• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ رات آنسوؤں سے بھیگی ہوئی ، بہت بھیانک تھی، مگر کون جانےکس معصوم خواب کی طرح اس رات نے اپنے آپ پر ضبط قائم رکھاپھر صبح، وہی سڑکیں گاڑیوں کی ندیاں بن کر بہنے لگیں، جن پر کراچی کی ماں کشمور میں دوڑتی ہوئی روتی دھوتی تھانے پہنچی۔ پولیس والے اس کا حلیہ دیکھ کر آنکھیں پھاڑے اپنی کرسیوں سے اٹھ گئے۔ وہ ڈر ڈر کر بات کررہی تھی۔ شاید پولیس کے خوف سے اس کی زبان لڑکھڑا رہی تھی اور جب اس نے ہمت مجتمع کرتے ہوئے اپنی بپتا سنائی تو اُن کی زبانیں گنگ اور آنکھیں نم ہوگئیں، جنہیں بے رحم ، ظالم کہا جاتا ہے۔ ننگ انسانیت کا واقعہ سماعت سے ٹکراتا ، آنکھوں سے برستا، چہرے پر امڈتا، دل و دماغ میں ہتھوڑے برساتا رہا۔

یہ واقعہ اُس چار سالہ بچی کا ہے، جو بات بھی ٹوٹے پھوٹے لہجے میں کرتی ہے، جسے پتا ہی نہیں اُس کے ساتھ ہو کیا گیا۔ ماں اپنی اور بیٹی کی بپتا سناتے ہوئے ہاتھ جوڑ جوڑ کر پولیس افسر سے کہہ رہی تھی ، میری بچی کو رہائی دلادو، ظالم کہتے ہیں، پہلے ہمارے لیے دوسری لڑکی لاؤ تمہاری بیٹی دیں گے ورنہ........، اس سے آگے وہ کچھ نہ کہہ سکی۔ دوسرے دن سوشل میڈیا پر بچی اور ماں کی جو ویڈیو منظر عام پر آئی، اس نے سخت سے سخت دل کو بھی پاش پاش کردیا۔ بچی کے سر کے بال کٹے ہوئے، دانت ٹوٹے ہوئے، جسم زخمی تھا۔ جب کم سن بچی کو بازیاب کیا گیا تو وہ ایک میلی گندی ’’رلی‘‘ میں لپٹی ہوئی تھی۔ پولیس نے رلی ہٹائی تو دل دہلا دینے والا منظر دیکھ کر ان ہی کی نہیں جس جس نے بھی یہ منظر دیکھا ہوگاسب کی آنکھیں خوف سے بندہوگئی ہوں گی۔

یہ سانحہ پنجاب ، کےپی کے اور سندھ و بلوچستا ن کے سنگم پر ہوا، یہ قیامت ایسی جگہ آئی ، جہاں چاروں صوبوں کی سرحدیں ملتی ہیں، جواسلامی ملک کہلاتا ہے۔ اُس سیاہ رات ایک پل کے لیے ستاروں نے اپنی گردش روک کر اپنے رب سے کہا ہوگا،یا اللہ زمین کی ایک ماں کی آنکھیں فریاد کررہی ہیں، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف ملے گا۔

کشمورمیں ماں اور اس کی چار سالہ بیٹی کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ بیان کرنے کی ہمت کہاں سے لائیں۔ ایک ایک حروف کو آنسوئوں کے عمیق سمندر میں ڈوب کر لانا پڑ رہا ہے۔ ایک ایک لفظ دل پر کجوکے لگا رہا ہے، پھر بھی سچ بیان کرنے کے لئے قلم ساتھ نہیں دے رہا۔اس دل دہلا دینے والے واقعے سے چند روز قبل ایک اور دل خراش سانحہ ہوا تھا۔ پانچ سال کی ’’مروہ‘‘ کا ریپ کرکے اس کی سر پر اس طرح اینٹیں ماریں کہ وہ زندگی کی بازی ہار گئی۔ یہی نہیں، اس کو آگ کی نذر کردیا جب وہ جل کر بھسم ہوگئی تو اسے کچرے کے ڈھیر میں پھینک کر درندے اطمینان سے ایسے چلے گئے جیسے انہوں نے بچی نہیں کوڑے کی تھیلی پھینکی ہے۔

دانش ور کہتے ہیں کہ لکھنے اور کہنے کے لئے سب سے مشکل کام بات کا سرا تلاش کرنا ہوتا ہے، اس کے بعد کوئی مشکل نہیں رہتی لیکن ہماری مشکل یہ ہے کہ دماغ سن، ہاتھ ساکت اور زبان گنگ ہے کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن وہ سرا نہیں مل رہا جہاں سے بات آگے بڑھائی جائے۔ قلم بھی وزنی کلہاڑا بن گیا،سب کچھ لکھنے سے انکاری ہے۔ مختلف اخبارات نظروں کے سامنے ہیں، کم و بیش ہر اخبار کے صفحہ اول پر خواتین پر بہیمانہ تشدد کی شہ سرخیاں ہیں۔کشمور سے پہلے اور اس کے بعدپے درپے پہ ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں کہ لگتا ہے، درندوں کو روٹی کے نوالے مل رہے ہیں۔ سرخیاں پڑھنے کے بعد پوری خبر پڑھنے کا حوصلہ بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔ 

ہر خبر میں اندوہناک منظر سمایا ہوا ہے۔ واقعات ایسے ہیں جن سے نظریں نہیں چرائی جاسکتیں لیکن جنہیں پوری طرح بیان بھی نہیں کیا جاسکتا۔ایسا لگتاہے کہ گڈریے، بھیڑیوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور کھیت کی باڑ کھیت ہی کو کھا رہی ہے۔ یقین اور بے یقینی کی کیفیت میں دل و دماغ پر ایک ہی سوال ہتھوڑے برسا رہا ہے، کیا ہم بہ حیثیت قوم انسانیت کے کم سے کم معیار پر پورے اتر رہے ہیں؟ اس کا جواب ڈاکٹر ساجدہ احمد، جو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہیں، کے ایک خط سے مل گیا جو انہوں نے چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو لکھا ہے۔ اس کھلے خط میں اپنے بچھتاوے کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر ساجدہ احمد نے لکھا ہے کہ، کاش صدی کا ربع حصہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں صرف کرنے کے بجائے وہ گائوں میں مویشی چراتی، اُپلے تھاپتی، اپنی کاشت کار فیملی کی مدد کرتی۔ 

اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کرکے ایک نہایت بلند منصب پر فائز ہوکر انہیں کیا حاصل ہوا؟ گالیاں، بے حرمتی، خوف و ہراس، توہین، بدسلوکی، مجبوری اور مایوسی۔ مکتوب کے آخر میںوہ آرزو کرتی ہیں کہ ’’کاش‘‘ خواتین کو اتنا حوصلہ ملے کہ وہ اپنے جوش اور ایمان کے ساتھ کسی کی بہن، بیٹی یا ماں بن کر وقار اور تکریم کے ساتھ قوم کی خدمت کرسکیں۔ انہوں نے خواتین کے ساتھ بدسلوکی کا ذکر اس پیشے کے حوالے سے کیا ہے جس سے وہ منسلک ہیں۔ ڈاکٹر ساجدہ نے جس نامور کا ذکر کیا ہے وہ بدن کے کسی ایک عضو تک محدود نہیں، پورے بدن کو فاسد کرچکا ہے۔ 

ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ عورت کو اس معاشرے نے وہ مقام دیا ہی نہیں جو اس کا استحقاق ہے۔ اس میں حسب توفیق سب اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ پوسٹ آفس کی خاتون افسر صوفیہ قاسم کو جس مرد نے تھپڑ مارا تھا وہ بزنس مین ہی نہیں سیات دان بھی تھا۔ لاہور موٹروے پر جس خاتون کی اس کے بچوں کے ساتھ بے حرمتی ہوئی تھی اسے ایک پولیس افسر نے یہ بیان داغ کر کہ وہ رات گئے اکیلے گھر سے کیوں نکلی، مرد کی ذہنیت بتادی۔ 

جب سولہ سے 18سال کی تین لڑکیوں کو ریگستان میں زندہ دفن کیا گیا تو یہ مرد سینیٹر تھے جنہوں نے اس بربریت کا دفاع کیا تھا۔ کون سا طبقہ ہے جو عورت کے خلاف جرائم کے ارتکاب سے پاک ہے۔ بیش تر مرد عورت پر تشدد کرتے ہیں، کیا ان پڑھ کیا تعلیم یافتہ لیکن آج جس طرح اس پر تشدد کے ایسے کاری وار لگائے جارہے ہیں، اس کی مثال تو قاہرہ کے بازاروں میں بھی نہیں ملتی جب تاریخ کے شرم ساز قدموں کو رکنے کی ہمت نہیں تھی ۔

آج ایک ڈرائونے خواب کی طرح ڈری سہمی عورت بانہوں میں بچوں کو چھپائے خوف سے کانپ رہی ہے۔ انسانی آنکھیں تو انسانی آنکھیں ہیں، کیمروں کی شیشے والی آنکھیں بھی خواتین اور معصوم بچیوں پر بہیمانہ تشدد کے منظر محفوظ کرتے ہوئے تکلیف محسوس کررہی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانیت ختم ہوگئی ہے۔ 

درندے اس لئے آزاد گھوم رہے ہیں کہ ان کو پکڑنے والے خواب غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔ گرچہ عورتوں پر تشدد ہمارے معاشرے کا انتہائی دردناک المیہ ہے لیکن اس سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس پر تشدد کا آغاز گھر ہی سے ہوتا ہے اور صرف جسمانی نہیں بلکہ ذہنی بھی ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہےاگر مرد چلا سکتا ہے تو عورت کو بھی کم از کم ’’آہ‘‘ بھرنے کی آزادی ہونی چاہئے لیکن اس کی ’’آہ‘‘ پر بھی تھپڑوں، گھونسوں کی بارش ہوجاتی ہے۔

اب تو ظلم کی انتہا ہوگئی ہے۔گھریلو تشدد سے بات آگے بڑھ گئی ہے۔پاکستان ہی میں نہیں بنگلہ دیش ، بھارت، صومالیہ ہی نہیں، ترقی یافتہ ممالک میں بھی جنسی زیادتی کے واقعات رونما ہونے کا ایک تسلسل ہے، جو تھمنے کا نام نہیں لے رہے ۔ ایسے واقعات کے تدارک اور ان پر قابو پانے کی تمام کوششیں رائیگاں جارہی ہیں۔

رواں سال پاکستان سمیت بھارت، نیپال اور بنگلہ دیش میں ایسے ایسے دل خراش واقعات ہوئے کہ دل کانپ کانپ گیا۔ خواتین سمیت پھول جیسی معصوم بچیوں کے ریپ ہی نہیں ہوئے ، زیادتی کے بعد انہیں جان سے بھی مار دیا گیا اور پھر ثبوت ختم کرنے کے لیے ان کی لاشوں کو پٹرول ڈال کر جلا دیایا کچرے کے ڈھیر میں پھینک دیا۔ 

خواتین کے خلاف روا رکھے جانے والے تشدد اور ظلم و زیادتی کی داستان محض کسی ایک کے حوالے سے نہیں ہے،یہ تو دنیا میں آنکھ کھولتی ہیں تو خاندان میں سوگ کا سماں ہوتا ہے۔ غذا کم ہو تو سب سے کم بیٹی، بہن اور ماں کے حصے میں آتی ہے۔ انصاف اگر سب کو مکمل نہیں ملتا تو عورت کو اس سے بھی کم ملتا ہے، اگر مزدور کی بیوی ہے تو مزدور تو پسا ہوا ہے لیکن اس کی بیوی مزید پستی ہے۔

معاشرہ سوالیہ نشان بنا ہوا ہے کہ کیا جنسی دیوانگی کی کوئی لہر آئی ہوئی ہےیا معاشرہ تہذیبی زوال کا شکار ہے۔ جنسی بھیڑیئے ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد خواتین اور بچوں پر تیزی سے حملہ آور ہورہے ہیں۔ لگ ایسا رہا ہے کہ ہمارا سماجی و معاشرتی ڈھانچا زمیں بوس ہورہا ہے۔ عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے، جب کہ کم زور تفتیش اور عدلالتی نظام کے سقم سے فائدہ اٹھانے والے مجرموں کے دلوں سے قانون کا خوف جاتارہا ہے۔ سزا کا تصور ختم ہوچلا ہے ۔

بہ ظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ہاں جنگل کا قانون لاگو ہے۔ جہاں ہوس کے پجاری درندوں کا قبضہ ہے۔ جہاں وحشتیں رقص کررہی ہیں۔ زمین ان کے کالے کرتوتوں سے لرز رہی ہے۔ فضا ان کی بھیانک آوازوں کی گونج سے سہمی ہوئی ہے اور انسانیت سسک رہی ہے۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے ہیں۔ اگر دنیا بھر میں خواتین پر ہونے والے تشدد کے واقعات ایک ہی خبر میں جمع کرکے شائع کرنے کی روایت ہوتی تو ہر روز اخبارات کی آٹھ کالمی ہیڈ لائن خواتین پر تشدد سے متعلق ہی ہوتیں۔ 

سنگاپور، ایتھوپیا، پیرو، امریکا اور بھارت سمیت دنیان بھر کے 82ممالک کے اخبارات کا پہلا صفحہ ہزاروں خواتین سے جنسی درندگی، تیزاب کے وار، جہیز نہ لانے پر بدترین تشدد کی خبریں سیاہ حاشیوں کے ساتھ شائع ہوتیں۔ صومالیہ، گنی، جیسبوتی، جنوبی افریقا، بنگلہ دیش کے اخبارات چیختی، چنگھاڑتی سرخیوں کے ساتھ قارئین کو بتاتے کہ، بھائی نے بہن کو، محبوب نے محبوبہ کو، پسند کی شادی نہ ہونے پر باپ نے بیٹی کو زندہ جلاکر لاش جھاڑیوں میں چھپا دی یا گھر کے صحن میں دفن کردی۔ صومالیہ سمیت بیش تر افریقی ممالک کے علاوہ چین، یمن، شمالی کوریا اور جاپانی اخبارات ہزاروں کی تعداد میں لڑکیوں کے ساتھ جبراً جنسی درندگی کے حوالے سے شہ سرخیاں چھاپتے۔

اگر ایسا ہوتا تو شاید حکم رانوں، طاقت وروں کی آنکھیں بہت پہلے کھل جاتیں لیکن صحافت کے اصولوں کے باعث خواتین پر تشدد کی خبریں اس طرح شائع نہیں کرسکتے۔ آج بھی خواتین پر ظلم و زیادتی ان پر بہیمانہ تشدد کی مکمل خبریں شائع نہیں ہوتیں، جو ہوتی ہیں وہ بھی اخبار کے اندرونی صفحات پر بھی اس طرح شائع ہوتی ہیں کہ بہت سوں کی نظروں سے گزرتی بھی نہیں۔

یہ خبریں سوال کرتی ہیں، کہاں ہیں انصاف کے پیغمبر

یادش بخیر! چند سال پہلے صنف کی بنیاد پر شدید نوعیت کے بیشتر واقعات گھریلو ہوئے۔ اس کی خطرناک جھلک پاکستان میں منعقدہ خواتین کی بین الاقوامی کانفرنس میں دیکھنے کو ملی۔ تین روزہ کانفرنس کے دوسرے دن ایک سیشن میں زیربحث موضوع تھا ’’عورتوں پر تشدد کا تدارک کیسے ممکن ہے؟‘‘ اسٹیج پر مختلف ممالک کی خواتین تنظیموں کی سرکردہ خواتین کے علاوہ ظلم و ستم کی ستائی تین خواتین اپنے چہرے اس طرح ڈھانپے بیٹھی تھیں کہ ان کی صرف آنکھیں نظر آرہی تھیں۔ ان کا تعلق پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان سے تھا۔ 

معزز مقررین اپنے چہروں پر فکروتردد کی لکیریں کھینچے، لفظوں کے گورکھ دھندوں میں سامعین کو الجھائے محفل لوٹنے کی کوشش کررہے تھے۔ کوئی مقرر الفاظ کے ذخیرے کا دل کھول کر استعمال کررہا تھا اور کوئی آواز کے زیروبم سے ماحول پر افسردگی طاری کرنے کی کوشش کررہا تھا لیکن اصل موضوع سے کم و بیش سب ہی مقرر روگردانی کرتے ہوئے اپنی ان کوششوں کا ذکر کررہے تھے جو انہوں نے خواتین پر تشدد کے خلاف کی تھیں البتہ محسوس ایسا ہورہا تھا کہ ان کی لچھے دار باتیں سامعین کی سماعت سے نہیں ٹکرا رہیں۔ 

ان کی تو پرتجسس نگاہیں اسٹیج پر بیٹھی ان مظلوم خواتین پر مرکوز تھیں جو اپنے چہرے چھپائے نیم وا آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھیں۔ میزبان نے مظلوم خواتین کے اصل نام پوشیدہ رکھتے ہوئے انہیں پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان کہہ کر اسٹیج پر آنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا ’’یہ بے بس خواتین اپنے چہروں کو ڈھانپے اس لئے بیٹھی ہیں کہ وحشی مردوں نے جو کوئی غیر نہیں ان کے اپنے تھے، ان کے چہروں پر تشدد کی چھاپ بٹھا دی ہے۔ 

کسی کے چہرے کی کھال جلد سے علیحدہ، کسی کا چہرہ تیزاب سے مسخ، کسی کا حسین چہرہ گرم استری سے جھلسا ہوا ہے۔ انہیں کس جرم کی پاداش میں اپنے اصل چہرے کھونے پڑے، اس بارے میں یہ خود بتائیں گی۔‘‘ اپنی بات مکمل کرکے میزبان نے مظلوم خواتین کے چہروں سے چادر ہٹائی۔ ایک ایک چہرہ کھلتا گیا، ساتھ سامعین کی چیخیں، رونے کی آوازوں میں مدغم ہوتی گئیں مگر لاچار خواتین ساکت کھڑی رہیں۔

پاکستانی خاتون نے اپنی بپتا سناتے ہوئے کہا ’’میرا جرم یہ ہے کہ میں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے عملی زندگی میں قدم رکھا، خاندانی روایات سے انحراف کیا اور اپنی پسند سے کورٹ میرج کرلی لیکن شادی کے صرف پچیس دن بعد میرے باپ اور چچا نے میرے چہرے پر تیزاب پھینک دیا۔ روتی، دھوتی، تکلیف سے تڑپتی جھلسا چہرہ لئے جب گھر میں داخل ہوئی تو شوہر چیخ مار کر پیچھے ہٹ گیا۔ 

چند گھنٹے روتی رہی اس اثناء میں شوہر کو صورتحال کی سنگنی کا اندازہ ہوگیا تو اس نے مجھے آزاد کرنے میں لمحہ بھر کی دیر نہ کی اور یہ کہہ کر چلا گیا کہ تمہارے ساتھ میری جان کو بھی خطرہ ہے۔ اب کہاں رہتی ہوں، یہ نہیں بتائوں گی۔ لیکن گھر کی چہاردیواری میں رہ کر اتنا کما لیتی ہوں کہ دو وقت کی روٹی نصیب ہوجاتی ہے۔ کھلی فضا میں سانس لینے کا حوصلہ نہیں۔ ویسے بھی اب میں زندہ رہنا نہیں چاہتی۔

میزبان کی خاموش نگاہیں سامعین پر مرکوز تھیں اور سامعین کی نظریں پاکستانی خاتون پر! میزبان نے بھارتی خاتون کو دیکھا اور مائیک اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ مدہم، نپے تلے لہجے میں اس نے اپنا تعارف کچھ اس طرح کرایا کہ ’’میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں کہ آپ کو اس دہشت سے آگاہ کرسکوں جس سے میں گزری ہوں۔ 

میرا چہرہ آپ دیکھ رہے ہیں۔ صرف ایک لمحے کیلئے تصور کریں کہ میرے چہرے پر گرم استری رکھی جارہی ہے، آری کے بلیڈ جیسے چاقو سے چہرے کی کھال ایسے اتاری جارہی ہے جیسے کسی جانور کو ذبح کرکے اس کی کھال اتاری جاتی ہے۔ اس تصور سے ہی آپ کو جھرجھری آرہی ہے جس کا اندازہ مجھے آپ کے چہروں کے تاثرات سے ہورہا ہے۔ میں کیسے بھول سکتی ہوں وہ بھیانک رات جب شوہر نے ساس کی مدد سے میرے دونوں ہاتھوں کو پشت پر لے جاکر رسیوں سے باندھ کر پہلے میرے بال کاٹے پھر چہرے پر تیز گرم استری رکھی اور پھر جھلسی ہوئی جلد کو بھی نہیں بخشا۔ تیز چاقو کی نوک سے کھال کھینچی۔ 

میں کیسے زندہ رہی، یہ مجھے بھی نہیں معلوم! میرا جرم یہ تھا کہ ماں، باپ نے اعلیٰ تعلیم تو دلا دی تھی لیکن ڈھیروں ڈھیر جہیز نہیں دیا تھا۔ ساس جہیز نہ لانے کے طعنے دیتی رہتی اور شوہر تعلیم کو شک کے ترازو میں تولتا رہتا۔ وہ مجھ پر ظلم کرکے اس نشے میں مست رہتا کہ میں نے پڑھی لکھی بیوی کو فتح کرلیا۔ ظلم کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ ایک دن، رات کی تاریکی میں اپنا ادھڑا چہرہ لئے گھر سے فرار ہوگئی۔ 

ماں، باپ کے گھر اس لئے نہیں گئی کہ بہن، بھائی میرا چہرہ دیکھ کر ہی خوف زدہ ہوجاتے۔ میں پہلے تامل ناڈو کے گائوں میں رہتی تھی، اب راجستھان کی ایک کچی بستی میں رہتی ہوں جہاں بچوں کے اسکول میں پڑھاتی ہوں۔ اسکول ہی میری پناہ گاہ ہے۔ علم کی روشنی پھیلا کر مطمئن ہوں۔ کبھی کبھی ماں، باپ ملنے آجاتے ہیں۔ خواتین کی ایک تنظیم سے منسلک ہوکر اپنی جیسی خواتین کیلئے کام کررہی ہوں۔‘‘

بنگلہ دیش کی خاتون اپنے چہرے کو چھپائے زاروقطار رو رہی تھی۔ کوئی اسے دلاسہ دینے، اس کے آنسو پونچھنے کیلئے شایداس لیے آگے نہیں بڑھ رہا تھا کہ دل کا غبار آنسوئوں کی روانی میں چھٹے گا تو اسے اپنے ہونے کا احساس ہوگا۔ وہ اپنے آپ سے بیگانہ لگ رہی تھی۔ چند لمحے بعد اس نے کہا۔ میرے چہرے پر میری کہانی لکھی ہوئی ہے۔ میں وہ سماں نہیں بھول سکتی جب دوسری بیٹی کی پیدائش پر شوہر نے اس بیدردی سے مارا کہ میرے کانوں کے پردے پھٹ گئے۔ میرے چہرے پر جوتا پہنا پیر اتنی طاقت سے رکھا کہ جوتے کے سول میں لگی کیلیں چہرے میں کھب گئیں۔ جب اس نے پیر ہٹایا تو میرے چہرے کی کھال بھی کھنچ گئی۔ تشدد کے وار کرکے جب وہ نڈھال ہوگیا تو گالیاں دیتا ہوا گھر سے چلا گیا۔ صبح سے شام ہوگئی، اپنے بارے میں سوچتے سوچتے۔ 

بالآخر میں نے فیصلہ کیا ایسے مرد کے ساتھ زندگی گزارنے سے کہیں بہتر ہوگا کہ اسے چھوڑ دوں۔ اپنی دونوں بیٹیوں کو لے کر گھر سے نکل گئی۔ منزل کا پتا تو مجھے معلوم نہیں تھا۔ والدین حیات نہیں تھے۔ بہن، بھائی دوسرے شہروں میں رہتے تھے۔ خواتین کی تنظیم ’’سیوا‘‘ کا علم تھا۔ اس کا دفتر گھر سے قریب تھا، سو وہاں چلی گئی۔ 

انہوں نے مجھے جینے کا سلیقہ سکھایا۔ اب اسی حال میں زندگی گزارنی ہے۔ مجھے دیکھ کر لوگ آنکھیں بند کر لیتے ہیں لیکن میں اپنی بیٹیوں کی خاطر حوصلے سے کام لوں گی۔ دعا ہے میری بیٹیوں کا مقدر اچھا ہو۔ میں چاہتی ہوں ظالم مردوں کو سزا ملے ورنہ مجھ جیسی عورتیں زندہ درگور ہوتی رہیں گی۔

ناقابل تصور دکھ کی تین داستانیں، تین ملکوں کی ہیں لیکن کردار دنیا بھر کی خواتین کے ہیں۔ یہ ایسی داستانیں ہیں جنہیں کبھی پوری طرح نہ سنایا جاسکے۔ دکھ، کرب، غصہ، اشتعال، بے بسی، بیزاری، ان تینوں کے لہجے میں کئی لہجے تھے۔ کبھی وہ ہتک عزت کے احساس سے کھولنے لگتیں اور کبھی بے بسی سے ہونٹ چبانے لگتیں، کبھی جھنجھلاہٹ ان کی آواز بلند کردیتی، کبھی بے چارگی چپ کرا دیتی۔ کانفرنس سیشن ختم ہونے کے بعد بھی وہ منظر سے غائب نہیں ہوئیں اور ہو بھی کیسے سکتی ہیں، یہ کردار تو ہمارے چاروں طرف بکھرے ہوئے ہیں۔

اسرائیل کی نسائی امن تنظیم ’’بیت شالم‘‘ کی نمائندہ خاتون ٹیری گرین نے مارچ 2005ء میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔

’’میں ایک عورت ہونے کے ناتے یہ بات اچھی طرح جانتی ہوں کہ جس کسی کو بھی دوسرے پر برتری حاصل ہوتی ہے، وہ اس کا غلط یا ناجائز استعمال کرسکتا ہے۔ اس لئے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اخلاق کا قطب نما ہاتھ میں رکھنا چاہئے جس کی سوئی ہمیشہ انصاف کے رخ پر رہتی ہو۔ ہم سب عورتیں وحشت و بربریت سے نفرت کرتی ہیں۔ 

تشدد، ناانصافی، صنفی تفریق کو جڑ سے ختم کردینا چاہتی ہیں۔ ایک طویل عرصے تک عورت کو صرف مظلوم اور متاثرہ فرد کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے، گرچہ آج بھی بہت سے ممالک میں ایسے ہی نظر آرہا ہے لیکن اب ہمیں اپنے اردگرد کی دنیا کو خود بدلنا ہوگا، اپنے پر ہونے والے ظلم و زیادتی پر آواز بلند کرنا ہوگی۔ اب وقت آگیا ہے کہ عورتوں پر تشدد کرنے والوں کو عبرتناک سزائیں دی جائیں تاکہ آئندہ کسی کو بھی عورت پر ہاتھ اٹھانے، میلی نظروں سے دیکھنے کی ہمت نہ ہو۔ 

آئندہ جو ہمارا ہے، مردوں نے ہمیشہ عورتوں کو دوسرے درجے کی شہری کا رتبہ دیا لیکن اب یہی چیز عورتوں کی طاقت میں اضافے کا باعث بن گئی ہے کیونکہ اسی وجہ سے وہ مسائل حل کرنے کے اختراعی طریقے ڈھونڈنے میں ماہر ہوگئی ہیں۔ جلد ہی وہ وقت بھی آئے گا جب خواتین پر تشدد کرنے والے مرد اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے۔ 

پھر کوئی درندہ، وحشی اس سرزمین پر سر نہیں اٹھا سکے گا اس کیلئے عورتوں کو اپنی بھرپور طاقت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔‘‘اسی سال ٹیری گرین نے اقوام متحدہ کی امن کوششوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’امن اور انسانی حقوق کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ جہاں حقوق نہیں ملتے، وہاں فساد برپا ہوتا ہے۔ اس وقت یورپی دنیا میں ایک ہی بازگشت ہے، عورتوں کو حقوق دو، ان پر تشدد ختم کرو اور مجرموں کو سزا دو۔ اقوام متحدہ اپنی کوششوں میں ناکام ہوگئی ہے۔ آگے کیا کرنا ہے، یہ سوچنا ہماری ذمہ داری محسوس ہونے لگی ہے۔‘‘

اقوام متحدہ کی خصوصی روداد نویس کے الفاظ ہیں۔ ’’خواتین کے خلاف تشدد کے ذریعے یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے کہ انہوں نے عورتوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہنے والوں پر فتح حاصل کرلی ہے۔‘‘

یہ سچ بیانی برسوں سے سنتے آرہے ہیں کہ قوم، ملک، زبان، نسل، رنگ، ذات پات، کلچر! غرض کسی بھی چیز کی تشخیص کئے بغیر دنیا بھر کی خواتین کسی نہ کسی قسم کے تشدد کا شکار ہوتی رہتی ہیں جن میں سرفہرست گھریلو تشدد ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ہمارے اردگرد نسبتاً کثرت ہو لیکن ہماری (پاکستان) تصویر دنیا کے نقشے پر اتنی بھیانک نظر آتی ہے کہ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ یہاں تشدد کی تمام حدیں پار ہوگئیں۔ کیا دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت امریکا میں خواتین پر تشدد نہیں ہورہا، کیا یورپ کی خواتین سکون سے جی رہی ہیں؟

تصویر تو وہاں کی بھی کچھ کم نہیں ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں یہ جاننے کیلئے کہ دنیا بھر میںعورتوں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے؟ عالمی سطح پر دو سو سے زیادہ سروے کیے گئے، جن میں ترقی پزیر اور ترقی یافتہ دونوں ممالک شامل تھے۔ سروے رپورٹ کے مطابق چین، سری لنکا، بلغاریہ، بھارت، پاکستان سمیت برطانیہ اور امریکا بھی خواتین پر تشدد کرنے انہیں ہراساں کرنے اور صنفی تفریق میں پیچھے نہیں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں قیدی خواتین جیلوں میں بھی غیر محفوظ ہیں۔ 

جیل کے محافظ ہی ان پر جنسی تشدد کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہاں خاندان اور کمیونٹی کی حفاظت سے محروم خواتین آسانی سے تشدد کا شکار ہوجاتی ہیں۔ رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ گزشتہ پچاس برس سے امریکا کی جیلوں میں قید خواتین انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا شکار ہیں، وہ تشدد، جنسی زیادتیوں اور بنیادی سہولتوں سے محروم ظالمانہ غیر انسانی رویوں کو برداشت کر رہی ہیں۔

اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی کہ نابرابری کا رشتہ برقرار رکھنے اور مسلسل محکوم رکھنے کے لیے عورتوں کے خلاف تشدد کا ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے اور یہ بھی کھلی حقیقت ہے کہ صنف کی بنیاد پر بدسلوکی کے بیش تر واقعات خاندانوں میں ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں شوہروں اور رشتے داروں کے ہاتھوں ہر سال ہزاروں خواتین شادی سے انکار کرنے، بھاری بھر کم جہیز نہ ملنے کے سبب چہرے پر تیزاب ڈال کر بدشکل بنا دی جاتی ہیں۔ 

معاشی محرومی کا شکار سری لنکا، بنگلہ دیش، بھارت اور افریقا سے ہزاروں عورتوں اورلڑکیوں کو گھر کے سربراہ مرد ہی گھریلو ملازمت کے بہانے سے مختلف ممالک میں اسمگل کردیتے ہیں، جہاں ان سے جسم فروشی کا دھندا کرایا جاتا ہے۔ انکار کی صورت میں ان پر تشدد کیا جاتا ہے، غرض یہ کہ تشدد اور صنفی امتیاز دنیا کے ہر خطے کی عورت سے روا رکھا جارہا ہے۔

ہوتا تو یہ چاہیے کہ جو شخص جرم کرے، سزا اس کو ملنی چاہیے، اس کی ماں بہن، بیٹی، بیوی کا کیا قصور؟ لیکن جاگیرداری و قبائلی نظام میں جرم مرد کرتا ہے، سزا اس کی ماں، بہن، بیٹی کو دی جاتی ہے اور سزا بھی یہ نہیں کہ قید کردیا جائے بلکہ اس پر کوڑے برسائے جاتے ہیں، عزت لوٹی جاتی ہے، اجتماعی زیادتی کی جاتی ہے، غیرت کے نام پر قتل، ونی، دلور، یہ سب ایسی رسمیں ہیں جن کی زد میں بے قصور عورت آتی ہے۔ ایسی بے شمار خبریں روزانہ اخبارات میں جگہ لیتی ہیں۔ میڈیا میں شور بپا ہوتا ہے۔ این جی اوز حکومت پر تنقید کرتی ہیں۔ 

انسانی حقوق کی تنظیمیں اسے عالمی سطح پر دیکھتی اور احتجاج کرتی ہیں۔ دل دوز واقعات ہوں گے تو دنیا میں دہائی تو مچے گی، لیکن سوال یہ ہے کہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی بنتِ حوا کے بدن پر انصاف کا لبادہ نہیں ہے۔ آج اکیسویں صدی میں بھی عورت کے چیخ و پکار اور مظلومیت کی داستانیں عالمی سطح پرسنی جارہی ہیں، لیکن کب تک سنیں جائیں گی، کب تک وہ صرف اعلان ناموں سے خوش ہوتی رہیں گی؟ 

جب کہ ان کے ساتھ نا انصافی کا احساس اقوام عالم کو برسوں پہلے ہوچکا تھا۔ اقوام متحدہ نے 1979ء میں پہلی مرتبہ خواتین کے ساتھ نا انصافی کا نوٹس لیتے ہوئے خصوصی اجلاس بلایا، جس میں تمام ممالک نے اقوام متحدہ کے جھنڈے تلے جمع ہوکر ’’ویمن کنونشن‘‘ منظور کیا، بعد ازاں 20 دسمبر 1999ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی خواتین کے خلاف امتیازی قوانین، تشدد اور صنفی رویے کے خاتمے سے متعلق قرار داد بیش تر ممالک نے متفقہ طور پر منظور کی تھی۔ 

آج اس قرار داد کو منظور ہوئے 20 سال ہونے کو ہیں، لیکن آج بھی اکثر ممالک میں خواتین بہمانہ تشدد و زیادتی سے دوچار ہیں۔ ان پر ظلم و زیادتی کرنے والے ہاتھوں میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ اس اضافے کی بنیادی وجہ تو یہی نظر آرہی ہے کہ ذمے دار افراد کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا۔ اکثر ایسی شہادتوں کو بھی چھپایا جاتا ہے، جن کے باعث تشدد کرنے والوں پر مقدمہ چلا کر سزا سنائی جاسکتی ہو۔

ضرورت اس وقت یہ ہے کہ قانونی کی بے لچک اور بلاامتیاز حکم رانی اور منفی ذہنیت کو بدلنے کے لئے مثبت شعوری کاوشیں کی جائیں۔ اگر کچھ کو تو تادیبی سزا ملے اور دیگر اثر و رسوخ والے جھوٹ جائیں تو اسے قانون کی حکم رانی نہیں کہا جاسکتا۔ قانون پر عمل درآمد اتنی مضبوطی و تسلسل کے ساتھ ہونا چاہئے کہ ہر منفی ذہنیت والے کو یقین ہوجائے کہ وہ درندگی کرنے کے بعد کسی صورت قانون کے شکنجے سے بچ نہیں پائے گا۔ دنیا کی کوئی طاقت اسے تادیبی سزا سے بچا نہیں سکے گی۔ اصل ضرورت انسانوں کو انسانیت سکھانے کی ہے جب انسانیت آئے گی تو اس کے ساتھ تہذیب اور شائستگی ہی نہیں انسانی وقار اور احترام کی سوچ بھی ابھرے گی۔

 آدھی صدی کے بعد

یہ آج سے تقریباً آدھی صدی قبل پنجاب کے شہر گجرات کا واقعہ ہے۔ ایک عورت صبح سویرے اپنے گائوں سے شہر آئی تھی۔ شام کو وہ گائوں جانے کے لیے بس کے اڈے پر آئی۔ بس آنے میں اتنی دیر ہوگئی کہ رات کے سیاہ بادل چھا گئے۔ ایک آدمی اسے بہلا پھسلا کر اپنے گھر لے گیا، جہاں اس نے اور اس کے چند دوستوں نے اس کی اجتماعی عصمت دری کی۔ 

آدھی رات کو کسی طرح وہ ان کے چنگل سے نکلنے میں کام یاب ہوگئی اور برہنہ حالت میں ریلوے اسٹیشن پہنچی۔ اس وقت اسٹیشن پر اکا دکا ملازم تھے۔ انہوں نے رات گئے ایک برہنہ عورت کو دیکھا تو اسے بھوت سمجھ کر چیختے ہوئے بھاگ گئے۔ چند لمحے بعد دو درندے وہاں پہنچ گئے، انہوں نے خنجروں کے وار کرکے اسے مار دیا۔ اس واقعے نے لوگوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا بہت شور بپا ہوا تھا، پھر پتا نہیں ہوا کیا؟ کسی کو نہیں معلوم۔

آدھی صدی بعد گائوں حبیب لبانو کی چودہ سالہ نسیمہ لبانو کو غیرت کے نام پر بے غیرت مردوں نے برہنہ کردیا۔ معصوم بنت حوا نسیمہ لبانو کا قصور اتنا ہے کہ اس کے ایک کزن گامن لبانو نے اپنی پسند سے شادی کرنے کے لیے دوسرے خاندان کی ایک لڑکی خان زادی کو اغوا کیا۔ صورت حال معلوم ہونے کے بعد معاملہ قبائلی طور پر ختم کردیا۔ 

خان زادی کو اس کے ورثا اپنے ساتھ لے گئے لیکن ان کے دلوں میں انتقام کی آگ سلگ اٹھی، جسے ٹھنڈا کرنے کے لیے واقعے کے تیسرے روز اپنا شیطانی کھیل کھیلا، جس کا شکار بوڑھے حمزہ لبانو کی بیٹی بنی۔ گیارہ مردوں نے نسیمہ کو اس کے گھر سے اٹھایا۔ بالوں سے گھسیٹا اور اسے زدوکوب کرتے ہوئے گائوں کی گلیوں میں سے لے کر گئے۔ نسیمہ اپنے بچانے کے لیے چیختی چلاتی رہی لیکن گائوں کے لوگوں نے آنکھیں بند کرلیں اور کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔ 

درندوں نے نسیمہ کو ایک اوطاق میں بند کردیا، جہاں چار لوگوں نے اس کی عزت تار تار کردی، بعد ازاں اسے برہنہ حالت میں گلیوں بھگایا۔ یہ منظم دیکھ کر آسمان بھی رویا ہوگا۔ کچھ غیرت مند مردوں کی نظریں بھی شرم سے جھک گئی ہوں گی۔ درندوں کے پاس جدید ہتھیار تھے اور گائوں والے نہتے تھے۔ اس لیے وہ انسان سوز زندگی کا تماشا دیکھتے رہے، لیکن پھر ایک عمر رسیدہ عورت نے اپنی ہمت مجتمع کی، آگے بڑھی اور نسیمہ پر کمبل ڈال دیا۔ اس واقعے نے آدھی صدی بعد پورے معاشرے کو برہنہ کردیا۔

بھارت ،خواتین پر تشدد اور حقوق کی خلاف ورزیوں میں نمبرون

بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ کے مطابق ملک کے طول و عرض میں ہر ایک گھنٹے سترہ منٹ کے بعد جہیز نہ لانے کی پاداش میں نوبیاہتا کی موت کی خبر ملتی ہے یا اس پر تیزاب پھینکنے کی! جس کا تناسب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ رپورٹ میں اندرا گاندھی اسپتال نئی دہلی سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر ٹی۔پی بنڈال کے حوالے سے درج ہے کہ امسال جس حالت میں تیزاب سے جھلسی، تشدد سے دوچار لب مرگ خواتین علاج کیلئے آئی ہیں، یہ ایک ریکارڈ اضافہ ہے۔ 20؍جنوری 2019ءمیں تیزاب سے متاثرہ خواتین کی تعداد ایک سو پچیس تھی جن میں ستر خواتین کا چہرہ ہی نہیں آنکھیں بھی چھین لی گئی تھیں جبکہ چالیس خواتین سر تا پیر اور پندرہ خواتین کے ہاتھ، پیر مسخ تھے۔ 

معروف عالمی جریدے ’’سائنس جرنل‘‘ نے اپنی ایک اسٹڈی رپورٹ 2019ء میں لکھا ہے کہ لبرل اور روشن خیال جمہوریت کہلانے والا ملک بھارت اپنے پڑوسی ممالک کے مقابلے میں خواتین پر تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں نمبر ون ہے۔ جہاں سڑکوں، چوراہوں، گھروں، تعلیمی اداروں اور دفاتر میں پرتشدد کارروائیاں عام ہیں۔ 

خواتین پر تیزاب سے حملے، ان پر چلتی کاروں اور ٹرینوں میں تیزاب پھینکنے کی وارداتوں میں بھارت کا اصل چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ بھارتی صحافی ونیش شرما کی ایک رپورٹ جو ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ کی زینت بنی ہے، میں درج ہے کہ دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت کا سب سے بڑا چہرہ عدم برداشت اور خواتین پر تشدد کی صورت میں ہے۔ 

بھارت میں دیہی معاشرے کی ایک تصویر دیکھی جائے تو اس میں پنچایتوں اور علاقے کے سرکردہ لوگوں کی جانب سے خواتین پر چلنے پھرنے پر پابندی، دیگر دیہات اور گائوں میں جانے پر بھی پابندی عائد کردی جاتی ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں ان پر مختلف طریقوں سے تشدد کیا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بہت سے گائوں کے سرپنچوں اور پنچایتی کونسلوں کی جانب سے موبائل فون استعمال کرنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ 

خلاف ورزی کی صورت میں ان پر مختلف طریقوں سے تشدد کیا جاتا ہے لیکن 2008ء سے تشدد کے نئے وار تیزاب سے حملے کئے گئے جن میں 2019ء تک بتدریج اضافہ ہوا۔ اب تک یہ حملے، طالبات، راہ چلتی خواتین، شادی سے انکار اور جہیز نہ لانے والی خواتین پر کئے جارہے ہیں، جو تکلیف دہ اور تاحیات قائم رہنے والے زخم ہیں۔ رپورٹ کے مطابق تیزاب سے بآسانی نشانہ بنایا جاسکتا ہے اسی لئے وارداتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔

تیزاب کی مار ہر جگہ

 بنگلہ دیش میں ایسڈ سرائیورز فائونڈیشن (ASF)، پاکستان میں ایسڈ سرائیورز فائونڈیشن اسلام آباد میں قائم ہیں۔ یہ ادارے متاثرہ افراد کو طبی نفسیاتی اور بحالی کے سلسلے میں مکمل امداد فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یوگنڈا افریقہ میں بھی کمپالا کے مقام پر تیزاب کے متاثرین کیلئے ایک ادارہ قائم ہے۔ کمبوڈیا میں بھی ایک ایسا ادارہ قائم ہے۔

افریقہ اور ایشیا میں قائم یہ ادارے متاثرین کی امداد کے سلسلے میں اپنی معلومات کا ایک دوسرے سے تبادلہ کرتے رہتے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں جنسی طور پر ہراساں کرنے میں ناکامی پر تیزاب سے جلایا جانا ایک عام بات ہے جبکہ کم جہیز لانے، شادی سے انکار کی صورت میں تیزاب پھینک دیا جاتا ہے۔

’’نیشنل جیوگرافکس‘‘ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق جدید بھارت میں ذات پات کے مسئلے پر بھی ایک دوسرے پر تیزاب پھینکنا ایک عام بات ہے۔ کمبوڈیا میں خواتین اپنے شوہروں کی دوستوں پر تیزاب پھینک دیتی ہیں۔ ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے صحافی نکولف کرسٹوف کے مطابق پاکستان میں تیزاب پھینکنے کی شرح سب سے زیادہ ہے جس میں ہر سال اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کرسٹوف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر خواتین اس بہیمانہ عمل کا نشانہ بنتی ہیں جن کے بارے میں ان کے شوہروں کو شبہ ہوتا ہے کہ وہ ان سے بے وفائی کی مرتکب ہوئی ہیں۔ 

بھارت میں بھی اس جرم کی شرح بڑھتی جارہی ہے جہاں کرناٹک میں یہ واقعات سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ ’’رینڈ کارپوریشن‘‘ کے ایک جائزے کے مطابق پاکستان اور افغانستان میں کئی بے پردہ خواتین کو اس بناء پر تیزاب ڈال کر نابینا کردیا گیا کہ انہوں نے مناسب لباس اور حجاب نہیں پہنا ہوا تھا۔ افغانستان میں طالبان کے دور میں اسکول جانے والی بچیوں کے چہروں کو تیزاب پھینک کر خراب کردیا گیا۔ 

تازہ ترین