کورونا (کوویڈ-19)نے 2020کے دوران دنیا بھر میں لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے ساتھ برق رفتار ترقی کے سفر کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا۔ ترقی یافتہ ممالک ہوں، ترقی پذیر یا غریب ملک، کورونا سب سے برابری کی بنیاد پر ٹکرایا، پہلے کاری وار کے بعد اب دوسری لہر نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق کوویڈ 19کی دوسری لہر کی شدت پہلے سے کہیں زیادہ ہے جس کی بنیادی وجہ شاید وائرس خود نہیں بلکہ انسان کی خود غرض سوچ اور مفادات پر مبنی من مانی حرکتیں ہیں، جو اُس کی ہلاکت خیزی میں بدترین اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔
کورونا سے سب سے زیادہ تباہی دنیا کے ترقی یافتہ اور طاقتور ملک امریکہ میں ہوئی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً ایک فیصد آبادی یعنی سوا چھ کروڑ انسان اس وائرس کا شکار ہوئے جن میں 42فیصد امریکی ہیں، 30فیصد یورپی جبکہ 17فیصد جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے افراد ہیں۔ اب یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ کورونا کی تباہ کاریوں میں بڑا ہاتھ خود حضرتِ انسان کا ہے بالخصوص سیاسی و معاشرتی لحاظ سے باہمی تقسیم اور عدم اعتماد ہے۔ جبھی وائرس ڈھیٹ ہوکر اپنے وار تیز سے تیز کررہا ہے اور تمام تر بھاری نقصانات کے باوجود انسانوں پر اجارہ داری قائم رکھنے پر مصر، بےرحم، سیاسی وطاقتور کردار اپنے مقاصد کی تکمیل میں لگے ہیں۔ معاشرہ انسانوں سے بنتا ہے اور انسان کی حرکات وسکنات معاشرے کو اچھا یابرا گرداننے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں،انسانوں کے رویے اور کردار ہی معاشرے کی ترقی اور کامیابیوں میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، کورونا وائرس کے دنیا بھر میں پھیلاؤ کے بعد مختلف معاشروں میں مجموعی ردِعمل کا اندازہ لگایا جائے تو پتا چلتا ہے کہ سپر پاور ہونے کے دعویدار ملک کے سربراہ ہی نے سب سے زیادہ غیرسنجیدہ اور غیرذمہ دار ہونے کا ثبوت دیا۔پڑھے لکھے اور سمجھدار امریکی معاشرے میں اعلیٰ ترین عہدیدار تباہ کن وائرس کی حقیقت سے ہی انکاری رہا، ماسک خود پہنا نہ پہننے کی تلقین کی بلکہ پہننے والوں کا بھی مذاق اڑاتا رہا، نتیجتاً عوام نے اپنا رد عمل صدارتی انتخابات میں ووٹ کے ذریعے عدم اعتماد کی صورت میں دیا۔ یوں جمہوری معاشرے میں عوامی تحفظ کے اقدام کا مذاق اڑانے والا خود مذاق بن گیا اورتاریخی شکست کے بعد تاریخ کاسیاہ باب بن کر رہ گیا۔ بدقسمتی سے وطن عزیز کی سیاست کاانداز بھی کچھ مختلف نہیں، ایک طرف حکمران کورونا کا پھیلاؤ روکنے کے لئے پہلے لاک ڈاؤن لگانے یا نہ لگانے کے معاملے پر کنفیوژ رہے ہیں تو دوسری طرف اپوزیشن بھی عوامی تحفظ کی حکمت عملی بنانےمیں ناکام رہی، البتہ حزبِ اقتدار اور اختلاف نے عوام کو سیاست کی بھینٹ چڑھانے اور کورونا کے ہاتھوں یرغمال بنانے کی متفقہ حکمت عملی ضرور بنا ڈالی۔ یہ بھی حقیقت ہےکہ پہلے مرحلے میں حکومت کا اسمارٹ لاک ڈاؤن کا فیصلہ کارگر اور قابل اطمینان ثابت ہوا مگر کورونا کی روانگی کا غلط اندازہ لگاکر سیاسی اشرافیہ نےعوام کو گھروں میں رکھنے کی بجائے ذاتی مفاد کی خاطر جلسوں میں لانے کا غیردانشمندانہ فیصلہ کرکےدنیاکو حیران وپریشان اور کورونا کو خوش کردیا۔ دوسری لہر نے متاثرین اور مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کیا تو حکمران خوفزدہ ہو کر بلاجواز جلسوں سے تائب ہو گئے مگر اقتدار کی منزل پانے کے خواہش مند اب تک نہیں رکے، سیاست شاید عوام کی زندگیوں سے بھی زیادہ عزیز اور قیمتی ہے۔ سیاسی نقادوں کی رائے میں گیارہ جماعتی اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے اندر مفادات کا رنگ گہرا اور تضادات کی دراڑیں وسیع ہو رہی ہیں، ن لیگ کے ”انقلابی قائد“ کے گوجرانوالہ بیانیہ کے بعد کوئٹہ، پشاور اور ملتان میں شرکاء کی کمی بظاہر عوامی ردِعمل کا نمونہ پیش کررہی ہے، کورونا جو کچھ بھی کرے ن لیگ اور مولانا 13دسمبر کے لاہور جلسے کے بعد اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دینے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر پیپلز پارٹی پارلیمنٹ کی مدت مکمل اور وفاق و صوبوں میں حکومت گرانے کا مخالف بیانیہ لے کر انکی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے، اِس مہم جوئی کو روکنے کے لئے ممکن ہے وہ اپوزیشن اتحاد سے نکلنے کی دھمکی بھی دے ڈالے۔ افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ ریاست مدینہ کا نام لے کر حکمرانی کرنیوالے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنےکی بجائے ناکامیوں کا سارا ملبہ اپوزیشن، میڈیا اور بیوروکریسی پر ڈالنے کے سوا عملی طور پر کچھ کرنے کو تیار نہیں۔سیاسی و طاقتور اشرافیہ کو یاد رکھنا چاہئے کہ 22کروڑ عوام پہلےسے کہیں زیادہ باشعور ہوچکےہیں، 65فیصد نوجوان نسل بہت کچھ جان اور پہچان چکی ہے، پس آپ سمجھ لیں کہ عوامی زندگیوں کےتحفظ اور حقوق کی پاسداری سےہی ووٹرز کے دل جیتے جاسکتےہیں اور عوام کا ووٹ ہی پائیدار جمہوریت اور آئین کی بالادستی کا ضامن بن سکتا ہے۔