• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(سازشوں،قانونی موشگافیوں اور جُرم تراشیوں کی داستان)

مصنّف: ازھر مُنیر

صفحات: 352،قیمت: 600 روپے

ناشر: طفیل بُک بینک،94-والٹن روڈ، بوہڑ والا چوک، مزنگ چونگی، لاہور

پاکستان کی بدنصیبیوں کی داستان بہت طویل ہے۔ گرچہ رنج و الم سے پُر یہ کہانی اُس کا نصیب تھی نہیں کہ قدرت نے تو اس مُلک کو جس قدر نعمتوں سے نوازا تھا،بہت کم مُمالک اس میدان میں اُس کی ہم سَری کر سکتے تھے۔ قدرتی وسائل، معدنی دولت، افرادی قوّت، حسین ترین وادیاں اور کُہسار،قدم قدم پر ہمیں یہ ربّانی نُکتہ ذہن نشین کرواتے تھے کہ تم اپنے ربّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ہاں، مگر ہم نے بھی سب کچھ فراموش کرنے کا شاید تہیّہ کر لیا تھا۔ اسی سبب مملکتِ خداداد اپنے قیام کے محض چوبیسویں برس ایک بازو سے محروم ہوگئی۔ 

یہ وہ موقع تھا کہ ہم خوابِ غفلت سے بیدار ہوتے ،اپنے اعمال پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے، محاسبانہ رویّہ اپناتے اور ایک عزمِ صمیم سے مُلک کو ازسرِ نو ترقّی کی شاہ راہ پر گام زن کرنے کا آغاز کرتے۔ مگر، اے بسا آرزو کے خاک شدہ ۔ایسا کچھ بھی نہ ہو سکا۔’’سقوطِ ڈھاکا‘‘ کے بعد اگر ایک نیا پاکستان تھا، تو اُسے بھی پُرانی ڈگر کے تحت چلانے ہی کی روش اپنائی گئی۔

ستّر کے عشرے میں پہلے منتخب وزیراعظم کو تختۂ دار پر لٹکانا، پھر ایک طویل مارشل لا کا زمانہ، اسّی کے اختتامی عشرے میں پہلے منتخب وزیراعظم کی دختر کا مُلک کی اوّلین خاتون وزیراعظم کے طور پر اقتدار سنبھالنا، بیس ماہ بعد معزولی، محمّد نواز شریف کا وزیراعظم بننا، پھر معزول کیا جانا اور ان ہی دونوں کا پھر وقفے وقفے سے اقتدار میں آنا، نوّے کے عشرے کی داستان ہے۔ اسی عشرے کے اختتام پر جنرل پرویز مشرف کا اقتدار سنبھالنا اور ایک عشرے کے لگ بھگ حکومت کرنا۔2008 ء تا 2013 ء پاکستان پیپلز پارٹی اور اُس کے بعد ہونے والے عام انتخابات میں ایک بار پھر مسلم لیگ (نون) کا اقتدار میں آنا۔ یہ سب ایک فلم کے منظر کی طرح محسوس ہوتا ہے۔

تاہم، میاں محمّد نواز شریف پاکستان کی تاریخ کے واحد سیاست دان ہیں، جو تین مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے اور تینوں ہی بار مدّت پوری نہ کر سکے۔ آخری بار کی وزارتِ عظمیٰ سے معزولی عدالتِ عظمیٰ کے حکم کے تحت ہوئی، جس کے نتیجے میں وہ نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیے گئے۔ یہ معزولی جس سبب ہوئی، وہ مشہورِ زمانہ ’’پانامہ لیکس‘‘ کیس تھا۔ گو قانونی ماہرین آج بھی اس کی اپنے اپنے انداز میں توجیہ پیش کرتے ہیں،تاہم ازھر مُنیر نے اس پوری کہانی کو انتہائی محنت،ذہانت،تحقیق اور صحافیانہ جُستجو سے عام قاری کے لیے ایک ایسی دستاویز میں تبدیل کر دیا ہے کہ جسے پڑھنے کے بعد بہت سے گوشے بالکل واضح شکل میں سامنے آ جاتے ہیں۔

اس دِل چسپ کتاب کو پڑھ کر بہت سی ایسی باتیں بھی معلوم ہوتی ہیں کہ جن کی مدد سے پاکستانی سیاست کے نشیب و فراز سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ اگرچہ یہ کتاب ایک مخصوص واقعے، عہد، حکومت اور منظر نامے کے گرد گھومتی ہے،تاہم اس کے متن کی وقعت اور اہمیت سے ہرگز صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔

تازہ ترین