• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیرونی ممالک سے پاکستان کے کسی بھی ہوائی مستقر پر اترتے ہی احساس ہونا شروع ہوتا ہے کہ ہم وطنِ عزیز پہنچ چکے ہیں، جہاز سے نکلتے ہی حریص اور مشکوک نگاہیں آپ کا طواف کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ مختلف اداروں کے چھوٹے بڑے عہدیدار ایک خاص انداز سے آپ کی شخصیت اور سامان کو تاڑتے ہیں پھر پاس سے گزرتے ہوئے سرگوشیاں سی کرتے ہیں مثلاً سامان اُٹھالیں گے، باہر تک لے جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ انہیں پچاس دفعہ بھی کہا جائے جی شکریہ مجھے ضرورت نہیں لیکن یہ لوگ آپ کا پیچھا سامان لانے والی بیلٹ تک کرتے رہیں گے، باقاعدہ زبردستی سامان پکڑیں گے، آپ کی ٹرالی کھینچیں گے حالانکہ ان کی مسافروں کو قطعی ضرورت نہ بھی ہو تو یہ لوگ باہر تک آپ کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور پھر ساتھ چلنے والے ایک سے دو اور تین سے چار ہو جاتے ہیں۔ گاڑی تک پہنچ کرچارو ناچار اگر آپ اُن کو ہزار کا نوٹ دے دیں تو ماتھے پر بل ڈال کر پانچ دس ہزار کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے مسافروں کی جیب پر ڈاکہ ہے، کیا یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ انتظامیہ کو ان حرکات کا علم نہیں؟ حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ اصل بات یہ ہے کہ ایئرپورٹ پر ہر قسم کی دیہاڑی میں اوپر سے نیچے تک ہر ایک کا حصہ ہوتا ہے، یہاں کہنے کو تو اِس ’’نئے پاکستان‘‘ میں ایئرپورٹ پر ہر قسم کے پروٹوکول پر پابندی ہے لیکن یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ پروٹوکول لگا ہو تو ہر قسم کا سامان کن سن میں نکل جاتا ہے لیکن پروٹوکول نہ ہو تو ایک پرانا ٹیلی وژن سیٹ بھی قابلِ گرفت ہے۔ہوائی اڈے سے باہر نکلتے ہی انواع و اقسام کی گاڑیوں والے میلے کچیلے، بدبودار کپڑے پہنے، پان تھوکتے، سگریٹ پیتے ٹیکسی ڈرائیور آپ کو لوٹنے کیلئے کمربستہ نظر آتے ہیں۔ اُن سے اگر بچت ہو جائے تو شہر میں داخل ہونے کے بعد ہر قدم پر لالچ، چور بازاری، اقربا پروری، دھونس دھاندلی، لاقانونیت، بےہنگم ٹریفک کا خوفناک نظام، بےثباتی کا شکار ابتر معاشرہ جہاں پل پل تھیو کریسی پھن پھیلائے آپ کو نگلنے کیلئے تیار دکھائی دیتی ہے، جہاں رشتوں کی مٹھاس، دوستوں و احباب کے جذبے تک کسی نہ کسی مفاداتی فلسفے سے مشروط نظر آتے ہیں، یوں لگتا ہے یہ ایک شورزدہ بیمار معاشرہ ہے جہاں نہ تو جدید و مہذب دنیا کی طرح کوئی اصول ہے اور نہ ضابطہ، جہاں جنگل کے قانون سے بھی بدتر کوئی ایسا رواج ہے جہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے، ’’مائٹ از رائٹ‘‘ کے صدیوں پرانے فلسفے پر اگر کوئی عمل کر رہا ہے تو لگتا ہے ’’یہی تیرا پاکستان‘‘ ہے، ان پڑھ ہو یا تعلیم یافتہ سے زیادہ تعلیم یافتہ اپنے تئیں کوئی تمن خان اسے بنیادی اخلاقی قدروں سے بھی کوئی شناسائی اس ملک میں نظر نہیں آتی۔

حکومت اور ریاست اپنے اللے تللوں اور سیاسی موشگافیوں میں بڑی طرح الجھی ہوئی ہے، میڈیا پر چور چور، کرپشن، ڈاکو، لٹیرے کے سوا امن و آشتی کی کوئی آواز سنائی نہیں دیتی، عوام الناس کے سدھار، فلاح و بہبود اور ان کے معیار زندگی کی بلندی کیلئے کوئی ایک کوشش بھی دکھائی نہیں دیتی، اربوں کھربوں لوٹنے والے بڑی سرعت سے پہلے کی طرح ہی اپنی ڈگر پر رواں ہیں، کہیں کوئی پوچھنے والا، روکنے والا نہیں۔ بےحسی اور مجرمانہ ذہنیت کی دلدل میں بحیثیت مجموعی قوم اس قدر دھنس چکی ہے کہ اس سے نکلنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے، دروغ گوئی، دونمبری، مکروفریب، ریاکاری، بدتہذیبی لوگوں کا عمومی مزاج بن چکا ہے۔ بڑی ڈھٹائی سے زندہ قوم کا نعرہ لگانے والوں کی اخلاقی گراوٹ کا عالم یہ ہے کہ دو سال کی بچی اور ستر سال کی بڑھیا تک بدفعلی سے محفوظ نہیں۔ قتل، اغوا و تاوان جیسے بےشمار واقعات معمول ہیں۔ تھانے کچہری میں بےانصافی کا نظام نہیں بدلا، مجبور و بےکس کی قسمت نہیں بدلی، کسان کا حلیہ نہیں بدلا، غریب و لاچار کی تقدیر کا پہیہ گھومنے کی بجائے جام ہو چکا ہے، ظلم و تشدد اور کمزور کی حق تلفی کا سسٹم بھی عروج پر ہے تو پھر یہ کس کا پاکستان ہے؟ یہ تو پھر اس کا پاکستان ہے جس کو شہرت، دولت و طاقت کا گھمنڈ ہے جو کسی دنیاوی ادارے اور طاقت کو جوابدہ نہیں ہے، یہی وہ نشہ ہے اور یہی وہ گماں ہے جو اس سوچ کے حامل گروہ کو دوسرے کا حق تلف کرنے پر اکساتا ہے اور یہی وہ پختہ خیال ہے جو غریب کو باور کرواتا ہے کہ تمہاری بے کسی، کمزوری، بھوک اور آشفتہ سری تقدیر کا لکھا اور اللہ کی مرضی ہے! لہٰذا اس پاکستان میں غریب، غریب تر اور امیر زیادہ امیر ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ملک کی ریڑھ کی ہڈی درمیانہ طبقہ یعنی مڈل کلاس ختم ہوتی جا رہی ہے۔

قنوطیت معاشرے میں اس حد تک رچ بس چکی ہے کہ معاشرہ بحیثیت مجموعی نفسیاتی مریض بن چکا ہے، لایعنی کا دبائو اور بندشیں عوام میں منفی رجحان پیدا کرنے کا سبب بن چکی ہیں۔ ملاوٹ اور جعلی ازم، کھانے پینے کی اشیا میں مجرمانہ حد تک ملاوٹ، گندہ زہر آلود پانی، پراگندہ ہوا و فضا اور رویوں میں موجود مفاد پرستی و موقع پرستی نے پاکستان کی پوری سوسائٹی کو کھوکھلا اور ماڈرن دنیا کی اخلاقی اقدار کے مقابلے میں زوال پذیر کر دیا ہے اور افسوس تو یہ ہے کہ ملک کے کسی کونے کھدرے میں بھی کوئی رہنمائی کرنے والا نہیں جو اس ملک کے مکینوں کو ہاتھ پکڑ کر بےیقینی اور محرومیوں کی گہری کھائی سے اوپر کھینچ سکے لیکن حقیقت میں اس سے بھی زیادہ دکھ کی بات اور صورتحال یہ ہے کہ دبائو کے پشت در پشت عادی ہو چکے یہ لوگ ہاتھ بڑھانے اور اپنی ناگفتہ بہ حالت بدلنے کیلئےخود بھی تیار نظر نہیں آتے چنانچہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر یہ تیرا پاکستان ہے میرا نہیں، بقول اقبال؎

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

تازہ ترین