• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گلگت بلتستان انتخابات، تاریخ میں پہلی بار غیرمعمولی اہمیت کے حامل

اسلام آباد (طارق بٹ) گلگت بلتستان انتخابات، تاریخ میں پہلی بار غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہوگئے ہیں۔ پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے انتخابات کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنالیا ہے۔ 

تفصیلات کے مطابق، پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ صرف 13 لاکھ کی آبادی میں 7 لاکھ 45 ہزار ووٹرز کو متاثر کرنے کے لیے قومی سطح کے لیڈرز اتنی بڑی مہم چلارہے ہوں، جیسا کہ گلگت بلتستان میں انتخابی مہم چل رہی ہے۔ پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے گلگت بلتستان کے انتخابات کو زندگی اور موت کا مسئلہ سمجھ لیا ہے۔ 

سب یہی سمجھ رہے ہیں کہ اگر وہ یہاں ناکام ہوئے تو قومی سیاست پر ان کی ناکامی پر مہر لگ جائے گی اور وہ اپنے مخالفین کے دبائو میں آجائیں گے۔ انتخابات کے نتائج تو اتوار کو ووٹنگ کے بعد ہی سامنے آئیں گے لیکن اپوزیشن کی جانب سے دھاندلی کے الزامات ابھی سے عائد کیے جارہے ہیں۔

گلگت بلتستان کے انتخابات میں بڑی جماعتوں نے کبھی اتنی توجہ نہیں دی۔ پہلی بار یہاں انتخابات 2010 میں ہوئے تھے جس میں پیپلزپارٹی نے کامیابی حاصل کی تھی۔ اسی طرح 2015 میں یہاں ن لیگ نے کامیابی حاصل کی تھی جب وفاق میں ان کی حکومت تھی۔ 

لیکن دونوں موقعوں پر یہاں انتخابی مہم میں ایسا جوش اور ولولہ نہیں دیکھا گیا جیسا کہ اس مرتبہ دیکھا جارہا ہے۔ 15 نومبر کے انتخابات کے لیے شروع ہونے والی انتخابی مہم شروع ہوتے ہی بڑی سیاسی جماعتوں نے اس میں گرما گرمی دکھائی۔ پیپلزپارٹی کی چیئرمین بلاول بھٹو پہلے بڑے سیاسی رہنما تھے جو گلگت بلتستان انتخابی مہم کے لیے پہنچے وہ تین ہفتے سے زائد وہاں رہے۔ انہوں نے انتخابی مہم کو غیرمعمولی اہمیت دی اور کئی حلقوں میں ریلیاں بھی نکالیں۔ 

جب کہ کئی بار پیپلزپارٹی کے رہم رہنما بشمول قمرزمان کائرہ بھی ان کے ساتھ رہے۔ ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے انتخابی مہم تاخیر سے شروع کی۔ تاہم، انہوں نے بھی متعدد اجتماعات سے خطاب کیا، جہاں انہوں نے ن لیگ کے ساتھ پی ڈی ایم کے بیانیے کو بھی کھل کر بیان کیا۔ ان کے ساتھ بھی ن لیگ کی سینئر قیادت موجود رہی۔ 

جب کہ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے بھی گلگت بلتستان کا دورہ کیا اور گلگت بلتستان کو ضمنی طور پر صوبے کی حیثیت دینے کا اعلان کیا۔ تاہم، پی ٹی آئی کی جانب سے انتخابی مہم چلانے میں وفاقی وزیربرائے امور کشمیر اور گلگت بلتستان علی امین گنڈاپور آگے آگے رہے۔ 

جنہوں نے اپنی پارٹی کو ووٹ ملنے پر بھاری فنڈز دینے کا بارہا وعدہ بھی کیا۔ جب کہ مراد سعید اور زلفی بخاری نے بھی انتخابی مہم میں حصہ لیا۔ 24سیٹوں کے ہر حلقے میں اوسطاً 31 ہزار ووٹ بنتے ہیں۔ 

اگر ٹرن آئوٹ 50 فیصد بھی رہا تو اوسطاً 15 ہزار ووٹرز اپنا حق رائے دہی ہر حلقے میں استعمال کریں گے۔ 

اس لحاظ سے جیت کا فرق بہت زیادہ نہیں ہوگا۔ اتوار کے روز 23 سیٹوں کے لیے پولنگ ہوگی جب کہ 24 ویں سیٹ کے لیے بعد میں پولنگ ہوگی۔

تازہ ترین