اپوزیشن کی تحریک کا بگل بج چکا ہے اور16 اکتوبر کو گوجرانوالہ میں ایک بڑے جلسہ کی امید لگائے پی ڈی ایم کے رہنما حکومت کو گھر بھیجنے کے دعوے کررہے ہیں، اب تک کی صورتحال یہی ہے کہ صرف مسلم لیگ ن گوجرانوالہ کے جلسہ کو کامیاب بنانے کے لیے پورا زور لگا رہی ہے، مریم نواز کارکنوں اور مسلم لیگ کے ٹکٹ ہولڈر کے اجلاس سے خطاب کر رہی ہیں جبکہ لندن سے نواز شریف بھی اپنے کارکنوں اور رہنماؤں کو مسلسل پیغام دے رہے ہیں کہ وہ 16 اکتوبر کے جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے اپنی پوری طاقت صرف کردیں، ادھر ملتان میں بھی پی ڈی ایم کے اس جلسہ کے لئے مسلم لیگ ن کے کارکنوں کی تیاریاں جاری ہیں اور ایک بڑی تعداد اس جلسہ میں شرکت کے لیے ملتان اور جنوبی پنجاب سے روانہ ہو گی۔
کارکنوں کے سروں پر گرفتاریوں کا خوف بھی منڈلا رہا ہے اور کہا یہ جا رہا ہے کہ شاید اس روز مختلف علاقوں سے گوجرانوالہ جانے والے قافلوں کو روک لیا جائے، بہرحال ابھی تک یہ بات نمایاں ہو چکی ہے کہ متحدہ اپوزیشن میں ابھی تک دراڑیں موجود ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ سب ایک ایجنڈے پر متفق ہوگئے ہوں، کیونکہ پیپلزپارٹی حسب معمول اس سارے عمل میں بے دلی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور جتنی سرگرم مسلم لیگ ن نظر آتی ہے اتنی سرگرمی کا مظاہرہ پیپلز پارٹی کی طرف سے نہیں کیا جا رہا ، مریم نواز کی شخصیت آہستہ آہستہ پی ڈی ایم کی اس تحریک پر غالب آتی جا رہی ہے اور ان کی تقریریں صحیح معنوں میں مسلم لیگ کے کارکنوں کا لہو گرما رہی ہے۔
دوسری طرف پیپلزپارٹی نے ایسا کوئی لائحہ عمل مرتب نہیں کیا کہ جس کے ذریعے وہ اپنے کارکنوں کو متحرک کرنا چاہتی ہو، بلکہ بلاول بھٹو زرداری پہلے خاموشی سے دبئی چلے گئے اور واپس آ کر بھی انہوں نے کچھ زیادہ سرگرمی کا مظاہرہ نہیں کیا جس کی وجہ سے مریم نواز شریف کو یہ کہنا پڑ گیا کہ وہ بلاول بھٹو زرداری کو بھی گجرانوالہ کے جلسے میں آنے کے لیے راضی کر لیں گی، آہستہ آہستہ یہ سوال نمایاں ہوتا جا رہا ہے کہ پی ڈی ایم کا یہ وجود آنے والے دنوں میں بھی برقرار رہے گا یا اس کا حشر بھی پہلے جیسے اتحاد و ںجیسا ہوگا،جہاں تک عوامی سطح پر لوگوں کے سوئے ہوئے جذبات کو جگانے کا تعلق ہے تو یہ زمینی حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ عوام اپوزیشن کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کو فی الوقت آزمانے کے لیے تیار نہیں ہے کیونکہ ان کی ساکھ عوام کی نظر میں خاصی حد تک متاثر ہوئی ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ مسلم لیگ کے کارکنوں پر نواز شریف کے بیانیہ کا گہرا اثر ہوگا۔
خاص طور پر اس لیے بھی پچھلے دو سال سے مایوسی کا شکار مسلم لیگ ن کے کارکنوں میں نواز شریف کے تازہ بیانیہ کی وجہ سے ایک نئی امید پیدا ہوئی ہے پھر جس یقین کے ساتھ اپوزیشن کے رہنما، خاص طور پر مسلم لیگ ن کےعہدے داران بشمول مریم نواز شریف یہ دعوی کر رہے ہیں کہ اس تحریک کے نتیجہ میں حکومت ختم ہو جائے گی، اس کی وجہ سے ان کے کارکنوں میں ایک نئی امنگ پیدا ہوگئی ہے ،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ابھی سیاسی افق پر ایسے کوئی آثار نہیں ہیں ، جو حکومت کے لیے مشکلات کا باعث بن سکیں ، شاید یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان بڑے پر اعتماد لہجے میں اپوزیشن کی تحریک کو بے وقت کی راگنی قرار دے چکے ہیں۔
جہاں تک ملتان کا تعلق ہے تو یہاں متحدہ اپوزیشن کا ایک اجلاس بھی منعقد نہیں ہوا ،اتحاد تو دور کی بات ہے ابھی تک یہ جماعتیں ایک دوسرے کے عہدے داروں کو توڑنے پر لگی ہوئی ہیں ، اس کی حالیہ مثال اس وقت سامنے آئی جب پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما وسابق ایم پی اے نفیس انصاری کے بارے میں یہ خبرسامنے آئی کہ وہ مسلم لیگ ن میں شامل ہورہے ہیں ،میڈیا کو یہ تک بتا دیا گیا کہ وہ فلاں وقت مخدوم جاوید ہاشمی کے گھر مسلم لیگ ن میں باقاعدہ شمولیت کا اعلان کریں گے۔
اس سے پہلے کے میڈیا وہاں پہنچتا ،یہ اطلاع جاری کردی گئی کہ پریس کانفرنس ملتوی کردی گئی ہے اور یہ پھر کسی دن ہوگی ، آخری وقت پر مذکورہ سابق ایم پی اے غالباً مسلم لیگ ن میں شامل ہونے کا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہوئے، ایسا انہوں نے کیوں کیا ، یہ بات اگرچہ ایک راز ہے لیکن کہا یہ جارہا ہے کہ اس حلقے کے سابق ایم پی اے باپ بیٹا عامر سعید انصاری اور سعید انصاری اس شمولیت کی راہ میں حائل ہوگئے ،دونوں اس حلقے میں مسلم لیگ ن کے اہم رہنما ہیں ،اس طرح مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی ملتان کا ایک بڑا سیاسی رہنما فی الوقت توڑنے میں ناکام رہی۔ ادھر مخدوم شاہ محمود قریشی حیران کن حد تک اپنا زیادہ وقت ملتان میں گزار رہےہیں، یہاںوہ اب کئی دن رہتے ہیں اور اپنے حلقے کے ووٹرز، کارکنوں اور ایسی شخصیات سے مسلسل ملاقاتیں اور دورےکر رہے ہیں جنہیں پہلے انہوں نے نظر انداز کیا ہوا تھا، ان کی حکمت عملی میں یہ تبدیلی بلاوجہ نہیں آئی ہے، پچھلے کچھ عرصہ سے ان کے بارے میں خاصا منفی تاثر پیدا ہو چکا ہے۔
خاص طور پر ملتان کی تعمیر و ترقی اور عوام سےعملاًلا تعلقی نے انہیں ملتان کے عوام کے دلوں سے بڑی حدتک دورکردیا ہے، اس سے پہلے وہ ملتان میں جنوبی پنجاب کا مکمل سیکریٹریٹ نہیں بنوا سکے اور اس حوالے سے وہ اس قدر دباؤ میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ جب ان سے اس بارے میں یہ سوال پوچھا جاتا ہے تو وہ جھنجھلائے ہوئے سخت لب و لہجہ میں اخبارنویسوں کو کھری کھری سنادیتے ہیں۔
یاد رہے کہ اپنے قیام ملتان کے دوران میڈیا سے بات کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے وہی روایتی باتیں کیں ،جو وہ ہمیشہ کرتے چلے آرہے ہیں، لیکن ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب ہے اور نہ ہی وہ شاید دینا چاہتے ہیں کہ ملتان میں ابھی تک کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ کیوں شروع نہیں ہوا اور ملتان جیسے بڑے شہر کو چھوڑ کر بہاول پورکو علیحد سیکریٹریٹ میں ملتان کا ہم پلہ کیوں بنایا گیا، جس طرح راولپنڈی کے لیاقت باغ میں تحریک انصاف کا شو بری طرح ناکام ہوا، اگر ملتان میں شاہ محمود کی یکطرفہ اجارہ داری رہی اور خود پارٹی کے دیگر رہنماؤں اورارکان اسمبلی کو نظرانداز کیا جاتا رہا ، تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر تحریک انصاف نے سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے کے لیے ملتان میں جلسہ کیا تو وہ بھی اسی طرح ناکامی سے دوچار ہوسکتا ہے۔