• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی سماج ،گروہی مزاج کے تابع اپنی راہیں متعیّن کرتا ہے۔ اِسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ سماج کچھ عرصے بعد اپنی ڈگر سے ہٹ کر نِت نئی چیزیں اپنالیتا ہے اور بیش تر پرانی رسومات و روایات آہستہ آہستہ متروک ہوتی چلی جاتی ہیں، جن کی جگہ نئے رسم و رواج ترویج پاتے ہیں۔ انسانی سماج جو کہ ایک مخصوص طبقاتی نظام میں تقسیم دَر تقسیم ہے، اُس میں ایک عام آدمی کو اپنے حقوق حاصل کرنےکے لیے بے پناہ جدّوجہد کرنی پڑتی ہے ،مگر وہ پھر بھی تمام تر حقوق کے حصول میں ناکام ہی رہتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ سماج میں موجود اشرافیہ ہے، جو مافیائی طریقے سےعام لوگوں کے حقوق غصب کرتی ہے۔

جس طرح ہر ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کے لیے کوئی نہ کوئی رہبر، مصلح، داعی، انقلابی ضرور سامنے آتا ہے، ویسے ہی سرمایا داروں کے مسلسل مظالم کے خلاف جرمن فلاسفر ،کارل مارکس اور مائیکل اینجلز نے ایک تحریک شروع کی، جس کا بنیادی مقصد عوام بالخصوص کسانوں کے حقوق کا تحفّظ تھا۔ کارل مارکس نے جب اپنے نظریے کا پرچار شروع کیا ،تو عوام نے ، جو اشرافیہ کے مظالم سے از حد پریشان تھے، فوراًآگے بڑھ کر لبّیک کہا، جس کے بعد ایک ایسی تحریک کا جنم ہوا جس نےمدّتوں سے چلی آتی مملوکیت کا بوریا بستر گول کردیا۔ 

مارکس کے نظریےنے صرف عوام ہی کو متاثر نہیں کیا بلکہ خواص کے ایک مخصوص طبقے،خاص طور پرادبا و شعرا نے بھی اسے نہ صرف قبول کیا بلکہ اس کے پرچار کے لیے آگے بڑھ کر کام بھی کیااور اس کے لیے اربابِ اختیار کے مظالم بھی برداشت کیے۔ مارکس چوں کہ خود بھی شاعر و ادیب تھا، تو اُس نے اپنے ہم قبیلہ کو اس بات پر مائل کیا کہ ادب کو بھی انسان کی فلاح کے لیے استعمال ہونا چاہیے، جس کی اس زمانے کے بیش تر ادبا و شعرانےتائید کی۔یہ نظریہ اپنی افادیت کے سبب صرف جرمنی یا یورپ تک محدود نہیں رہا،بلکہ اس نے ساری دنیا کا اِحاطہ کیا، بالخصوص جنوبی امریکا کے کئی ممالک میں، جہاں مملوکیت و فوجی آمریت ایک عفریت کی شکل میں عوام کا خون چُوس رہی تھی، با قاعدہ اعلانِ جنگ کر دیا گیا۔

اسی طرح روس اور چین سے ہوتا ہوا یہ نظریہ جب ہندوستان کی سرزمین میں داخل ہوا ،تو انگریز سامراج کے مظالم میں پِسے ہندوستانی عوام نے بھی اسے نجاتِ راہ خیال کیا ۔ یوں محسوس ہونے لگا تھا ،جیسے سارے کا سارا ہندوستان ہی سُرخ جھنڈے تلے جمع ہو جائے گا، لیکن ہندوستان میں موجود اشرافیہ نے اپنی بقاکی خاطر اور انقلاب کا راستہ روکنے کے لیے انگریز سامراج کا ساتھ دیا ،جس کا نتیجہ آج تک ہند و پاک کے عوام بھگت رہے ہیں۔ خیر، اشتراکیت نے اُس وقت تک ہندوستانی ادیبوں ، شاعروں کو راہ دِکھائی تھی، تو انہوں نےانگریز سامراج اوراُس کے نمک خوار ہندوستانی اشرافیہ کے خلاف اعلانِ جہاد کرکے اپنے قلم کو عوام کی فلاح کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ۔نتیجتاً،ایسا ادب تخلیق پایا، جس نے عوام کی محرومیوں اور اشرافیہ کے مظالم کا پردہ چاک کر کے رکھ دیاکہ اس سے قبل اردو شاعری و ادب اپنے حالات و واقعات سے قطعاً بے خبر، محض ذاتی مسائل اور عشق و معشوقی کے قصّوں ہی پر مشتمل تھا۔ 

دیکھا جائے تو اردو ادب پر ترقّی پسند تحریک نے کافی گہرے اثرات مرتب کیے، خاص طور پر فرسودہ رسومات و روایات، معاشرے میں موجود انتشار، نفاق، اور اندھی تقلید کے خلاف کُھل کرآواز بلند کی۔ چوں کہ ترقّی پسند تحریک نے انجمن ترقّی پسند مصنّفین کے جھنڈے تلے اپنی جدّجہد کا آغاز کیا، تو اس کے بنیادی منشور میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ادب زندگی کی بنیادی حقیقتوں کا احترام کرے۔اس کے ذریعے روٹی، کپڑےاور مکان کی ہر انسان کو فراہمی کی بات ہو، تو انسانی بدحالی، سماجی پستی، سیاسی غلامی اور قدامت پسندی کے خلاف کُھلااعلانِ جنگ بھی ہو۔ انجمن ترقی پسند مصنّفین نے ادیبوں، شاعروں اور دانش وَروں میں انقلابی جذبہ بیدار کر کے انہیں سامراج دشمنی پر مائل کیا۔ 

جہاں جاگیرداروں اور سرمایا داروں کے خلاف جنگ کا آغاز کیا گیا ،وہیں اندھی عقیدت کا فائدہ اٹھانے والے پیروں، فقیروں اور نفاق پیدا کرنے والے مولویوں کے خلاف بھی عقلی جدّوجہد شروع ہوئی۔ چوں کہ یہ سارے اقدام ابتدائی طور پر درست سمت اٹھائے گئے تھے،تو اُس کے اثرات بھی بڑے واضح تھے، جس نے تحریک کو پورے ہندوستان میں مقبول کردیا ،لیکن پھر قیامِ پاکستان کے بعد سیاسی عزائم اور حکومتوں کا تختہ الٹنے کی سازش نے اس تحریک کوبہت نقصان پہنچایا،جس کی وجہ سے انجمن ترقی پسند مصنّفین اور اُس سے متعلق افراد کو رُبع صدی تک شدید ریاستی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

گرچہ ترقّی پسند تحریک کا باقاعدہ آغاز1936ء میں ہوا ،لیکن اس کی کونپلیں کافی پہلے ہی سے پُھوٹنا شروع ہوگئی تھیں۔ یعنی 1917ء کے زارِ روس کے خلاف اشتراکیوں کے انقلاب نے سماجی، سیاسی اور معاشی اعتبار سے اقوامِ عالم میں ایک غیر معمولی تحریک پیدا کی۔ جس کے نتیجے میں انگریزوں کے زیرِ تسلّط ہندوستان میں بھی ایک طرح کی بیداری محسوس کی جانے لگی ۔ 

ان ادبا و شعرا میں اردو کے ادیب و شاعر بھی شامل تھے، جنہوں نے انیس ویں صدی کے نصف آخر میں انگریزوں کے خلاف باضابطہ آواز بلند کی۔ پیرس میں ہونے والی پہلی بین الاقوامی کانفرنس میں ہندوستان کی ترجمانی سجاد ظہیر اور ملک راج آنند نے کی اور وہاں سے لندن واپسی پر اِن ہی دونوں اشخاص نے محمّد دین تاثیر اور پرمود سین گپتا وغیرہ کے ساتھ مل کر ترقی پسند تحریک (ہند)کی بنیاد ڈالی اور بعدازاں برطانیہ میں موجود ہم خیال ہندوستانی ادباو شعرا کو اکٹھا کرنا شروع کیا۔ 1936ء میں ترقی پسند تحریک کی پہلی ’’کُل ہند کانفرنس ــ‘‘ لکھنؤ میں ہوئی، جس کی صدارت معروف ہندی اردو افسانہ نگار ،منشی پریم چند نے کی۔ اُن کا یادگاری خطبہ ،ترقی پسند تحریک کے بعد کے ادوار میں بہت اہم تصوّر کیاجاتا ہے ۔خطبے کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔’’ہمیں حسن کا معیار تبدیل کرنا ہوگا، ابھی تک اُس کا معیار امیرانہ اور عیش پرورانہ تھا، ہمارا تخلیق کار امراکے دامن سے وابستہ رہنا چاہتا ہے۔ انہی کی قدردانی پر اُس کی ہستی قائم ہے اور انہی کی خوشیوں، حسرتوں، تمناؤں، چشمکوں اور رقابتوں کی تشریح و تفسیر فنِ لطیف کا مقصد ِواحد ہے۔

اُس کی نگاہیں محل سراؤں اور بنگلوں کی طرف ہی اٹھتی ہیں ، جھونپڑی اور کھنڈر اُس کی التفات کے قابل نہیں کہ انہیں ہمارا تخلیق کار انسانیت کے دامن سے خارج سمجھتا ہے۔ آرٹ نام ہے، الفاظ کی ترکیبوں اور خیالات کی بندشوں کا ،یعنی کوئی آئیڈیل نہیں ،زندگی کا کوئی اونچا مقصد نہیں۔ جس ادب سے ہماراذوق بیدار نہ ہو، روحانی و ذہنی تسکین نہ ملے، قوت و حرارت پیدا نہ ہو، جذبۂ حسن نہ جاگے، جو ہم میں سچّا ارادہ اورمشکلات پر فتح پانے کے لیےسچا استقلال پیدا نہ کر سکے، ایسا ادب آج ہمارے لیے بے کار ہے ، جس پر ادب کا اطلاق نہیں ہوسکتا ۔ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اترے گا، جس میں تفکر ، جذبۂ آزادی، حسن کا جوہر، تعمیر کی روح اورزندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو، جو ہم میں حرکت، ہنگامہ اور بے چینی پیدا کرے، یعنی سُلائے نہیں، کیوں کہ اب اور زیادہ سونا، موت کی علامت ہوگی۔‘‘

یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ ترقی پسند تحریک کو ابتدا ہی سے جید ادبا و شعرا کی غیر معمولی حمایت حاصل رہی ، جس سے اِس تحریک کو عوام تک پہنچنے میں کچھ خاص دقّت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ترقی پسند تحریک کی دوسری کانفرنس الہٰ آباد میں ہوئی اور اُس میںرابندرناتھ ٹیگور کا پیغام اِن حوالوں سے انتہائی غیر معمولی اہمیت کا حامل تھاکہ اُس میں ٹیگور نے انسان دوستی کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے انسانیت اور آزادی کی سمت کی اشارے دیئے۔’’تخلیقِ ادب میں تنہائی جتنی مفید ہے ،اتنی ہی مُضر بھی۔ 

یہ سچ ہے کہ تنہائی میں ادیب اپنے نفس سے ہم گوش ہوتا ہےکہ مطالعے اور مشاہدے کا اصل رمز وہاں ملتا ہے اور دھیان بٹانے کے لیے کسی قسم کا شور و شغف نہیں ہوتا، اسی وجہ سے عزلت پسندی میری طبیعتِ ثانیہ بن گئی ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سماج سے الگ تھلگ رہنے والا ادیب بنی نوع انسان سے آشنا نہیں ہوسکتا، بہت سے لوگوں سے مل کر جو تجربہ حاصل ہوتا ہے، الگ رہ کر ادیب اُس سے محروم رہ جاتا ہے۔ سماج کو جاننے پہچاننے اور اُس کی ترقّی کی راہ کا پتا دینے کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ ہم سماج کی نبض پر ہاتھ رکھیں اور اُس کی دھڑکنیں سُنیں۔ 

یہ اُسی وقت ممکن ہے، جب ہم انسانیت کے غم گسار اور ہم دَم ہوجائیں کہ صرف اسی صُورت ہم انسان کی روح کو پہچان سکتے ہیں۔ ادب اور انسانیت ، جب باہم ایک دوسرے کے رفیق ہوجائیں گے، تو رہنمایانِ خُلق کو مستقبل کی اصل راہ ملے گی، تو پھر وہ سمجھیں سکیں گے کہ بیداری کا صور کیا ہے اور زمانہ کس نغمے کو سُننے کے لیے بے چین ہے۔ اسی وقت انہیں عوام کے جذبات کا علم ہوگا کہ ظاہر ہے، عوام سے الگ رہ کر ہم بیگانۂ محض رہ جائیں گے۔‘‘

سجّاد ظہیر اور اُن کے رفقا کارل مارکس کے فلسفے سے متاثر لندن سے اشتراکیت کا نظریہ ہندوستان لائے تو جیسے ایک انقلاب کی فضا بننے لگی۔جس کی وجہ سے ہندوستان کے شعرا و ادبا جُوق در جُوق اِس تحریک کا حصّہ بنتے گئے اورپھر فاشزم کے خلاف لڑائی وبغاوت کے جرم میں جیلیں بھی کاٹیں۔ اساطیری ادب کے برخلاف ترقی پسند ادیب کا مطمعِ نظر انسان اور اُس کی فلاح ہوتی ہے ،وہ انسانی سماج کو دَرپیش مسائل ادب کے ذریعے عوام و خواص تک پہنچاتا ہے۔ 

گل و بلبل، کاکل و پیچاں، چوٹی و پراندہ و چاہِ زقند اُس کے مسائل نہیں، یہاں تک کہ اُس کی تشبیہات و استعارات تک عام ادب سے مختلف ہوتی ہیں۔ وہ اپنی لفظیات بھی سماج سے جوڑ کر استعمال کرتا ہے۔ ترقّی پسند تحریک کا ایک اہم مقصد ملکی و سیاسی معاملات میں دانش وَروں ، ادیبوں کو بھی شامل کرنا تھا ،تا کہ معاملات سمجھ بوجھ کے ساتھ چلائے جاسکیں اور یہ باور کروایا جاسکے کہ ادب اور سماج کا رشتہ اٹوٹ ہے۔ ادیب کا سماج سے رشتہ جتنا مضبوط ہوگا ،اتنا ہی عوام اور عوامی مسائل کے حل کے لیے اُس کی جدوجہد بار آور ثابت ہوگی۔ مارکس نے شاعروں،ادیبوں کو یہ باور کروایا کہ شاعروادیب کو انسان و سماج سےہم دردی ہونی چاہیے، انسان کے حقوق، آزادی اور مقاصد کے حصول پر اُن کی نگاہ ہونی چاہیے۔ 

شاعر و ادیب معاشرے میں موجود نفاق و تفاوت کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔انسان کا احترام ،بحیثیت انسان ہوناچاہیے، نہ کہ نسلی و مذہبی منافرت کے دائرے میں ، اِس وجہ سے ترقی پسند تحریک نے جو سب سے پہلا کام کیا ،وہ مذہب کو ذاتی معاملہ قرار دے کر دوسروں کی زندگی میں مذہبی مداخلت کی راہ روک دی اور انسان کو دعوت دی کہ وہ مسائل کے حل کے لیے سائنسی و عقلی عوامل کو ترجیح دے۔ تحریک کے بنیادی مقاصد میں ہر طرح کی سماجی، سیاسی اور معاشی ناانصافی، استحصال، ظلم و تشدّد، نفرت اور تعصّب کی شدید مخالفت کرنا، انسان کو دعوتِ فکر دینا وغیرہ شامل ہےتاکہ وہ سائنسی توجیہات و عقل پرستی اختیار کرے ، جس سےمعاشرے میں صداقت، انصاف، امن، نیکی اور مساوات و احترام کی فضا قائم ہوسکے ۔ 

ادب کو فرقہ پرستی کے بجائے سیکولرازم، جذباتیت کے بجائے عقلیت، فرار کے بجائے جدوجہد، جمود کے بجائے تغیر، تعطل کے بجائے تسلسل، انفرادیت کے بجائے اجتماعیت اور رومانیت کے بجائے حقیقت کاعلم بردار ہونا چاہیے۔ ترقّی پسند تحریک کی ’’پہلی کُل ہند کانفرنس‘‘ میں پیش کیے جانے والا ایک اعلانیے کا اقتباس ہے کہ ’’ہندوستانی ادیبوں کا فرض ہے کہ وہ ہندوستانی زندگی میں رُونما ہونے والی تبدیلیوں کا بھرپور اظہار کریں اور ادب میں سائنسی عقلیت پسندی کو فروغ دیتے ہوئے ترقی پسند تحریک کی حمایت کریں ۔اُن کا فرض ہے کہ وہ اِس قسم کے اندازِ تنقید کو رواج دیں،جس سے خاندان، مذہب، جنس، جنگ اور سماج کے بارے میں رجعت پسند اور ماضی پرستی کے خیالات کی روک تھام کی جاسکے۔‘‘

اس تحریک کی آمد جس دَور میں ہوئی، اس زمانے میں اُردو ادب خالصتاً رُومانیت کا شکار تھا ۔اُردو کے رُومانی شعرا کی یہاں سے وہاں تک دھوم تھی ،ایسے میں پورے معاشرے کو ایک نئی سمت دینا بذاتِ خود ترقی پسند تحریک کا ایک بڑاوصف ہے، جس میں سراسر حقیقت نگاری کا دخل ہےکہ اُردو شاعری و نثر اس سے قبل تک تورُومانیت کی گود میں بیٹھی کوہِ قاف کی وادیوں کی سیر کر رہی تھی۔ تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اُردو میں حقیقت نگاری کا فروغ ترقی پسند تحریک کی وجہ سے ممکن ہوسکا۔ 

ویسے یہ بات کُھلی کتاب کی طرح ہے عیاں کہ کسی تحریک کی ابتدا نسبتاً آسان خیال کی جاتی ہے، لیکن اُس تحریک کو مسلسل چلانا ایک امرِ مشکل ہی نہیں ، گویا کوہِ گراںہے کہ تاریخ گواہ ہے، جس انقلابی تحریک نے انسانی سماج کا ظاہری نقشہ تک بدل ڈالا ہو ،اُسی تحریک کو موم کی طرح پگھلا دیا جاتا ہے اور اُس کا زور توڑنے کے لیے، اُس کی اپنی ہی توانائی استعمال کی جاتی ہے۔ بس یہی کچھ ترقی پسند تحریک کے ساتھ بھی ہوا کہ جس استقامت کے ساتھ تحریک سے وابستہ لوگوں نے انسانی فلاح و بہبود کی جدّوجہد کی، بعد میںآنے والوں کی ہٹ دھرمی اور انتہا پسندی نے اس تحریک کی جان ہی نکال دی ،جو بالآخر تحریک کے زوال کا باعث بنی۔

تازہ ترین