• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان واپسی کے کئی دن بعد تک کورونا کے ڈر سے گھر میں دبک کر بیٹھے رہنے کے بعد کچھ گھر والوں کے اسرار اور کچھ دوستوں کے طعنوں سے تنگ آکر باہر نکلنے کا فیصلہ کیا، تو ایک جیب میں ہینڈ سینی ٹائزر رکھا، ایک ماسک چہرے پر لگایا جبکہ دوسرا ماسک حفظِ ماتقدم کے تحت دوسری جیب میں رکھا کہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں خود استعمال کر لوں گا یا سامنے کوئی بغیر ماسک کے مخاطب ہوگا تو اُس کو ماسک کا تحفہ دے دوں گا۔ مجھے اپنی اور سامنے والے دونوں کی سلامتی عزیز تھی، میں نے جاپان میں حکومتِ پاکستان کی عالمی میڈیا اور جاپانی حکام سے کورونا پر قابو پانے کے لئے بہترین اقدامات تعریف سن رکھے تھے اور کورونا کے کم ہوتے ہوئے کیسز حکومتِ پاکستان کے اقدامات کا واضح ثبوت بھی تھے، انہی وجوہات کی بنا پر جاپانی حکومت نے بھی پاکستان کے سفر کے لئے پابندیوں میں کچھ نرمی بھی کردی تھی، ایک ہفتہ سیلف کورنٹائن میں رہنے کے بعد کراچی جیسے میگا سٹی میں باہر نکلا تو بےساختہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا دل چاہا کیونکہ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ عوام کورونا جیسے قاتل مرض کے حصول کے لئے بےتاب پھر رہے ہیں اور کورونا اُن سے دور بھاگ رہا ہے۔ واقعی یہ اللہ تعالیٰ کا پاکستان کے عوام پر بہت بڑا احسان ہے کہ یہاں کورونا بالکل نہ ہونے والے انداز میں آگے بڑھ رہا ہے ورنہ ہمارے لوگوں نے کورونا کی بیماری لگوانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یقین جانیے کراچی کا ماحول دیکھ کر ایسا محسوس ہی نہیں ہورہا تھا کہ یہاں کبھی کورونا کا مرض تھا یا مستقبل میں کبھی یہ مرض دوبارہ آ بھی سکتا ہے، یقین جانیں شاپنگ مالز دوبارہ بھر چکے ہیں اور نوے فیصد افراد بغیر ماسک کے خوش گپیاں لگانے اور کاروبار زندگی میں مصروف نظر آئے، ساتھ چلنے والے دوست سے شکایت کی کہ ہمارے عوام میں کورونا کا کوئی ڈر نظر نہیں آرہا تو اُس نے بھی مسکرا کر جواب دیا کہ آج میں نے بھی تمہاری وجہ سے ماسک لگایا ہے ورنہ کورونا تو یہاں کب کا ختم ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر کے کلینک پر بھی سوائے ڈاکٹر کے مریضوں کی اکثریت بغیر ماسک کے نظر آئی، پرچون کی دکان سے اسپتال اور شاپنگ مالز سے جمعہ بازار تک نوے فیصد افراد بغیر ماسک کے زندگی گزار رہے ہیں، کچھ اہم سرکاری افسران سے ملاقات ہوئی، اُن سے عوام کے طرز عمل کی شکایت کی تو جواب ملا کہ حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی کوشش ہی کر سکتی ہے لیکن لوگوں کو پکڑ پکڑ کر ماسک تو نہیں پہنا سکتی۔ حکومتی سطح پر ٹیلی ویژن، موبائل فون اور اخبارات کے ذریعے کورونا سے متعلق آگاہی مہم بھرپور انداز میں چلائی جارہی ہے جس کے باعث نوے فیصد افراد کورونا کے خطرے اور اس سے زندگی کو لاحق خطرات سے آگاہی حاصل کر چکے ہیں لیکن بدقسمتی سے صرف دس فیصد طبقہ کورونا سے متعلق حفاظتی اقدامات کرتا نظر آتا ہے اور جب کورونا کے کیسز میں تشویشناک اضافہ ہونا شروع ہوتا ہے تو حکومت پھر لاک ڈائون کردیتی ہے جس پر عوام بے روزگاری اور غربت کا شور مچاتے ہیں، پاکستان میں کورونا کیسز میں ماضی میں ہونے والی کمی کے حوالے سے ایک پروفیسر صاحب کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عوام جعلی دودھ، جعلی مسالے، دو نمبر گوشت اور آلودہ اشیا کے استعمال سے اس قدر مضبوط ہو چکے ہیں کہ چھوٹی موٹی بیماری تو کیا خطرناک بیماریاں بھی ان کے جسموں پر اثر انداز نہیں ہوتیں جبکہ کورونا کے حوالے سے پروفیسر صاحب کا کہنا ہے کہ پاکستانی عوام میں قدرت کی جانب سے اینٹی باڈیز پیدا ہو چکی ہیں جو کورونا کے مرض کو جسم میں پھیلنے سے روک دیتی ہیں لیکن یہاں میری ایسے لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی ہے جو اپنے بہت ہی قریبی افراد کو کورونا کی وجہ سے کھو چکے ہیں، ایک قریبی عزیزہ اپنی بہو کی پہلی عید پر شاپنگ کرنے گئیں اور واپسی میں کپڑوں کے ساتھ کورونا بھی لے آئیں اور چند دنوں میں اللہ کو پیاری ہو گئیں، ایک بہت ہی عزیز دوست کی والدہ نے محرم کی مجالس میں شرکت کی اور کورونا کی بیماری ان کا مقدر ٹھہری اور وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئیں ایسے سینکڑوں کیسز موجود ہیں جس میں کورونا کی قاتل بیماری نے چند دن کے اندر ہمارے بہت سے پیارے ہم سے چھین لئے ،اب سرد موسم کا آغاز ہے کورونا کی ایک نئی لہر شروع ہوچکی ہے جس کے زیادہ مہلک ہونے کا امکان ہے۔ پوری قوم سے گزارش ہے کہ خدارا اس بیماری کو سیریس لیں، احتیاط کریں، ماسک پہنیں، ہینڈ سینی ٹائزر کا استعمال کریں، لوگوں سے چھ فٹ کا فاصلہ رکھیں، تقریبات اور بازاروں میں کم سے کم اور احتیاط کے ساتھ جائیں، یقین جانیں آپ کی زندگی ہمارے لئے اور آپ کے اپنوں کے لئے بہت اہم ہے اسے کورونا کی وبا میں اپنی غیر ذمہ داری کے سبب نہ کھوئیں، اللہ آپ کا اور ہمارا حامی و ناصر ہو۔

تازہ ترین