• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عرض تمنا … خالد محمود جونوی
وہ غریب کسان کے گھر پیدا ہوا، اپنے نام محمد مطلوب کی طرح شروع دن سے لے کر آخری دم تک ہر کسی کو مطلوب رہا، ابھی بمشکل بانکپن میں قدم رکھا ہی تھا کہ ایک مردم شناس بزرگ شیخ عبدالکریم نے ان کے اندر کا شخص تلاش کر لیا اور انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنے نام محمد مطلوب کے ساتھ انقلابی کا لاحقہ استعمال کریں۔ یہ ان بزرگوں کی نظر کا کما ل تھا کہ مطلوب انقلابی کی شخصیت کا سحر تھا کہ انہوں نے لفظ انقلابی کو ایسی توقیر بخشی کہ لگتا تھا کہ یہ لاحقہ شاید بنا ہی ان کیلئے ہے۔ وادی جونا کے عام اسکول سے تعلیم کا آغاز کرتے ہوئے یونیورسٹی تک کے مدارج طے کئے۔ ان میں دیگر بہت ساری خوبیوں کے ساتھ یہ خوبی بڑی نمایاں تھی کہ وہ اپنے آپ کو ہر قسم کے ماحول میں ڈھال لیتے،بزرگوں کی محفل ہوتی تو ان کے ساتھ ایک بزرگ دانا لگتے اور انہی کی طرح پرانی باتیں اور اخلاقی قدروں کی تلاش میں سرگرداں رہتے، جب جوانوں میں بیٹھے ہوتے تو ایسی دانشورانہ گفتگو فرماتے کہ آرزو رہتی کہ یہ بولتے رہیں اور بندہ سنا کرے کوئی،خطابت میں انہیں خاص ملکہ حاصل تھا الفاظ کا درست چنائو حرکات وسکنات الغرض ہر لفظ اپنے بہترین محل وقوع پر ادا کرتے۔ایک ہی شخص میں اتنی بہت ساری خوبیاں ہم نے بہت کم ہی دیکھی ہیں۔میری محمد مطلوب انقلابی سے نیاز مندی کی ایک بڑی وجہ ان کا پڑوسی ہونا تھی، ابھی ہم ابتدائی جماعتوں میں تھے کہ وہ کالج یونیورسٹی وغیرہ جاچکے تھے۔ اختتام ہفتہ کبھی دور سے ان کی زیارت ہو جاتی تھی۔ طلبہ سیاست کا وہ ایک متحرک کردار تھے۔ راجہ محمد اسلم مرحوم کے بعد عوام علاقے میں بھٹو ازم پھیلانے میں ان کا کلیدی کردار ہے وہ ممبر کشمیر کونسل سمیت دیگر عوامی ذمہ داریوں پر متعین رہے جب ممبر اسمبلی بننے کی باری آئی تو کنبے قبیلے اور علاقے کے نام پر بڑے بڑے بت تھے۔ ایک دور اندیش رہنما کی طرح اپنا سر دیواروں سے پھوڑنے کی بجائے پڑوسی حلقہ کھوئی رٹہ (نباہ) میں قسمت آزمائی کی یوں یہ نقل مکانی انہیں خوب راس آئی۔ تھوڑی سی کشمکش کے بعد وہ ممبر اسمبلی اور بعدازاں وہ وزیر حکومت بنے۔ دیگر عوامی عہدے بھی انجوائے کئے لیکن اپنا دامن ہر قسم کی کرپشن اور اس کی آلودگیوں سے بچائے رکھا؎ایسے آئینہ صفت کہاں سے لائیں جن کے کردار سے خوشبوئے وفا آتی ہےبرطانیہ میں اور بالخصوص سوشل میڈیا پر ہمار ے بہت سار ے دوست ایسے ہیں جن کا تعلق ان کے حلقہ انتخاب سے ہے۔ یہ دوست بعض اوقات ازراہ تفنن جب وادی نباہ کی لمبی لمبی خوبیاں گنواتے تو ہماری طرف سے یہ تکرار طول پکڑ جاتی کہ آپ لوگ بہت لائق فائق ہی سہی مگر یہ نہ بھولیں کہ ہم نے ہی یہاں سے جا کر آپ کو قیادت دی ہے تووہ سارے بیک زبان کہنے لگتے کہ محمد مطلوب انقلابی ایک ہیرا ہے آپ جیسے لوگوں نے اس ہیرے کی قدر نہیں کی جبکہ ہم نے انہیں وہ عزت ومقام دیا جس کے وہ متقاضی تھے۔ بے شک اس میں کوئی شک نہیں ہم وہ بدقسمت لوگ ہیں جو انہیں پہچان نہ سکے اور ان کی خوبیوں کے منکر نکلے اور آپ ان کی صلاحیتوں کے معترف ٹھہرے۔ یوں محمد مطلوب انقلابی وادی نباہ کا چاند بن کر طلوع ہوا اور چاندنی کی کرنوں کی طرح سب کیلئے یکساںروشنیوںاور اجالے کا سبب بنا۔ محمد مطلوب انقلابی سیاست میں ایسا انقلاب لائےکہ کنبے قبیلے کی برتری کے معاشر ے میں وضع داری کی سیاست کو فرو غ دیا بہت سارے لوگ اس کے گواہ ہیں کہ اپنے سیاسی مخالفین کے لئے انہوں نے اخلاق سے گری ہوئی کوئی بات ، الزام تراشی یاکبھی ہجو گوئی کی ہو۔ سیاست میں مروت اور باہمی ادب واحترام کے جذبوں کو پروان چڑھایالوگ پوچھیں اگر جوگی کی کہانی تم سےبس کہنا کہ محبت کا درس دیا کرتا تھابڑے کٹھن اور نامساعد حالات میں بھی اپنی خوبصورت اور دلنشیں شخصیت کا تاثرقائم رکھتے ہم نے ان کی کوئی ایسی تصویر نہیں دیکھی جس میں وہ مضطرب یا پریشان ہوںایک خوبصورت مسکراہٹ ہمیشہ ان کےچہرے پر کھیلتی رہتی۔ بہت سارے لوگ جو انہیں قریب سے جانتے ہیں اس بات کی گواہی دیں گے گزشتہ کچھ عرصے سے ایک بالکل منفرد مطلوب انقلابی ہماری نظروں کے سامنے گھوم پھر رہا تھا تائو دینے والی بڑی بڑی مونچھوں کی جگہ چہرہ سنت نبوی ﷺ سے سج گیا ۔ بازار سیاست کے اپنے تقاضے تھے لیکن وہ مسلسل ایک درویش کی راہ پر چل پڑے تھے۔ چند ماہ قبل ان کا انٹرویو کیا اور خاص تاکید کی کہ میرے نام کے ساتھ محمد مطلوب انقلابی مکمل لکھنا، شکوہ کیا کہ بہت سارےقلمکار ساتھی محمد مٹا کرصرف مطلوب انقلابی لکھتے ہیں جو میرے لئے سخت ذہنی کوفت کا باعث بنتا ہے۔ محمد مطلوب انقلابی چند ہفتے قبل کورونا سےروبصحت ہوئے تھے جس کےباعث جسمانی طور پر بہت کمزور ہو چکے تھے۔چند دن قبل مکان کی بالائی منزل کی سیڑھیوں میں گرنے سے شدید زخمی ہوئے اور یہی زخم جان لیوا ثابت ہوئے۔ المختصر محمد مطلوب انقلابی نے ایک بھرپور سیاسی اننگز کھیلی، میدان سیاست میں دشمن کم اور دوست زیادہ بنائے۔ سیاسی عروج دیکھااور پھر چشم فلک نے یہ دیکھا کہ اہل کشمیر نے اپنے اس فرزند کو اس کی شان کے مطابق رخصت کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی لحد پر بے شمار رحمتیں نچھاور کرے۔ ایسی قابل رشک موت ایک اعزاز ہے۔ ان کی رحلت حقیقی معنوں میں ہماری سیاست اور ریاست کا ایک ایسا ناقابل تلاقی نقصان ہے جس کی مدتوں تلافی نہ ہوسکے گی۔
تازہ ترین