پی ڈی ایم کی تحریک جوں جوں آگے بڑھ رہی ہےاتنا ہی سیا سی ماحول کی تلخی اور کشیدگی میں ا ضافہ ہو ر ہا ہے۔لاہور کا جلسہ اپوزیشن کا آخری بڑا جلسہ تھا اب فروری میں لانگ مارچ کا اعلان ہوگا۔لانگ مار چ سے قبل ماحول بنا نے کیلئے ضلعی اور ڈویژنل مقامات پر جلسے ہوں گے ۔ استعفوں سمیت اپوزیشن اب تمام کارڈز کھیلے گی۔وزیر اعظم عمران خان نے بھی پی ڈی ایم کی احتجا جی تحریک سے نمٹنے کیلئے اپنی حکمت عملی بنا لی ہے۔ انہوں نے نئی صف بندی کی ہے اور وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کو داخلہ کی اہم وزارت سونپ دی ہے جس کے امیدوار وزیر سائنس و ٹیکنا لوجی فواد چوہدری تھے۔ دوسرے امیدوار پر ویز خٹک تھے لیکن قرعہ شیخ رشید احمد کے نام نکلا ۔
شیخ رشید احمد کو اس لئے میدان میں اتار ا گیا ہے کہ وہ منجھے ہوئے سیا ستدان ہیں اور نہ صرف بیان بازی میں اپوزیشن کا موثر مقابلہ کرسکتے ہیں بلکہ انتظامی اعتبار سے بھی جار حانہ انداز اپنائیں گے ۔بغاوت کیلئے اکسانے پر مقدمات کے اندراج کا اختیار سیکرٹری داخلہ کو دینے کا مقصد یہی ہے کہ اپوزیشن ر ہنمائوں کے خلاف مقدمات بنائے جا ئیں ۔وزیر اعظم اگرچہ اپنے آپ کو پر اعتماد ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن کابینہ میں تبدیلی اور بغاوت کے مقدمات کی حکمت عملی ان کی پر یشانی کو ظاہر کرتی ہے۔ لاہور کے جلسہ کیلئے حکومت پہلے دن سے کنفیوزڈ نظر آئی ۔ وزیر اعظم نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہم لاہور کا جلسہ کرنے سے نہیں روکیں گے لیکن جس بھونڈے انداز میں سائونڈ سسٹم والے ڈی جے بٹ کو گرفتار کیاگیا اسے سوائے بدنامی کے کچھ ہاتھ نہیں آ یا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ ہمارا فیصلہ ہے کہ جلسہ کی اجازت نہیں دیں گے اور وزراء کی جانب سے بیانات آئے کہ ہم نہیں روکیں گے بلکہ فیاض الحسن چوہان نے تو 50ہزار کرسیاں بھرنے کا چیلنج بھی د یدیا۔ عثمان بزدار کی معصو میت کا ا ندا زہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپوزیشن سے درخواست کی مہر بانی کرکے جلسہ نہ کریں بیٹھ کر بات چیت ہوسکتی ہے۔بہر حال آنے والے دنوں میں قومی سیا ست کامنظر نامہ مزید تلخی اور کشیدگی کی طرف بڑھے گا۔ حکومت اور اپو زیشن تصادم کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔ پوائنٹ آ ف نو ریٹرن کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔
اپوزیشن کے پاس بھی اب صرف آگے بڑھنے کا آپشن ہے وہ کچھ لئے بغیر پسپائی اختیار نہیں کرسکتی۔استعفوں کا کارڈ ابھی دکھاوا ہے اسے استعمال کرنے میں عجلت نہیں برتی جا ئے گی البتہ لانگ مارچ کو فیصلہ کن دبائو کیلئے استعمال کیا جا ئے گا۔ آ ر یا پار دراصل لانگ مارچ میں ہو گا۔یہ تاریخ کا جبر ہے کہ وہ اپنے آپ کو دہراتی ہے ۔ عمران خان نے بطور اپوزیشن پارٹی جو اس وقت نواز شریف حکومت کے ساتھ کیا وہی آج کی اپوزیشن ان کی حکومت کے ساتھ کر رہی ہے ۔عمران خان بھی مہنگائی اور دھاندلی کے نعروں پر احتجاجی تحریک چلا رہے تھے ۔آج بھی اپوزیشن کے دو ہی نعرے ہیں کہ نئے انتخابات کر ائے جائیں کیونکہ 2018میں دھاندلی کی گئی دوسرا یہ کہ مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔
مہنگائی نے واقعی ریکارڈ توڑ دیے ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان کی معصو میت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے 100روپے کلو گرام فروخت ہونے والی چینی 81روپے ہونے پر قوم کو مبارکباد دی ہے حالا نکہ دو سال پہلے چینی کا ر یٹ 53روپے فی کلو گرام تھا۔انڈے بھی 190روپے درجن فروخت ہو رہے ہیں ۔ ٹماٹر 140روپے فی کلو گرام بک رہے ہیں۔ آلو اور پیاز بھی مہنگے ہیں ۔ آٹا 70روپے بک رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا حقیقی چیلنج ہی مہنگائی ہے جس سے وہ آنکھیں بند نہیں کرسکتے ۔ مہنگائی نے ہی پی ٹی آئی کی حکومت کے مقبولیت کے گراف پر ضرب لگائی ہے۔
مہنگائی کا جن بہر حال ابھی تک حکومت کے قابو میں نہیں آ سکا۔معیشت کے استحکام کے حکومتی دعوے بھی محض دعوے ہی نظر آتے ہیں ۔ آئی ایم ایف کا پر و گرام ابھی تک غیر یقینی صورتحال سے د و چار ہے۔6ارب ڈالر کے پیکج میں سے ابھی تک ایک ارب 45کروڑ ڈا لر ہی مل سکے ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے دبائو ہے کہ منی بجٹ لایا جا ئے ۔ ٹیکسوں میں ا ضافہ کیا جا ئے ۔ بجلی کی چوری کو روکا جا ئے اور بجلی کی قیمتوں میں ا ضافہ کیا جا ئے۔توانائی سیکٹر میں حکومت کی کار کردگی غیر تسلی بخش ہے۔
موجودہ حکومت کو توانائی سیکٹر میں 1150ارب روپے کا سر کلر ڈیٹ ملاتھا بجا ئے اس کے کہ حکومت مرحلہ وار اس میں کمی کرتی یہ سرکلر ڈیٹ بڑھ کر 2300ارب روپے ہوگیا ہے۔ بجلی کی ریکوری میں اضافہ کی بجائے 1,5فیصد کمی ہوئی ہے۔ مو سم سر ما آتے ہی گیس کے بحران نے سر اٹھالیا ہے اور حکومت نے ایل این جی گیس کی درآ مد کیلئے بر وقت منصوبہ بندی نہیں کی ۔ سٹاک ایکسچینج ن لیگ کے دور میں52ہزار کی ریکارڈ سطح پر چلی گئی تھی ۔ ابھی تک حکومت اس سطح پر واپس نہیں لاسکی اب بھی یہ 42ہزار پر ہے۔ریونیو کی پانچ ماہ میں وصولی کی شرح میں 4فیصد اضافہ ہوا ہے جوکم ہے۔ پانچ ماہ میں 1588ارب روپے جمع کئے گئے ہیں لیکن ایک سال کا ہدف 4950ارب روپے ہے۔
اس کا پورا ہونا ممکن نظر نہیں آ تا کیونکہ اس سال بڑھنے کی بجائے فائلرز کی تعداد میں دس لاکھ کی کمی واقع ہوئی ہے۔پانچ ماہ میں برآ مدات کی شرح میں بھی معمولی اضافہ ہوا ہے۔سر مایہ کاری میں بھی ا ضافہ نہیں ہوا البتہ دو شعبوں میں حکومت کو کا میابی ملی ہے ایک کرنٹ اکائونٹ خسارہ ختم ہوا ہے جو اب سر پلس ہے ۔دوسرے تر سیلات زر میں اضافہ ہوا۔اصل چیز مہنگائی ہے ۔ موجودہ حکومت افراط زر پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے ۔2020میں افراط زر کی شرح 10.74فیصد شرح رہی ۔ دو سال میں ملکی اور غیر ملکی قرضوں کے بوجھ میں 15ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
یہ تو طے ہے کہ وزیر اعظم موجودہ معاشی ٹیم میں تبدیلی نہیں لائیں گے ۔ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ کو مشیر سے وفاقی وزیر بنا دیا گیا ہے ۔ انہیں مارچ میں سینٹ کا الیکشن لڑانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔کرونا وائرس کی وجہ سے بھی معاشی سر گر میوں میں زیادہ اضافہ ممکن نہیں ہے۔حکومت دو سالوں میں اداروں میں اصلاحات میں بھی ناکام نظر آتی ہے۔ صرف پا کستان اسٹیل ملز اور پی آئی اے میں کچھ پیش رفت رواں ماہ نظر آئی ہے۔
اسٹیل ملز ، پی آئی اے ، پوسٹ آفس ، ریلوے ، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں ، یوٹیلیٹی سٹور ز کا رپوریشن جیسے ادارے ملکی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں ۔بیو رو کریسی بھی اصلا حات میں رکاوٹ ہے ۔ ریٹائرمنٹ کمیٹیاں ابھی تک فعال نہیں کی گئیں جنہوں نے نااہل اور کرپٹ اہل کاروں اور افسروں کو ریٹائر کرنا تھا۔ اس طرح حکومت کو صرف سیاسی محاذ پر ہی چیلنج کا سامنا نہیں بلکہ گورننس کا بھی سیریس ایشو ہے ۔