھا۔ وہ کبھی یہ نہیںکہتی تھیں کہ مجھے بھوک لگ رہی ہے، بلکہ کہتیں، ’’بچّوں کو بھوک لگ رہی ہوگی۔‘‘

یوں تو دادی اَن گنت خُوبیوں کا مجموعہ تھیں، لیکن ایک خُوبی جس پر مجھے بہت رشک آتا، وہ اُن کی حیا تھی۔ عُمر کے آخری حصّے تک انھیں اپنی حیا کا بہت خیال تھا۔ ایک دفعہ ہمیں کہیں جانا تھا اور ان کا برقع نہیں مل رہا تھا۔ ابّو نے ان سے کہا کہ بڑی سی چادر اوڑھ کر چلیں، لیکن نہ مانیں۔ ابّو نے زیادہ ضد کی تو خُوب ڈانٹا، لیکن برقعے کے بغیرجانے پر ہرگز تیار نہ ہوئیں۔ آخری دنوں میں وہ بہت بیمار ہوگئی تھیں اور تقریباً دو ماہ اسپتال رہیں۔اس حالت میں بھی امّی سے کہتی رہتی تھیں کہ میرا دوپٹّا ٹھیک کردو۔وہ اکثرباآواز بُلند کلمے کا ورد کرکے آخر میں درود شریف پڑھتیں۔ 

دادی جان کا زخم اس نوعیت کا تھا کہ انہیں زیادہ پانی نہیں پلاسکتے تھے، لہٰذا ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق تھوڑا سا پانی چمچ سے ان کے حلق میں ٹپکا دیتے تھے۔ یہ وقت بھی انہوں نے بہت حوصلے سے گزارا۔جب اللہ کے دَر سے بلاوا آیا، تو اس وقت ابّو ان کے پاس موجودتھے۔ ابّو بتاتے ہیں،’’مغرب سے کچھ پہلے مَیں نے دیکھا، امّی نے آنکھیں کھول کر چاروں طرٖف دیکھا اور اپنا آپ ٹھیک کیا۔ مَیں خوش ہوگیا کہ امّی ٹھیک ہوگئی ہیں۔ مَیں نے جلدی سے انھیں آبِ زم زم پلایا،تو کہنے لگیں،’’مَیں بہت خوش ہو کر جا رہی ہوں۔ تم سب اپنا خیال رکھنا۔‘‘ پھر کلمہ پڑھا اور آنکھیں موند لیں۔

اُن کا انتقال رمضان المبارک میں ہوا تھا۔آج دادی ہم میں نہیں ہیں، لیکن ان کی یادیں اور باتیں آج بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ ان کی زندگی میں ہم سب کے لیے بہت سے اسباق پوشیدہ ہیں،خاص طور پر شرم و حیا کی پاس داری کا سبق کہ انسان کو اپنی حیا کی لمحہ لمحہ فکر کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ دادی جان کو کروٹ کروٹ جنّت نصیب فرمائے اور ان کی قبر کو جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا دے(آمین)۔ (عمّارہ حسن، اسلام آباد)

تازہ ترین