• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کل ایک مرد دانا نے بحالت سرخوشی و سرمستی یہ نکتہ اٹھایا کہ ”سندھ کے سوا پورے ملک سے پاکستان پیپلز پارٹی کا صفایا کہیں چارٹر آف ڈیموکریسی کی کسی غیراعلانیہ شق پر عملدرآمد کا نتیجہ تو نہیں؟ بڑے بھائی اور چھوٹے بھائی کے درمیان یہ تو طے تھا کہ پہلے پانچ سال میرے، اگلے پانچ سال تمہارے! مجھے سکون سے حکومت کرنے دو، میں تمہیں ایمانداری سے موقع دوں گا ۔ اس معاہدے کی بازگشت تو بار بار سننے میں آئی لیکن یہ علم نہیں تھا کہ بڑا بھائی، چھوٹے بھائی کو باری کیسے دلائے گا! اب یوں لگتا ہے کہ بڑے بھائی نے پورے ملک میں اپنی پارٹی کا ”دھڑن تختہ“ کر کے آواز لگائی ہو کہ ”چل چھوٹے… اپنی باری لے!“
ٍہرنام سنگھ اپنے گھر میں بیٹھا سکون کے ساتھ ”دارو“ سے شغل کر رہا تھا کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا، ہرنام نے بیٹھے بیٹھے آواز لگائی
”کون ہے؟“
باہر سے آواز آئی ”سردار جی… آپ کی بیوی فوت ہو گئی ایک حادثے میں، اس کی لاش لے کر آیا ہوں۔“
ہرنام سنگھ کے اطمینان میں پھر بھی فرق نہ آیا پھر بیٹھے بیٹھے آواز دے کر پوچھا۔
”اوئے… کس طرح مر گئی میری بیوی؟“
باہر سے پولیس والے نے جواب دیا۔
”سردار جی… بے چاری ٹرک کے نیچے آ گئی تھی… ٹرک اوپر سے گزر گیا، لاش کاغذ بن گئی ہے!“
”اوئے کاغذ بن گئی ہے تو دروازے کے نیچے سے اندر کھسکا دے، میں باہر نہیں آ سکتا!“
تو زرداری صاحب بھی پیپلز پارٹی کی لاش ایوان صدر کے دروازے کے نیچے سے وصول پائیں اور ستمبر تک اندر بیٹھے ”چِل“ (Chill)کریں!
تاوقتیکہ ان کی مدت صدارت ختم ہو جائے اور ان کی دوبئی واپسی ممکن ہو!
چلو زرداری صاحب نے تو جو کیا سو کیا! یہ مسلم لیگ (ن) نے کیا کیا! ایک دم سے پورا پنجاب ہی جیت لیا۔ مرحوم منیر نیازی کا ایک پنجابی قطعہ زبان زد عام ہے۔ پہلے قطعہ سن لیجئے! پھر اس قطعے کی تحریف شدہ شکل مسلم لیگ (ن) کی نذر کروں گا۔
کج اونج وی راہواں اوکھیاں سن
کج گل وچ غم دا طوق وی سی
کج شہر دے لوگ وی ظالم سن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی!
اب اس قطعے کی تحریف، مسلم لیگ (ن) کی نذر:
کج اونج وی ”ووٹاں“ بہوتیاں سن
کج سانوں جتن دا شوق وی سی
کج کم وکھایا فرشتیاں نیں
کج دھکا، دوھوڑا، زور وی سی
ملک بھر میں 70 ہزار سے زائد پولنگ سٹیشن تھے۔ ان میں سے آزاد مبصرین نے صرف 8ہزار 119 پولنگ سٹیشنوں کا جائزہ لیا۔ ان 8 ہزار میں سے 49 پولنگ سٹیشن ایسے پائے گئے، جہاں سو فیصد سے بھی زیادہ ووٹ ڈالے گئے۔ آسان لفظوں میں کچھ یوں کہ جعلی ووٹ ڈالے گئے۔ یہ درست کہ ٹیلی وژنوں نے صرف کراچی میں دھاندلی ہوتے دکھائی (کراچی میں دھاندلی اس لئے بھی بے معنی ہے کہ وہاں ایک کا قبضہ یا Mandaute تسلیم شدہ ہے، وہاں پر الیکشن کرانے کا تکلف ہونا ہی نہیں چاہئے، سیدھے طریقے سے آئین میں ترمیم کر کے یہ نشستیں اس کو مستقلاً الاٹ کر دینا چاہئے) مگر پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں بھی بہت کچھ ہوا۔ جہاں رجسٹرڈ ووٹوں سے، دوگنا ووٹ ڈبوں سے برآمد ہوں، اسے دھاندلی نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے؟ PTI والے اب سڑکوں پر دھرنے دیتے پھرتے ہیں، انہیں پہلے الیکشن لڑنا سیکھنا چاہئے تھا۔ لاہور میں ڈیفنس کو چھوڑ کر ، باقی علاقوں میں اکثر مقامات پر تو شام پانچ بجے کے بعد PTI کے پولنگ ایجنٹ بھی غائب تھے!اب پچھتائے کیا ھوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت!دھاندلی کی باتیں یورپی یونین کے مبصرین نے بھی کی ہیں لیکن ہمیں ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کر لینا چاہئے کہ یہ دھاندلی اور دھاندلی کے الزامات ہمارے موجودہ سیاسی کلچر کا حصہ ہیں۔ جب تک یہ سیاسی کلچر موجود ہے، دھاندلیاں ہوتی رہیں گی، احتجاج اور دھرنے بھی جاری رہیں گے… ساتھ ساتھ حکومت بھی چلے گی!ہے مشق سخن جاری، چکی کی مشقت بھی!پس تحریر: کراچی والوں کو نوید ہو کہ سندھ والوں کی حکومت گئی، پنجاب والوں کی حکومت آتے ہی اداروں کے قبلے اور پالیسیاں بھی تبدیل ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ اب کراچی والوں کو، لاہور والوں کے برابر لوڈشیڈنگ برداشت کرنا پڑے گی۔ ایک شائع شدہ خبر کے مطابق بجلی پیدا کرنے والے ادارےPEPCO نے کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کو روزانہ 750 میگا واٹ کے بجائے صرف 350 میگاواٹ بجلی دینے کا فیصلہ کیا ہے، ساتھ ہی کراچی الیکٹرک سے جو 60 ارب روپے کی نادہندہ تھی، اپنی رقم واپس طلب کر لی ہے۔ اب کے ای ایس سی اپنے بند بجلی گھر چلائے اور اپنی بجلی پیدا کرے!
اسے کہتے ہیں، چلو تم ادھر کو، جدھر کی ہوا چلے!
تازہ ترین