• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ابھی کوئی پونے آٹھ کاوقت تھا۔ میں پولنگ اسٹیشن پہنچ کر سوچ رہی تھی کہ میں پہلی خاتون ہوں گی مگر وہاں تو پہلے ہی قطار بنی ہوئی تھی، اندر جھانکا تو ابھی چہل قدمی جاری تھی۔ میں چونکی الیکشن کمیشن کی طرف سے دیا ہوا کارڈ آبزرور پہنے ہوئے تھی۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اندر جا کر پولنگ افسروں اور ریٹرننگ افسروں کو گھبرائے ہوئے دیکھ کر سمجھ گئی کہ یہ ان خواتین کا الیکشن کرانے کا پہلا تجربہ ہے۔ ریٹرننگ افسر تو بے چاری رات سے وہیں تھی کہ رات تین بجے سامان پہنچا تھا۔ یہی حال پولنگ ایجنٹس کا تھا۔ وہ شاید پہلی مرتبہ ایسی ڈیوٹی سرانجام دے رہی تھیں۔ شرما کے بتا رہی تھیں کہ وہ کس پارٹی کی نمائندہ ہیں۔ البتہ برقعوں میں ملبوس پانچ خواتین کو دیکھ کر میں سمجھ گئی کہ کن کی نمائندہ ہیں اور درخواست کی کہ بس ایک پولنگ ایجنٹ ہوگی باقی خواتین باہر چلی جائیں۔ ووٹر خواتین نے عمران خان کے جھنڈے کے رنگ کی نیل پالس لگا رکھی تھی اور دوسری خواتین کو دکھا رہی تھیں۔ یہ اور ایسے ہی بیگمات کے علاقوں میں منظم مگر یکساں منظر تھا۔ چونکہ پولنگ اسٹاف شاید تربیت یافتہ نہیں تھا کہ عجیب و غریب منظر تھے۔ کہیں سیاہی کی بوتل الٹی ہوئی تھی، کہیں فٹا چھ انچ والا تھا، پولنگ افسروں کو فہرست کاٹ کردینے میں دقت پیش آ رہی تھی۔ عورتوں کا رش تھا کہ بڑھتا جا رہا تھا۔ پولنگ اسٹاف نے باہر لکھ کر بھی نہیں لگایا تھا کہ کون سے کوڈ اور نمبروں والی عورتیں نیچے کے پولنگ ایریا میں ووٹ ڈالیں گی اور کون سی اوپر کے ایریا میں جا کر ووٹ ڈالیں گی۔ بہرحال عورتیں خوشدلی سے اپنے نام تلاش کر رہی تھیں چونکہ یہ صبح کا وقت تھا۔ اسلام آباد میں دھوپ میں کھڑے ہونے کی اذیتیں نہیں تھی۔ امرا کے علاقوں سے جب گولڑہ اور آبپارہ کے پولنگ اسٹیشنوں پر گئے تو وہاں بھی قطاریں بنا کر تمام عورتیں خود ہی کھڑی تھیں۔ دھوپ نے تھوڑی سی چمک دکھانی شروع کردی تھی۔ ہر جگہ رش زیادہ تھا اور اسٹاف یا تو کم تھا یا غیر تربیت یافتہ تھا۔ اسکولوں کے چپراسیوں کی ڈیوٹی یہ تھی کہ اندر زیادہ رش نہ ہونے دیں مگر جیسے جیسے دن گزرتا گیا عورتوں کا رش سیکڑوں سے ہزاروں میں بدلتا گیا۔ آخر کو پونے پانچ بجے کا وقت آگیا۔ ہر ایک نے الیکشن کمیشن کو فوراً فون کئے خاص کر یہ ذمہ داری عاصمہ جہانگیر اور خاور ممتاز ادا کررہی تھیں۔ راجہ بازار میں رش کا یہ عالم تھا کہ اسکولوں کے چھوٹے چھوٹے کمروں میں دم گھٹ رہا تھا۔ وہاں لطف کی بات یہ تھی کہ تحریک انصاف کی بھی پولنگ ایجنٹ بیٹھی تھیں اور عوامی لیگ کی بھی۔ ہم نے پوچھا کہ بھئی تحریک انصاف نے تو شیخ رشید کے حق میں اپنا کوئی نمائندہ کھڑا ہی نہیں کیا، بولیں ووٹ شمار کرتے ہوئے دونوں مہرں کے ووٹ اکٹھے کرلئے جائیں گے امیدواروں کی فہرست بہت لمبی چوڑی تھیں۔ کئی جگہوں میں عورتوں کو مہر لگانا نہیں آ رہا تھا تو پولنگ ایجنٹ اٹھ کر جا کر بتانے لگی تھیں، جس کو ہم نے منع کیا۔ بارہ کہو سے لے کر چوڑ چوک کے اسکولوں میں جو رش تھا وہ مردوں اور عورتوں کا یکساں تھا مگر سڑک پر بڑی رونق تھی۔ نوجوان کہیں شیر لئے اور کہیں بلّا لئے گھوم رہے تھے۔ ساری دکانیں بند تھیں مگر ساری سڑکیں بھری ہوئی تھیں۔ کالجوں کے احاطے میں کچھ نوجوان اور بچے تحریک انصاف کے جھنڈے لہرا رہے تھے۔ پولیس والوں سے جب پوچھا، بولے بچوں کو کتنا ہی منع کیا، باز ہی نہیں آتے ہیں۔عورتوں اور مردوں کو پولنگ اسٹیشن پر بزرگوں اور معذوروں کو آگے لے جانے کیلئے پولیس سے لے کر نوجوان خواتین و حضرات مدد کررہے تھے۔ اب دوپہر ہوچکی تھی کچھ سینٹروں پر تو امیدواروں نے باقاعدہ کھانا سپلائی کیا،کچھ جگہوں پر پولنگ اسٹاف نے اپنے پیسے جمع کرکے کھانا منگوایا تھا مگر یہ لوگ کھائیں کب اور کہاں کہ سمندر کی لہروں کی طرح رش امڈتا ہی چلا آ رہا تھا۔خواتین بھی سچی تھیں انہوں نے گھر جا کر خود بھی کھلانا تھا اور بچوں کو بھی کھلانا تھااس سارے دن میں مردوں اور عورتوں کے ساتھ تعاون بہت بھلا لگا۔ بڑے اسکولوں اور کالجوں میں تو چار چار سینٹر بنائے گئے تھے۔ آدھے حصے میں مردوں کے اور آدھے حصے میں عورتوں کے، اتنے رش کے باوجود کہیں کوئی چھیڑ چھاڑ، بد تمیزی، فقرہ بازی یا ناشائستگی نظر نہیں آئی۔ کئی پریذائیڈنگ آفیسروں کو تو رات سینٹر پر ہی گزارنی پڑی۔
سیاسی پارٹیاں جو اس قدر پیسہ خرچ کرتی ہیں، اپنے پولنگ ایجنٹ کی بھی تربیت کرلیا کریں۔ ان کو سمجھایا کریں کہ کس توجہ سے دیکھنا ہے کہ کوئی اور شخص یا خاتون مہر تو نہیں لگا رہی۔ ہر چند کہ پاکستان بھر میں جمعیت کو کم سیٹیں ملیں مگر ان کی ساری پولنگ ایجنٹ بہت ہوشیار تھیں کہیں کہیں تو مہر لگانے میں بھی مدد کررہی تھیں یا پھر کوشش کررہی تھیں۔
الیکشن کیمشن نے یہ تو بہت اچھا کیا کہ لوگوں کو موبائل پر اپنا الیکشن اسٹیشن اور نمبر کے علاوہ کوڈ بھی بتا دیا۔ بہت سے لوگ جن میں خواتین بھی شامل تھیں، ہاتھ میں پرنٹ آؤٹ لئے ہوئے تھے۔ اس کے باوجود بے شمار لوگوں کو پارٹیوں کے نزدیکی سینٹروں سے مدد لینی پڑی۔ اگر الیکشن کمیشن مہر لگانے کا طریقہ بھی ٹی وی پر بتا دیتے تو بہت سے وہ لوگ جن کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کہاں اور کیسے مہر لگائیں شاید ان کی بھی مدد ہو جاتی۔ اس کے علاوہ پولنگ اسٹاف کو پیکڈ لنچ باکسز دے دیئے جاتے تو وہ کام بھی کرتے رہتے اور پلاؤ کھانے کا وقت نہ ملنے کی شکایت نہ کرتے۔
بہت سے لوگ اپنی دس سالہ لڑکیوں اور لڑکوں کو ساتھ لائے تھے۔ پوچھا کیوں، کہا کہ ان کی زندگی میں ہی پہلا الیکشن ہے، یہ بھی دیکھ لیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عورتوں کی گھریلو مشکلات اور نوجوانوں کی بے کاری کی زندگی کو جیتنے والے کیسے خوش رنگ دے سکیں گے ایک بات جو رہ گئی ہزاروں کی تعداد میں پولنگ اسٹاف تھا ان میں سے کسی نے پوسٹل بیلٹ استعمال نہیں کیا،کتنے سارے ووٹ ضائع اور پارٹیاں بھی ضائع ہوئیں خاص کر پیپلزپارٹی۔
تازہ ترین