• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب کبھی میں داتا گنج بخش شیخ علی بن عثمان ہجویریؒ کے دیار کا رخ کرتا ہوں تو میانی صاحب مجھے پکارتا ہے۔ دل میں ایک کسک اٹھتی ہے کہ اس لیجنڈ پروفیسر ڈاکٹر ملک حسین مبشر کو سلام کرنے جائوں۔ یہ وہ ہستی ہے، ملک بھر میں ہزاروں نہیں، لاکھوں معالجوں نے جن سے تعلیم حاصل کی۔ بڑے لوگوں میں دھن دولت سے ایسا بے نیاز شخص میں نے نہیں دیکھا۔ان سے پہلی ملاقات یاد آتی ہے، جب میں نے انہیں بتایا کہ میں ذہنی صحت پر تحقیق کرنا چاہتا ہوں۔ ان کی آنکھوں میں محبت اتر آئی اور وہ ہنس پڑے۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میاں، یہ تو ایک طلسم ہوش ربا ہے، جسے سمجھنے کے لیے زندگیاں نذر کرنا پڑتی ہیں۔ ان سے پہلے کتنے ہی در میں کھٹکھٹا چکا تھا لیکن کسی کے پاس وقت ہی نہیں تھا۔ آنے والے برسوں میں کیسا کیسا معجزہ میں نے یہاں دیکھا۔ لوگ خودکشی کا عزم کرتے ہوئے آتے اور صحت یاب ہو کر لوٹتے۔ ڈاکٹر صاحب یاد آئیں تو دل اداس ہو جاتا ہے۔ یقین نہیں آتا، آج بھی یقین نہیں آتا۔ اس وقت، جب ان کے شاگرد تین تین ہزار روپے فیس لے رہے تھے، وہ پانچ سو روپے لیا کرتے۔

سرکارؐ نے ارشاد فرمایا تھا : اے اللہ، میں برص، جنون، جزام اور سب بری بیماریوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔جنون میں تمام ذہنی بیماریاں شامل ہیں۔ ذہنی دبائوسے زیادہ خوفناک بیماری کوئی نہیں۔ وقتی پریشانی سب کو ہوتی ہے اور اسی کے نتیجے میں آدمی جدوجہد پہ آمادہ ہوتاہے۔ مسئلہ اُس وقت پیداہوتاہے، جب دماغ مسلسل شدید پریشانی کا شکار رہے۔ آج انسانوں کی اکثریت پریشان ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک بار مجھے یہ کہا تھا کہ دولت میں اضافے کا جنون بھی ایک ذہنی بیماری ہے اور اس بارے میں بھی مجھے لکھنا چاہئے۔ انسان جب مکمل مایوسی کا شکار ہو جائے اور طویل عرصے تک مسلسل پریشان رہے تو وہ کئی ذہنی بیماریوں کا شکار ہو سکتاہے۔ اگر وہ کلینکل ڈپریشن کی دلدل میں اتر جائے تو پھر میڈیکیشن کے بغیر بحالی کا کوئی راستہ نہیں۔ آپ لاکھ کہتے رہیں کہ اپنا دل مضبوط کرو، ذہن سے منفی خیالات کو نکالو اور صبح اٹھ کر سیر کرو، ادویات کے بغیر اس کی صحت بحال نہ ہو سکے گی۔ میجر ڈپریشن میں آدمی مستقل طور پر بجھ کر رہ جاتا ہے، اسے یونی پولر ڈپریشن کہتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی دو انتہائوں کے درمیان بھٹکتا رہے گا۔ کبھی شدید مایوسی اور کبھی انتہائی جوش و خروش۔ اسے بائی پولرکہتے ہیں۔ انسان جنونی ہوجاتا ہے۔

مسلسل ذہنی دبائو سے ایک دماغی خلیے سے دوسرے تک برقی رو کی ترسیل کا نظام بگڑسکتاہے۔ دماغ میں ساری کی ساری فیصلہ سازی اسی پر منحصر ہوتی ہے۔ اس صورت میںہو سکتاہے کہ آپ تکلیف کی شدّت سے چیخیں مارنے اور دیوار سے سر ٹکرانے لگیں۔ مریض کو دورے پڑنا شروع ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ نیک اور اچھے مزاج کے لوگ ذہنی بیماری کا شکار نہیں ہو سکتے۔ ان لوگوں میںاحساسِ جرم میں مبتلا ہو نے کا رجحان بے حس لوگوں سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ زیادہ ذہین، زیادہ اخلاقیات کے حامل لوگ بھی بدرجہ اتم ذہنی بیماریوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔ مسلسل پریشانی، احساسِ جرم اورپچھتاوے تلے دبا ہوا آدمی بعض اوقات ایسی حالت تک پہنچ جاتاہے، جہاں اس کی ساری کی ساری توجہ صرف ایک نکتے یعنی پریشانی تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ اسے Obsessionکہتے ہیں۔ایسا شخص ایک روبوٹ بن جاتاہے۔ ہو سکتاہے کہ گھنٹوں وہ اپنے ہاتھ دھوتا رہے۔احساسِ کمتری مسلسل اور شدیدپریشانی کی وجہ بن سکتی ہے۔ انسان میں اپنی ذات سے محبت پیدا کی گئی ہے اور کم و بیش یہ ساری جبلّتوں کا محرک ہے۔ آدمی اپنے اندر نقص برداشت نہیں کرسکتا، خاص طور پرحساس لوگ۔ احساسِ کمتری کا سب سے بڑا توڑ تحصیلِ علم ہے۔ علم ایک ایسی چیز ہے، جو کمتری کے احساس کو بہا لے جاتی ہے۔

جانوراخلاقیات سے محروم ہوتے ہیں۔ نہ انہیں کسی رشتے کی پرواہوتی ہے اور نہ ان کا کوئی عقیدہ ہوتاہے۔ انسانی اعلیٰ اخلاقیات او ر بنیادی عقائد بھی نفسیاتی دبائو کی وجہ بن سکتے ہیں۔ ہو سکتاہے لڑکپن میں کسی بچے کے ذہن میں ایسے سوالات جنم لیں، جن کی وجہ سے وہ اندر ہی اندر خود کو کافر یا مجرم سمجھنے لگے۔ یہ وہ وقت ہے، جب اسے ایک ماہرِ نفسیات اور ایسے استاد تک رسائی کی ضرورت ہے، جو اس کے سوالات کا جواب دے، اس کی تحلیلِ نفسی کرے۔ ہمارے واعظ لوگوں کو احساسِ جرم میں مبتلا کرتے رہتے ہیں، جو ذہنی بیماریوں کا سبب بن سکتاہے۔ بیرونی مسائل بھی ذہنی تکالیف کا سبب بن سکتے ہیں۔مثلاً والدین میں مسلسل جھگڑا۔ نوجوانوں میں روزگار کا خوف شاید سب سے زیادہ ہوتا ہے۔اس کا علاج بھی جدوجہد کے علاوہ توکل اور علم میں ہے۔علم کے بغیر صبر نہیں آتا۔ اگر آپ کو اپنی زندگی پیاری ہے تو کئی سمتوں میں جدوجہد کرنا ہوگی۔ میڈیکیشن کے علاوہ قرآنی آیات اگر یاد کی جائیں تو یہ Obsession سے نکالتی ہیں۔ قرآن کا ایک حصہ یاد کر لینا چاہئے، خواہ دو تین سپارے ہی۔ روزانہ کچھ دیر خدا کو یاد کرنا چاہیے۔ یا رحمٰن‘ یا رحیم‘ یا کریم۔ یا سلام‘ یا مومن یا اللہ۔ یا ولی‘ یا نصیر۔ کسی ماہر نفسیات سے آپ کو تحلیلِ نفسی کروانی چاہئے۔ بعض اوقات آدمی ایسی اسٹیج پر ہوتا ہے، جہاں سے ادویات (Medication)یا برقی رو کے جھٹکے دیے بغیر اس کی واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ اگر ماضی کا کوئی جرم آپ کو تکلیف پہنچا رہا ہے تو روزانہ کثرت سے، پانچ سو سے ایک ہزار دفعہ آیتِ کریمہ پڑھئے اورایک نئی زندگی کی شروعات کیجیے۔ روزانہ کچھ دیر ایسی جسمانی سرگرمی بھی ذہنی صحت کے لیے ضروری ہے، جس میں آپ کا سانس پھولے۔

تازہ ترین