گزرے ہفتہ لندن میں ’’بی بی سی‘‘ کو دیا گیا سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا انٹرویو پاکستانی حکومت کے مشیروں اور وزراء سمیت میڈیا پر خوب زیر بحث رہا ہے۔ یہ انٹرویو برطانیہ کے ممتاز صحافی اور ’’بی بی سی‘‘ کے پروگرام ’’ہارڈ ٹاک‘‘ کے میزبان اسٹیفن جان سکر نے کیا ۔
وہ 1968ء میں اس ادارے سے منسلک ہوئے اور اپنے طویل صحافتی کیریئر میں بین الاقوامی رپورٹنگ کے علاوہ بے شمار سربراہانِ حکومت کے انٹرویوز کرچکے ہیں۔
2005ء میں ’’ہارڈ ٹاک‘‘ کے میزبان ٹم سبیٹن کی جگہ ہارڈ ٹاک کی میزبانی کر رہے ہیں جبکہ زینب بداوی بھی بسا اوقات اس پروگرام کی میزبان ہوتی ہیں۔ اس پروگرام کا چونکہ نام ہی ’’ہارڈ ٹاک‘‘ ہے تو یقیناً مہمانوں سے پروگرام کی مناسبت سے سوالات بھی ٹو ڈی پوانٹ اور سخت ہی کئے جاتے ہیں اور پھر ’’بی بی سی‘‘ کی تو ساکھ ہی یہی ہے کہ یہاں کسی قسم کے دبائو یا لگی لپٹی کےبغیر صحافت کی جاتی ہے۔
ابھی 2015ء میں اسی شو میں وزیراعظم عمران خان کا انٹرویو بھی اسٹیفن سکر نے کیا تھا اور ایک دفعہ 2018ء میں زینب بداوی نےبھی ’’ہارڈ ٹاک‘‘میں عمران خان کا انٹرویو کیا، ابھی دو سال قبل سٹیفن اسکر نے ’’ڈان گروپ‘‘ کے حمید ہارون کا انٹرویو بھی کیا۔
اسحاق ڈار کے حالیہ انٹرویو پر ’’تحریک انصاف‘‘ والوں کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں حکومتی وزیر و مشیر ٹیلی ویژن چینلز پر چھائے، وہ پریس کانفرنسز کرتے اور اسحاق ڈار کی ایک ’’چوک‘‘ پر شادیانے بجاتے نظر آئے۔
اسی طرح ہمیں یاد ہے، حمید ہارون صاحب کا انٹرویو ہوا تو ’’پی ٹی آئی‘‘ والے اسی طرح خوش ہوئے تھے کہ ڈان گروپ سمیت نوازشریف کے ’’بیانیے‘‘ کو بھی بڑا ڈینٹ پڑا ہے حالانکہ ایسا کرتے ہوئے وہ اس بات کو بھول گئے کہ چند ہی روز پہلے اسی ’’ہارڈ ٹاک‘‘ میں عمران خان بھی مہمان تھے اور میزبان کے تابڑ توڑ سوالات کے سامنے بے بس نظر آئے تھے اور اپنے ’’بیانیے‘‘ کا دفاع کرنے میں بری طرح ناکام رہے تھے۔
اسحاق ڈار کے مذکورہ انٹرویو کو ڈسکس کرتے ہوئے حکومتی زعما یہ تک بھول گئے کہ ان کے بیانات یا انٹرویو پاکستانی میڈیا پر ٹیلی کاسٹ کرنے پر تو آپ نے خود پابندی عائد کر رکھی ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ’’بی بی سی‘‘ کے ہارڈ ٹاک پروگرا م میں انٹرویو دینا بھی آسان کام نہیں ہے۔ ڈار صاحب پچھلے چالیس سال سے برطانیہ آجا رہے ہیں۔
انہوں نے لندن میں تعلیم بھی حاصل کی۔ کیا انہیں یہ علم نہیں تھا کہ یہ انٹرویو کس قسم کا ہوگا ؟ وہ سب کچھ جانتے بوجھتے اس پروگرام میں گئے تو اس سے یہ بھی تو اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ’’ ہارڈ ٹاک‘‘ میں بیٹھنا بھی تو ہر کس کے بس کی بات نہیں ۔
دوسری بات یہ کہ 25منٹ کے اس رننگ ٹائم میں کیا ایک ہی سوال اسحاق ڈار سے ہوا تھا۔ کیا انہوں نے یہ نہیں کہا کہ عمران خان کو دھاندلی کے ذریعے وزارت عظمیٰ ملی ہے، میری بہت سی جائیدادیں نہیں ہیں، پاکستان میں میری ایک جائیداد ہے جو کہ حکومتی قبضے میں ہے، میں نے اپنے تمام ٹیکس گوشواروں میں اپنے تمام اثاثوں کو ڈکلیئر کیا، پاناما پیپرز میں میرا نام نہیں ہے، میں ثابت کرسکتا ہوں کہ میں نے کوئی کرپشن نہیں کی، پاکستان کی پوری تاریخ میں ڈکٹیٹر چھائے رہے۔
انہوں نے اینٹی کرپشن، واچ ڈاگ اور ’’قومی احتساب بیورو‘‘ پر بھی شدید تنقید کی کہ ’’نیب‘‘ حکومت کے مخالفین یا صرف اپوزیشن کو ہی نشانہ بنا رہا ہے، پاکستان میں انصاف نہیں ہو رہا، انسانی حقوق نام کو نہیں، عملی طور پر درجنوں افراد ’’نیب‘‘ کی تحویل میں مارے جا چکے ہیں، ہر شخص جانتا ہے الیکشن چوری کئے گئے۔
انسانی حقوق کے مبصرین اور آزاد تجزیہ کاروں کا موقف ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی، نتائج کی منتقلی کا نظام درہم برہم ہوگیا اور پولنگ ایجنٹس کو ہی اسٹیشنز سے نکال دیا گیا۔ انتخابات سے قبل مسلم لیگ کے الیکٹ ایبل امیدواروں کو وفاداریاں تبدیل کرنے کے لئے کہا گیا۔
اسحاق ڈار نے میزبان سے پوچھا مسٹر سکر کیا یہ آپ کے لئے حیرت کی بات نہیں ہے کہ پاکستان میں ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ موجود ہے اور نواز شریف سویلین بالادستی کی جنگ لڑ رہے ہیں؟ وزیراعظم عمران خان نے ماضی میں فوج کے خلاف 21بیانات دیئے ہیں لیکن سابق وزیراعظم فوج کے خلاف نہیں؟
وہ چند افراد کی بات کر رہے ہیں، ڈار نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں ایک فاشسٹ حکومت ہے، 1950ء کے بعد پہلی بار پاکستان میں ’’جی ڈی پی‘‘ کی شرح منفی ہوئی ہے۔
مندرجہ بالا گفتگو کے علاوہ بھی اسحاق ڈار نے اپنے اور سابقہ حکومت سے متعلق باتیں کی ہیں لیکن جائیداد سے متعلق ان کے جواب پر حکومتی مشیر پریس کانفرنسز کر رہے ہیں۔ کیا وہ قوم کوبتائیں گے۔
ان کا مقصد کیا ہے؟ کیا حکومت کو اس سے ضروری اور کوئی کام نہیں ہے کہ نان ایشوز پر اس قدر انرجی لگائی جا رہی ہے اور حکومت کی نظر میں تو اسحاق ڈار قانون سے بھاگے ہوئے مجرم ہیں تو پھر اس ’’مجرم‘‘ کا انٹرویو کرنے پر ’’بی بی سی‘‘ کو حکومت کی طرف سے ایک احتجاجی خط لکھا جانا چاہیے تھا لیکن افسوس کہ حکومت اسحاق ڈار کے ایک جواب سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔
کیا اب ’’پیمرا‘‘ کو بھی اس بات کا جواب نہیں دینا چاہیے کہ مذکورہ انٹرویو کے مندرجات نجی چینلز پر کیوں دکھائے گئے؟ کیا پاکستان کے عوام کے ساتھ زیادتی نہیں ہے کہ انہیں یہ مکمل انٹرویو دیکھنے سے محروم رکھا گیا؟
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ انٹرویو ’’بی بی سی‘‘ پر ہو یا دنیا کا کوئی بھی صحافی کسی کا انٹرویو کر رہا ہو، جیت ہمیشہ صحافی یا انٹرویو کرنے والے کی ہوتی ہے اور وہی ’’اپر ہینڈ‘‘ رہتا ہے کیونکہ انٹرویو دینے والے کو بالکل علم نہیں ہوتا کہ کب اور کون سا سوال اس سے کیا جا سکتا ہے؟
اس لئے بعض لوگ صحافی کے ’’جال‘‘ میں پھنس کر لاجواب بھی ہو جاتے ہیں جیسے اسحاق ڈار بھی ہوئے۔
ویسے مذکورہ سوال کا بڑا آسان جواب تھا کہ جی ہاں میری اور میری فیملی کی جائیداد پاکستان، دبئی اور لندن میں ہے کیونکہ میری فیملی برسوں سے بزنس کر رہی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔