سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی گزشتہ دنوں انتقال کرگئے ، بلوچستان سے اب تک ملک کے پہلے اور واحد وزیراعظم سیاست میں شائستگی اور بردباری کا نمونہ تھے ، ملک کے وزیر اعظم ، بلوچستان کے وزیراعلیٰ سے لیکر سینیٹ ، قومی اور صوبائی اسمبلی کے رکن رہنے والے میر ظفر اللہ جمالی نے بھرپور سیاسی زندگی گزاری ، بلوچستان میں مضبوط قوم پرستی کی سیاست کا حصہ بننے کی بجائے وہ پوری زندگی قومی سطح کی سیاست کا حصہ رہے اور ملکی سطح کی قومی جماعتوں میں شامل رہے ، ملک بھر سے ان کے انتقال پر تعزیت کا سلسلہ جاری ہے ، بلوچستان اسمبلی کے گزشتہ دنوں اختتام پذیر ہونے والے سیشن کے آخری روز کا اجلاس بھی مرحوم میر ظفر اللہ جمالی کی ملک اور صوبے کے لئے خدمات کے اعتراف میں تعزیتی قرارداد پیش کیے جانے کے بعد معمول کی کاروائی شروع کیے بغیر ملتوی کردیا گیا ۔
قبل ازیں اجلاس میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان ایڈوکیٹ نے تعزیتی قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایوان بزرگ سیاستدان ، سابق وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان ، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان میر ظفراللہ جمالی کے انتقال پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتا ہے ، میر ظفراللہ خان جمالی نے ملک میں شرافت اور روادری کی سیاست کو فروغ دیا بحیثیت وزیراعظم ملک اور وزیراعلیٰ صوبے کیلئے ان کی گراں قدر خدمات کو تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا ، میر ظفراللہ جمالی کے انتقال سے پورا ملک افسرادہ ہے ان کی رحلت سے پاکستان ایک بہت بڑے سیاسی رہنماء سے محروم ہوا ہے ۔
بلوچستان اسمبلی کا مذکورہ اجلاس میر ظفر اللہ جمالی کی ملک اور صوبے کے لئے خدمات کے اعتراف میں ملتوی کیا گیا جبکہ اس سے دو روز قبل ہونے والا اجلاس بھی بنا کسی کارروائی کے ملتوی کیا گیا تھا اجلاس ملتوی کرتے ہوئے اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ ارکان اسمبلی کی اجلاس میں دلچسپی نظر نہیں آتی ، حیرت انگیز طور پر صوبائی اسمبلی کا 30 نومبر کا اجلاس مقررہ وقت سے صرف پانچ منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا تھا ، اجلاس کے آغاز پر ایوان میں صرف دو ارکان ڈپٹی اسپیکر سردار بابر خان موسیٰ خیل اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے قادر نائل موجود تھے ۔ جس پر اسپیکر نے کورم پورا کرنے کیلئے ایوان میں پانچ منٹ تک گھنٹیاں بجانے کی ہدایت کی ۔
تاہم اس کے بعد بھی کورم پورا نہ ہوسکا جس پر اسپیکر نے کورم پورا نہ ہونے پر اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا ۔ یہاں حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک طویل عرصہ سے بلوچستان اسمبلی کا اجلاس مقررہ وقت پر شروع نہیں ہوتا ، حال ہی میں اختتام پذیر ہونے والا سیشن جو 24 نومبر کو شروع ہوا تھا کا پہلا اجلاس ایک گھنٹہ سے زائد جبکہ اس کے بعد 27 نومبر کا اجلاس مقررہ وقت سے سوا دو گھنٹے اور 3 دسمبر کو سیشن کا آخری اجلاس بھی مقررہ وقت سے ڈیڑھ گھنٹہ کی تاخیر سے شروع ہوا تھا ۔ 27 نومبر کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران متعلقہ وزراء کی عدم موجودگی پر اپوزیشن نے احتجاج کیا تھا جس پر اسپیکر نے آئندہ وقفہ سوالات کے دوران متعلقہ وزراء کو رخصت نہ دینے کی رولنگ دی تھی۔
اپوزیشن ارکان اکثر یہ شکایت کرتے رہتے ہیں کہ وقفہ سوالات ، توجہ دلاو نوٹسز سمیت دیگر مواقع پر نہ تو صوبائی وزرا ایوان میں موجود ہوتے ہیں اور نہ ہی ایسے موقع پر اعلیٰ سرکاری حکام آفیشل گیلری میں موجود ہوتے ہیں ، جس پر اکثر اپوزیشن ارکان احتجاج بھی کرتے نظر آئے ہیں اسی دوران اسپیکر بلوچستان اسمبلی نے صوبائی وزرا ، پارلیمانی سیکرٹریز اور سرکاری محکموں کے سیکرٹریز کی اسمبلی اجلاسوں میں عدم شرکت پر وزیراعلیٰ بلوچستان کو مراسلہ ارسال کیا ۔
سیکرٹری بلوچستان اسمبلی کی جانب سے وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری کو بھیجے گئے مراسلہ میں اسمبلی اجلاسوں میں صوبائی وزراء ، سرکاری محکموں کے سیکرٹریز ، آئی پولیس کی عدم شرکت کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ صوبائی وزراء ، سرکاری محکموں کے سیکرٹریز ، آئی جی پولیس صوبائی اسمبلی کے اکثر اجلاسوں میں شریک نہیں ہوتے ، مراسلہ میں 27 نومبر کے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کی کاروائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مذکورہ اجلاس میں معزز ارکان اسمبلی کے سوالوں کے جوابات اور توجہ دلاو نوٹسز متعلقہ وزرا ور سیکرٹریوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے نہیں دیئے جاسکے ، تاجر رہنماء حاجی اللہ داد ترین کی ٹارگٹ کلنگ اور امن و امان سے تحریک التوا پر بحث ہوئی تاہم سیکرٹری داخلہ اور آئی جی پولیس آفیشل گیلری میں موجود نہیں تھے ۔
مراسلہ میں کہا گیا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان اسمبلی کے اجلاسوں کے دوران تمام وزراء ، مشیروں ، پارلیمانی سیکرٹریز جن کے محکمانہ معاملات بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کے ایجنڈے کا حصہ ہوں ان کی موجودگی یقینی بنائیں ۔ بلوچستان جہاں ترقی کی دوڑ میں اب بھی ملک کے دوسرئے صوبوں سے کافی پیچھے ہے یہاں پسماندگی کے ختم ہونے کے کوئی فوری آثار بھی نظر نہیں آرہے ، صوبے میں ایک طویل عرصے سے ترقیاتی فنڈز کے درست اور شفاف استعمال اور ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کے حوالے سے مختلف حلقوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے ، ایک جانب منصوبوں کے معیار اور ان میں فنڈز کے شفاف اور درست استعمال کو یقینی بنانے کے حوالے سے ماضی میں بھی کئی ایک اقدامات کیے جاتے رہے ہیں۔
اس سلسلے میں سب سے اہم چیف منسٹر انسپیکشن ٹیم ہے جو ایک تسلسل کے ساتھ منصوبوں کا جائزہ لیتی اور اپنی رپورٹ پیش کرتی ہے اس کی کئی ایک رپورٹ پر کاروائی بھی ہوئی ہے ایسے میں گزشتہ دنوں صوبائی حکومت کی جانب سے صوبے کے ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لینے کے لئے صوبائی وزرا اور حکومتی ارکان پر مشتمل ڈویژنل سطح کی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں ، یہ کمیٹیاں صوبے کے ساتوں انتظامی ڈویژنز میں جاری ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لینے کیلئے تشکیل دی گئی ہیں ، یہ کمیٹیاں صوبے میں تعلیمی اداروں ، مراکز صحت ، سڑکوں ، سرکاری عمارتوں ، واٹر سپلائی سمیت دیگر منصوبوں کا جائزہ لے کر رپورٹ وزیراعلیٰ کو پیش کریں گی ۔