دسمبر تا فروری حکومت اور اپوزیشن کے لئے سیاسی لحاظ سے اہمیت اختیار کر گیا ہے حکومت مخالف تحریک کی ابتداء پنجاب کے شہر گوجرانوالہ سے ہوئی جبکہ امکان ہے کہ اپوزیشن کا آخری جلسہ بھی پنجاب کے شہر لاہور میں ہوگا۔ حکومت اور اپوزیشن نے ایک دُوسرے کو پندرہ جنوری تک کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے۔ اپوزیشن کے اب تک کے جلسوں میں جے یو آئی نے زبردست اسٹریٹ پاور کا مظاہرہ کیا ہے تاہم آخری آپشن کے طور پر تمام تر دارومدار پی پی پی کےطرزعمل پر ہوگا۔ اپوزیشن نے آخری آپشن کے طور پر اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے تا کہ مارچ میں سینیٹ کے ہونے والے انتخابات میں پی ٹی آئی اکثریت حاصل نہ کر پائے تاہم سیاسی مبصرین کے مطابق پی پی پی سندھ اسمبلی سے استعفیٰ نہیں دے گی۔
پی پی پی کی جانب سے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینے کا مشورہ آئے گا جو اپوزیشن کے لئے بے سود ہے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اپوزیشن کے اتحاد میں دراڑ ڈالنے کے لئے بعض قوتیں اور حکومتی شخصیات پی پی پی سے رابطوں کی کوششیں کر رہی ہیں تا کہ پی پی پی استعفیٰ کا آپشن استعمال نا کریں اس ضمن میں پی پی پی کو کچھ رعایتیں اور آسانیاں فراہم کی جا سکتی ہیں۔ دُوسری جانب سندھ اور بلوچستان کے جزائر کی بازگشت اپوزیشن کے تقریباً ہر جلسے میں گونج رہی ہے۔
اپوزیشن اس معاملے کو صوبوں کے اثاثوں پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف قرار دے رہی ہے اس سلسلے میں سکھر ہائی کورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت سندھ کے جزائر پر قبضہ کرنا چاہتی ہے، جزیرے سندھ کی ملکیت ہیں وفاق ان پر قبضہ نہیں کرسکتا، وفاقی حکومت جزائر سے متعلق منظور شدہ غیر آئینی آرڈیننس فوری طور پر واپس لے، آرڈیننس کی واپسی تک خاموشی سے نہیں بیٹھیں گے، وفاق سے ریونیو جمع نہیں ہو رہا تو ہمارے حوالے کردیں، آئین کو مسلسل پامال کیا جا رہا ہے، پی ٹی آئی کے حکومتی دور میں چینی، گندم اور پیٹرول نایاب ہوگئے، اب وقت آگیا ہے کہ وفاقی حکومت سے عوام کو نجات ملنی چاہیے۔ وہ سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن سکھر میں منعقدہ تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
صوبائی مشیر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب، ضیاء الحسن لنجار، قربان ملانواور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ تقریب میں مختلف پارٹی رہنما اور وزراء نثار احمد کھوڑواور دیگر بھی موجود تھے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہاکہ کنٹریشن آرٹیکل97 کے خلاف ورزی میں سندھ کے جزائر پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، یہ آرٹیکل (2) 170 کی بھی خلاف ورزی ہے، کوئی زمین اگر ری کلیم کریں یا جزائر اُبھر آئیں تو وہ زمین صوبے کی ہے، 12 ناٹیکل میل کے نیچے جو بھی چیز ہے وہ بھی صوبے کی ہے، جبکہ گورنر سندھ عمران اسماعیل کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے معیشت کا پہیہ چلانے، لوگوں کو روزگار دلوانے اور سرمایہ کاری کے لئے بنڈل آئی لینڈ پر نیا شہر بنانے کا اعلان کیا ہے ہم اسے بنائیں گے۔
بنڈل آئی لینڈ پاکستان کا آئی کون سٹی ہے اس منصوبے سے لوگوں کو روزگار بھی ملے گا۔ اس ضمن میں اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر خالد جاوید خان نے کہا ہے کہ سندھ کے جزائر سندھ کی ملکیت ہیں اور صوبے کے عوامی مفادات کیلئے استعمال ہونگے، جزائر پر کوئی بھی منصوبہ سندھ حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر شروع نہیں ہوگا اس حوالے سے مسائل وفاق اور سندھ حکومت آپس میں بیٹھ کر حل کر سکتے ہیں، عدالتوں میں جانے سے وقت ضائع ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید نے سندھ ہائیکورٹ میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جزائر کی زمین سندھ کے لوگوں کی ملکیت ہےاور سندھ کے لوگوں کی ہی رہے گی جزائر کی زمین سندھ کی عوام کے مفادات کے لیے استعمال ہوگی جزائر پر کوئی بھی منصوبہ سندھ حکومت کی مشاورت کے بغیر نہیں بنے گا مسائل وفاق اور سندھ حکومت آپس میں بیٹھ کر حل کر سکتے ہیں جزائر کا مسئلہ عدالتوں میں حل نہیں ہوگا آرڈیننس میں جو ترامیم سندھ حکومت کہے گی وفاق کرنے کو تیار ہے اگر جزائر پر ترقی ہوگی تو اس سے سندھ کے عوام کا فائدہ ہوگا ۔
بنڈل آئی لینڈ کے معاملے پر سندھ اسمبلی کے اجلاس میں خاصا شور شرابہ ہوا۔ سندھ اسمبلی نے جزائر سے متعلق حالیہ صدارتی آرڈیننس کے خلاف ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی۔ وفاقی حکومت کی اتحادی جی ڈی اے نے بھی صدارتی آرڈیننس کی مخالفت کی اور قرارداد پر پی پی پی کا ساتھ دیا۔ اس موقع پر پی ٹی آئی کے ایک رُکن سندھ اسمبلی شہریار شر نے بھی اپنی پارٹی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے اپنی پارٹی کے ساتھ بائیکاٹ میں حصہ نہیں لیا اور ایوان میں موجود رہے ان کا کہنا تھا کہ میں اس دھرتی کا بیٹا ہوں۔ سندھ ہماری ماں ہے اس لئے اس تحریک کی حمایت کرتا ہوں۔ سندھ اسمبلی میں جزائر سے متعلقہ قرارداد سجاول شہر سے تعلق رکھنے والے رکن محمد علی ملکانی اور محمود عالم نے پیش کی۔
جزائر کے حوالے سے پی پی پی کے ارکان نے ایوان میں جذباتی تقریریں بھی کیں۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ جزائر سندھ حکومت کی ملکیت ہے۔ سندھ دھرتی کے ایک ایک انچ کی حفاظت کی جائے گی۔ حکومت سندھ نے ان جزائر پر نئے شہر بنانے کے لئے کسی کو این او سی نہیں دی۔ حکومت جب تک متنازع صدارتی آرڈیننس واپس نہیں لیتی اس وقت تک کوئی بات نہیں ہوگی۔
قرارداد پر تحریک لبیک، جی ڈی اے نے بھی پی پی پی کا ساتھ دیا۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ اس متنازع صدارتی آرڈیننس پر پورا سندھ سراپا احتجاج ہے۔ سندھ اسمبلی نے پی پی پی کے رکن سہراب سرکی کی ایک قرارداد پر سندھ پولیس کو خراج تحسین پیش کرنے سے متعلق قرارداد متفقہ طور پر منظور کی قرارداد میں 18 اکتوبر کو آئی جی سندھ کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔
اجلاس میں اپوزیشن کو کراچی میں پی ڈی ایم کے جلسے میں محمود خان اچکزئی کی جانب سے ادو زبان سے متعلق بات کرنے پر قرارداد پیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی جس پر اپوزیشن بپھر گئی اور انہوں نے شور شرابہ کیا۔ اجلاس سے اپوزیشن نے واک آئوٹ بھی کیا۔ ادھر وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ماہ کراچی کے دورے کے موقع پر بارشوں سے تباہ حال کراچی کی بحالی کے لئے گیارہ سو ارب روپے کے جس پیکیج کا اعلان کیا تھا تقریباً دو ماہ گزرنے کے باوجود اس حوالے سے اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے جس پر شہر کے مختلف طبقات کی تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔
بعض افراد کے مطابق گیارہ سو ارب روپے کے اعلان کا چہلم بھی ہو چکا تاہم اس پر کام شروع نہیں ہوسکا۔ واضح رہے کہ حکومت سندھ نے اس پیکیج کے حوالے سے کہا تھا کہ گیارہ سو ارب روپے میں سے آٹھ سو ارب روپے سندھ حکومت کے ہیں جو پہلے ہی بجٹ میں رکھے گئے ہیں اور ان اسکیموں پر کام جاری ہے کراچی کے پی ڈی ایم کے جلسے میں پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اس پیکیج کا مذاق بھی اُڑایا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کراچی پیکیج پر وفاق کب عملدرآمد کرتا ہے۔