• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرا اندازہ بھی ہے ، خواہش بھی اور کوشش بھی کہ یہ ”ن“ لیگ کیلئے آخری اچھی خبر ہو اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہے، شیر کے منہ میں دانت نہ رہیں اور جاتی عمرے کے باہر سینکڑوں پولیس ملازمین نہ رہیں اور یہ آخری اچھی خبر یہ ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے شہباز شریف اور ملک قیوم کی مبینہ گفتگو پر مبنی اشتہار پر پابندی کو یقینی بنانے کا حکم جاری کر دیا ہے ۔
میں اور بہت سارے معاملات کی طرح ٹیکنالوجی کے معاملہ میں بھی پیدل بلکہ ننگے پاؤں ہوں ۔ جسے (SENI) اور (END)کے علاوہ سیل فون کے کسی اور استعمال کی تمیز نہ ہو اسے بھلا کیا معلوم کہ ٹی وی پر اس اشتہار کی پابندی کے حکم کا اطلاق سوشل میڈیا پر بھی ہو گا یا نہیں؟اگر جواب نہیں میں ہے تو سمجھ لیجئے کہ یہ ن لیگ کیلئے زیادہ خطرناک بلکہ ”خبرناک “ ہو گا کیونکہ سوشل میڈیا پر ایک آدھ فٹ نوٹ کے ساتھ جو بھی اسے دیکھے گا بہت سے سوال اٹھائے گا اور ن لیگی سیاست نما تجارت پر چار نہیں چار ہزار لفظ بھیجے گا ۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ جو کروڑوں لوگ متعدد بار یہ فحش اشتہار دیکھ چکے ان کی یادوں سے اسے کون مٹائے گا ؟جس کا ضمیر زندہ ہو گا، ذہن بیدار ہو گا اسے یہ اشتہار زندگی کے آخری لمحوں تک ہانٹ کرتا رہے گا ۔ یہاں یہ وضاحت بھی بہت ضروری ہے کہ ”فحاشی “ کا ایک مطلب اپنی حدود سے تجاوز کرنا بھی ہے ۔ ویسے سنا ہے کچھ اور دلچسپ و دلپذیر اشتہار بھی پائپ لائن میں ہیں۔
دوسری انتہائی مضحکہ خیز بات ”برادران“ کا یہ فرمان ہے کہ تحریک انصاف پیپلز پارٹی کی ”بی ٹیم “ ہے ۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہوا کہ پیپلز پارٹی اب بھی ”اے ٹیم “ ہے تو ایسی نفسیاتی حالت دیکھ کر ن لیگ پر ترس آتا ہے کیونکہ پتا پتا اور بچہ بچہ بخوبی جانتا ہے کہ اس راؤنڈ میں پیپلز پارٹی تو میدان میں ہے ہی نہیں ۔زرداری جیسے پولیٹیکل جنیئس نے انتہائی برد باری اور مہارت کے ساتھ معاملہ اور مقابلہ تحریک انصاف اور ن لیگ تک محدود کر دیا ہے ۔ محاورہ پنجابی زبان کا ہے، عمل اس پر بلوچ بچہ کر رہا ہے کہ …”جٹ جانے تے بجو جانے “
لیکن اس سے یہ تاثر لینا کہ پیپلز پارٹی رہ گئی …کسی انتہائی رہے سہے ذہن کی سوچ ہی ہو سکتی ہے ۔ لمبی چھلانگ لگانے کیلئے اسی حساب سے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے سو یوں سمجھیں کہ موجودہ صورتحال پی پی پی کی سٹریٹیجک پسپائی ہے ۔ بلاول جب بھی پورے زور سے نکلا، کمان سے نکلے تیر کی طرح شکار کے آر پار ہو جائے گا ۔ اس ہشت پہلو کھیل کا دوسرا پہلو بہت ہی انوکھا ہے کہ فی الحال آصف زرداری کی ساری دلچسپی صرف اور صرف ”کنگ میکنگ“ تک محدود ہے، دیکھتے جاؤ ہوتا کیا ہے ۔یہاں تک ہی پہنچا تھا کہ یہ منحوس خبر آئی کہ میٹرو فیم پل کے اوپر سے ایک ٹرک نیچے جا گرا ۔تین پاکستانی مر گئے۔ میں اس خدشہ کا اظہار پہلے کر چکا ہوں ۔ اک اور موڑ بھی جان لیوا ہے جو ایف سی کالج والے پل کے بعد آتا ہے ۔ یہ کیسے لیڈر ہیں جو ”پھرتیوں“ کا کریڈٹ چاہتے ہیں حالانکہ زندگی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ …”جلدی کام شیطان کا “ عجلت پسندی بدترین جہالت ہے کیونکہ کام اپنے وقت پر ہی مکمل ہو تو خوبصورت ہوتا ہے ۔ پریشر ککر میں بنائے گئے کھانے ہلکی آنچ پر کچی ہانڈی میں تیار کئے گئے کھانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔
”ٹائمنگ “ ہی زندگی ہے جس کا مطلب یہ کہ کوئی بھی کام نہ وقت سے پہلے کریں نہ لیٹ ہونے پائے ۔ سانس لینے سے لیکر قدم اٹھانے تک … کیمرے کا بٹن دبانے سے گن کا ٹریگر دبانے تک نہ ایک لمحہ پہلے نہ ایک لمحہ بعد لیکن ڈنگ ٹپاؤ لیڈر شپ ڈرامے کرتی ہے ، جھوٹ کی انتہا یہ کہ اپنے سیاہ ترین دور کو سنہرا دور قرار دے رہے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک عوام فاتر العقل اور حشرات الارض ہیں جن کی یادداشت ان کی صحت کی طرح کمزور ہے ۔دوسری طرف وہ وارداتئے ہیں جن کے حلیئے ہی عوام سے نہیں ملتے، ان کا رہن سہن بودوباش اور گیٹ اپ …کچھ بھی عوام سے نہیں ملتا لیکن یہ بھی عوام کا مقدر بدلنے کے داعی ہیں ۔اس ملک کے عوام سے میری ایک ہی اپیل ہے خدا کیلئے ان سے بچو جنہیں بار بار آزما چکے کہ ہمارے آقا محمدکا فرمان ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جا سکتا ۔ کہتے ہیں نون کا جنون سے نہیں قارون سے مقابلہ ہے حالانکہ قارون اور فرعون کا مجموعہ تو یہ خود ہیں۔ اس اپیل کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ یہ زرداری، عمران، میاؤں وغیرہ تمام آقا نہیں غلام ہیں …ان سب کو سر پر نہ چڑھاؤ بلکہ چاکر بنا کر رکھو یعنی کل کلاں اگر عمران خان بھی پاکستان کے عوام کی امیدوں پر پورا نہیں اترتا تو اس کے ساتھ وہی سلوک کرو جو آج تمہیں زرداریوں میاؤں کے ساتھ کرنا چاہئے …یہ خادم ہونے کی اداکاریاں کرتے ہیں تو یہ غیرت مند عوام کا کام ہے کہ انہیں سچ مچ صحیح معنوں میں خادم بنا کر رکھیں اور جوتوں سینڈلوں سمیت اپنے سروں پر چڑھنے کی اجازت نہ دیں ۔ پرانی نسل کی عادتیں تو قبروں میں بھی ساتھ جائیں گی نوجوانوں کو چاہئے کہ کسی چودھری صاحب، میاں صاحب، خان صاحب اور زرداری صاحب کو سر پر نہ چڑھائیں ور نہ زندگی بھر اپنے سر جھکے رہیں گے ۔
تازہ ترین