• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

گزشتہ کالم میں ہم نے سکھ نیشنل کالج کا ذکر کیا تھا۔ یہ عمارت آج بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے البتہ کسی نے انتہائی بدذوقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پیلے رنگ کی عمارت پر گلابی رنگ کر دیا ہے جبکہ اس کے نیچے چھپا ہوا پیلا رنگ آج بھی نظر آتا ہے۔ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں آج بھی کئی قدیم عمارتیں ہیں مگر یونیورسٹی کے اندر تعمیر ہونے والی تمام نئی تعمیرات کا فن تعمیر اس قدیم یونیورسٹی سے بالکل ہم آہنگ نہیں اور نئی عمارتوں میں کوئی خوبصورتی اور فن تعمیر نظر نہیں آتا۔ سکھ نیشنل کالج کی عمارت کو جب ہم نے دیکھا تھا تو اس کی عمارت پر سکھ نیشنل کالج 1938ء درج تھا بہرحال اس قدیم اور خوبصورت عمارت کی تاریخ بھی ایک دن لوگ بھول جائیں گے۔جب ہم نے اس تاریخی عمارت کے بارے میں یو ای ٹی کی پی آر او اور وائس چانسلر کے پی اے سے بات کی تو ان کو اس تاریخی عمارت کے بارے میں علم نہیں تھا۔ یو ای ٹی کے موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر منصور سرور بڑے علم دوست، قدیم روایات اور قدیم عمارتوںسے لگائو رکھتے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ اس تاریخی عمارت پر اس کا اصل نام دوبارہ نصب کرائیں اور لاہور سے جوان کو پیار ہے اس کا بھرپور اظہار کریں۔

لاہور میں جو قدیم عمارتیں راجوں مہاراجوں کی رہ گئی ہیں یا جن کے اب نام و نشان بھی نہیں، ان میں فرید کوٹ ہائوس، بہاولپور ہائوس، پٹیالہ ہائوس، کپور تھلہ ہائوس، پونچھ ہائوس، دولتانہ ہائوس، ممدوٹ ہائوس، ٹوانہ ہائوس، جنرل شیر علی پٹودی کا گھر، لیڈی شہاب الدین کا محل، لالہ میلہ رام کی کوٹھی، سرگنگارام کی کوٹھی، سرکٹ ہائوس، KDIA ہال، سیٹھ نرسنگ داس مینشن ، سہگل ہائوس، نیشنل فین والوں کی کوٹھی، فری میسن ہال اور اسٹیٹ گیسٹ ہائوس شامل ہیں۔ لاہور میں کسی زمانے میں بڑے خوبصورت گھر اور کوٹھیاں ہوا کرتی تھیں۔ انگریزوں اور ہندوئوں کی تعمیر کردہ پرانی کوٹھیوں میں برآمدے ضرور ہوا کرتے تھے۔ کیا خوبصورت زمانہ تھا۔ شام کو ہر کوٹھی کا مالک برآمدے میں بیٹھتا تھا۔چائے، سینڈوچ، پیسٹری اور Pattiesسے لطف اندوز ہوتا تھا اور پوری کوٹھی میں پانی کا چھڑکائو ہوا کرتا تھا۔ پرانی اور کلاسیکی کوٹھیوں کے حوالے سے ماڈل ٹائون، ریٹی گن روڈ، ٹیپ روڈ، ایمپریس روڈ، ڈیوس روڈ، اپر مال، جی او آر ون اور جی او آر ٹو ، ایجرٹن روڈ اور کشمیر روڈ مشہور علاقے رہے ہیں۔

بہاولپور ہائوس میں کبھی نواب بہاولپور کی محل نما کوٹھی تھی جس کے ٹوٹے پھوٹے آثار ہم نے بھی دیکھے تھے۔ بہاولپور ہائوس میں نواب آف بہاولپور کے ملازمین کی کوٹھیاں آج بھی ہیں جو اب جی او آر ٹو کہلاتا ہے۔ بہاولپور ہائوس میں آج بھی بے شمار کوٹھیاں ایسی ہیں جن کی چھتیں لکڑی کے بالوں کی ہیں اور روشن دان بھی ہیں۔ پرانے وقتوں میں بننے والی ہر کوٹھی میں روشن دان بھی لازمی ہوتے تھے جس کی وجہ سے کمرے ٹھنڈے رہتے تھے۔ سر گنگا رام کی کوٹھی آج بھی موجود ہے۔ اس میں کبھی ہیلے کالج آف کامرس تھا، اب اسی کو ہیلے کالج آف بینکنگ کہا جاتا ہے۔ ہیلے کالج آف کامرس اب نیوکیمپس میں منتقل ہو چکا ہے۔ اسی طرح نواب آف پٹودی کی کوٹھی بھی سینٹ انتھونی اسکول میں موجودہے۔ شاید آج بھی اصل حالت میں ہے۔

کپور تھلہ ہائوس، جنرل دنتورہ نے بنایا تھا۔ یہ بڑے خوبصورت فلیٹ ہیں۔ ان کی کھڑکیاں فرانسیسی طرز کی ہیں۔ نواب آف کپورتھلہ نے اس کو خریدا تھا۔ یہاں پر دو منزلہ بڑے خوبصورت فلیٹ ٹائپ گھر ہیں۔ اس پر اب مختلف لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ یہ کبھی بڑا خوبصورت علاقہ تھا۔ بہت صاف ستھرا اور پُرسکون علاقہ تھا اور اس کو پرانی انار کلی کہا جاتا ہے۔ اس کے قریب کبھی جین مندر تھا جس کو بابری مسجد شہید کرنے کے ردعمل میں عوام نے احتجاج کرتے ہوئے گرا دیا تھا۔ یہیںچیف کورٹ (اب لاہور ہائیکورٹ) کے چیف جج (چیف جسٹس) شادی لال کی بہت بڑی کوٹھی ہے جس میں اب خواتین کی فنی تعلیم کا ادارہ ہے۔ یہ عمارت بھی پیلے رنگ کی ہے۔ بہت وسیع کوٹھی اور گنبد بھی ہیں۔ ہم نے یہ کوٹھی ساری دیکھی ہوئی ہے۔ لاہور میں ایک زمانے تک کوٹھیاںچونے سے تعمیر کی جاتی تھیں اور ان پر پیلے اور سفید رنگ کی قلعی کی جاتی تھی۔ اس زمانے میں اکثر کوٹھیوں کے دو گیٹ ہوا کرتے تھے اور لان تو لازمی ہوا کرتا تھا۔ جسٹس شادی لال کی کوٹھی کے ساتھ پتہ نہیں کس حکومت کے دور میں لال رنگ کی اینٹوں کی مختلف عمارتیں بھی تعمیر کر دی گئی تھیں۔ جسٹس شادی لال کو یہ محل کسی رانی نے کوئی مقدمہ جیتنے پر دیا تھا۔ یہ بہت بڑا محل ہے۔ اس کو شادی لال مینشن بھی کہا جاتا ہے۔ ایک سابق وزیر اعلیٰ کے دور میں اس تاریخی عمارت پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ڈر ہے کہ لاہور کی تمام تاریخی عمارتوں پر ایک روز قبضہ مافیا ضرور قبضہ کر لے گا اور ان کا نام و نشان مٹا دے گا۔

لاہور میں چمبہ ہائوس (Chamba House) بڑی تاریخی اور خوبصورت عمارت ہے جو مہاراجہ چمبہ نے بنوائی تھی، اس کا ڈیزائن بھائی رام سنگھ نے بنایا تھا۔ اس بھائی رام سنگھ نے لاہور میں کئی عمارتیں ڈیزائن کی تھیں۔ اس کا ذکر پھر کریں گے۔ اس میں مغل فن تعمیر کی بھی جھلک ہے۔ کسی زمانے میں اس عمارت کا نام تبدیل کر کے اسے فیڈرل لاجز کا نام دیا گیا تھا اور اسے گریڈ 18اور اس سے اوپر کے گریڈ کے آفیسرز، سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کے لئے مخصوص کیا گیا تھا۔ وفاقی حکومت کے جو آفیسرز اور وزراء لاہور آتے وہ یہاں قیام کرتے تھے۔ ہم نے اور ہمارے کلاس فیلو عابد علی عابد (ڈنمارک) نے اسی چمبہ ہائوس میں ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات بھی کی تھی۔ (جاری ہے) 

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین