• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج مجھے ہر صورت میں ایک شکریہ ادا کرنا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگوں کو میرا یہ شکریہ بہت برا لگے گا اور وہ اپنی اوقات کے مطابق مجھ پر طرح طرح کے الزامات لگائیں گے لیکن مجھے ہمیشہ کی طرح اپنی ذات پر لگائے گئے بے بنیاد الزامات کی کوئی پرواہ نہیں۔ میرا کام یہ ہے کہ غلطی کوئی بھی کرے میں غلطی کی نشاندہی کروں اور اچھا کام کوئی بھی کرے اس کااعتراف کروں۔ آج مجھے پاکستانی فوج اور اس کے سربراہ کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ پاکستانی فوج کے سربراہ نے 30اپریل2013ء کی شام سیاست پر گفتگو تو کی لیکن سیاست میں مداخلت کئے بغیر پاکستانی سیاست کو ایک نیا رخ دیدیا۔ میں منگل کی شام جنرل ہیڈ کوارٹرز روالپنڈی میں یوم شہداء کی تقریب سے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے خطاب پر بعد میں بات کروں گا۔ پہلے آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس خوبصورت اور پروقار تقریب میں پہلی دفعہ صرف افواج پاکستان کے افسران اور جوانوں کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش نہیں کیا گیا بلکہ ایف سی، پولیس اور سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ صحافیوں سمیت عام پاکستانی شہریوں کی قربانیوں کا اعتراف بھی کیا گیا۔ میں تاریخ کا ادنیٰ سا طالبعلم ہوں۔میں نے 30 اپریل کی شام ایک نئی تاریخ بنتے ہوئی دیکھی جب جی ایچ کیو میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما بشیر احمد بلور کا نام ایک قومی ہیرو کے طور پر لیا گیا۔ افواج پاکستان کے افسران اور جوانوں کے سامنے ایک بڑی سکرین پر بشیر احمد بلور کی بہادری کی کچھ جھلکیاں دکھائی گئیں اور پھر ان کے بہادر بیٹے ہارون بلور کو ڈائس پر بلایا گیا۔ ہارون بلور نے یوم شہداء کی تقریب کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سلامتی کے لئے وہ ان کی پارٹی پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ کسی قربانی سے دریغ نہیں کریگی۔ یہ الفاظ ایک ایسے نوجوان کی زبان سے ادا ہوئے جو پشاور سے اے این پی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑرہا ہے، جو اپنے بہادر والد کی طرح بموں اور گولیوں کے سامنے ڈٹا ہوا ہے۔ یہ الفاظ ایک ایسے نوجوان نے کہے جس کے خاندان اور جس کی پارٹی کو سالہا سال تک پاکستان میں غدار کہا جاتا رہا۔ یہ وہی پارٹی ہے جس کے ایک پرامن جلوس پر 12 اگست1948ء کو خان عبدالقیوم خان کے حکم پر گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی۔ بابڑہ کے مقام پر ہونے والی اس ریاستی دہشتگردی میں چھ سو سے زائد افراد مارے گئے۔ ان شہداء کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ خان عبدالغفار خان کی گرفتاری پر احتجاج کررہے تھے جو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھا چکے تھے لیکن خان عبدالقیوم خان انہیں محب وطن تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھا۔ یہ وہ پارٹی تھی جس نے1964ء کے صدارتی الیکشن میں جنرل ایوب خان کے مقابلے پر محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا لیکن اس پارٹی کو غدار قرار دے کر ایک عدالتی فیصلے کے ذریعہ اس پر پابندی لگادی گئی۔ پھر اس پارٹی نے اپنا نام بدلا۔ جنرل ضیاء الحق کے دو رمیں ایسا وقت بھی آیا جب خان عبدالغفار خان، خان عبدالولی خان، اسفندر یار ولی، حاجی غلام احمد بلور، بشیر احمد بلور سمیت اے این پی کے اکثر رہنما جیل میں ڈال دئیے گئے لیکن پھر ہم سب نے دیکھا یہی پارٹی پاکستانی ریاست کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے خلاف ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر فوج کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ اس پارٹی کے سینکڑوں کارکنوں نے بم دھماکوں اور ٹارگٹ حملوں میں جانوں کے نذرانے پیش کئے اور ان کے جسد خاکی پاکستان کے سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کر سپرد خاک کئے گئے۔30اپریل کو ماضی کے ا ن غداروں کو جی ایچ کیو میں نذرانہ عقیدت پیش کرکے پاکستان کی سیاسی تاریخ کو بدل دیا گیا جس پر ایک پاکستانی کی حیثیت سے میں پاکستانی فوج کا شکر گزار ہوں جس نے ماضی کے ڈکٹیٹروں کی طرف سے اے این پی پر لگائے جانے والے غداری کے الزامات کو مسترد کردیا۔
مجھے پاکستانی فوج کا اس لئے بھی شکریہ ادا کرنا ہے کہ پہلی دفعہ جی ایچ کیو میں صحافیوں کی قربانیوں کااعتراف کیا گیا۔ 10مئی 2011ء کو پشاور میں شہید ہونے والے صحافی نصر اللہ آفریدی کے بیٹے احسان اللہ اور قوت گویائی سے محروم دومعصوم بچوں کو یوم شہداء کے سٹیج پر بلا کر ان کے والد کی بہادری کا اعتراف کیا گیا۔ نصراللہ آفریدی خیبر ایجنسی کے علاقے باڑہ میں رہتے تھے۔ انہوں نے پشاور کے ایک اردو اخبار میں لشکر اسلام نامی تنظیم کی غیر قانونی سرگرمیوں کو بے نقاب کیا تو ان کے گھر پر دستی بم پھینکے گئے۔2006ء میں وہ باڑہ سے پشاور منتقل ہوگئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب خیبر ایجنسی کو پولیٹیکل انتظامیہ اور کچھ ریاستی اداروں میں موجود گمراہ عناصر لشکر اسلام کے کمانڈر منگل باغ کی سرپرستی کرتے تھے۔ نصراللہ آفریدی کو بہت ڈرایا دھمکایا گیا لیکن وہ حق گوئی سے باز نہ آئے۔2007ء میں ان کے گھر واقع پشاور پر بم حملہ کیا گیالیکن وہ بچ گئے۔ پھر منگل باغ نے اپنے غیر قانونی ریڈیو کے ذریعہ نصر اللہ آفریدی کو دھمکیاں دیں۔ کچھ مقامی صحافیوں نے پیشہ وارانہ رقابت کے باعث منگل باغ کو نصر اللہ آفریدی کے خلاف بھڑکایا۔ کچھ سازشی سرکاری افسران بھی منگل باغ کے کان بھرتے رہے۔10 جولائی2011ء کو نصر اللہ آفریدی کی گاڑی میں ایک ریموٹ کنٹرول بم نصب کیا گیا اور جب وہ رات کو دفتر سے گھر واپس جانے لگے تو انہیں گاڑی سمیت اڑادیا گیا۔ جب نصر اللہ آفریدی کی قوت گویائی سے محروم بیٹی یوم شہداء کے شرکاء کو ہاتھ کے اشاروں سے بتارہی تھی کہ اس کے ابو جنت میں بڑے خوش ہیں تو میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے شکیل ترابی بھی اپنے آنسو پونچھ رہے تھے۔ یہ وہی شکیل ترابی ہے جسے سچ لکھنے پر جنرل پرویز مشرف کے دور میں خفیہ ادارے زدو کوب کرتے رہے اور ان کے بچوں کے سکولوں میں گھس کر انہیں دھمکیاں دیتے رہے۔ آج اس شکیل ترابی کی جی ایج کیو میں موجودگی فوج کو یہ پیغام دے رہی تھی کہ ہماری لڑائی ادارے کے ساتھ نہیں بلکہ اس فرد کے ساتھ تھی جس نے آئین توڑ کر پاکستان کو بدنام کیا۔ فوج بحیثیت ادارہ ہمارے لئے قابل احترام ہے۔ فوج نے پہلی دفعہ صحافیوں کی قربانیوں کااعتراف کیا جس پر ہم فوج کے شکرگزار ہیں۔ اس تقریب میں پشاور پولیس کے بہادر ایس پی عبدالکلام ، ایف سی بلوچستان کے سپاہی نواب خان اور پاکستان آرمی کے نائیک اختر پرویز کی شہادتوں کا ذکر بھی ہوا۔ سپاہی نواب خان کی بوڑھی والدہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا کر روتے ہوئے نڈھال ہوگئی۔ اس تقریب کے ذریعہ فوج اور عوام میں فاصلے کم کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی جو لائق تحسین ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے واضح کیا کہ انتخابات 11مئی کو ہونگے۔ انہوں نے ٹھیک کہا کہ جمہوریت اور آمریت کی آنکھ مچولی صرف سزا و جزا سے نہیں بلکہ عوام کی بھرپور شمولیت سے ختم ہوسکتی ہے۔ تقریب میں موجود کچھ لوگوں نے انکے الفاظ میں سے اپنی مرضی کے معنی نکالنے کی کوشش کی لیکن اس تقریب کے اختتام پر کئی شہداء کے ورثاء نے مجھے کہا کہ جس طرح جنرل کیانی نے پاکستان کے آئین کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے خلاف جنگ کو اپنی جنگ قرار دیا ہے اسی طرح وہ پاکستان کے ا ٓئین کو بار بار توڑنے والے پرویز مشرف کو بھی اپنا دشمن سمجھتے ہیں کیونکہ اس نے فوج کو رسوائی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ محب وطن پاکستانیوں کی اکثریت کے خیال میں تحریک طالبان پاکستان اور پرویز مشرف میں کوئی فرق نہیں دونوں آئین شکن ہیں اس لئے پشاور ہائی کورٹ کی طرف سے پرویز مشرف کے الیکشن لڑنے پر تاحیات پابندی کی ہر سچا پاکستانی تعریف کررہا ہے کیونکہ 31 جولائی2009ء کے فیصلے میں مشرف کو واضح طور پر غدار قرار دیا گیا ہے۔ افواج پاکستان نے پرویز مشرف کے مخالفین کو اپنا مخالف سمجھنا چھوڑ دیا ہے اب ہمیں آہستہ آہستہ مشرف کی پالیسیوں سے بھی نجات چاہئے جو آج بھی جاری ہیں۔ مجھے امید ہے کہ پاکستانی طالبان کی تمام تر دھمکیوں کے باوجود فوج اور عوام مل کر گیارہ مئی کو انتخابات کا مرحلہ کامیابی سے عبور کریں گے جس کے بعد انشاء اللہ ایک نیا پاکستان وجود میں آئے گا۔
تازہ ترین