• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند سینئر ریٹائرڈ بیوروکریٹ اور ٹیکنو کریٹ مہینے میں ایک دو بار اپنے مستقل ٹھکانے جم خانہ کلب مدعو کرتے ہیں جہاں دوران سروس گزرے واقعات سنانے کے علاوہ حالات حاضرہ پر بھی گفتگو کرتے ہیں۔ حالیہ ملاقاتوں میں ان کی باتوں اور خیالات سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ موجودہ وزیراعظم عمران خان کی طرز حکمرانی اور پی ٹی آئی حکومت کی کار کردگی سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ ان صاحبان کی متفقہ رائے تھی کہ حکومتی وزراء کی اکثریت نااہلی یا ناتجربہ کاری کی بنا پر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی ہے۔ خصوصاً ہائوسنگ، اطلاعات، فوڈ سیکورٹی، داخلہ و خارجہ، صحت، زراعت اور پیٹرولیم جیسی اہم وزارتیں چلانے والے عوام کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہے ہیں۔ صوبوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومتیں عوام کو ریلیف دینے، میرٹ اور گڈ گورننس کو برقرار رکھنے میں مکمل ناکام نظر آتی ہیں، مہنگائی اور رشوت ستانی کئی گنا بڑھ گئی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ پنجاب میں عثمان بزدار کی کوششوں کے باوجود سینئر صوبائی وزراء اور وزیراعلیٰ کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ نہ ہونے کے برابر ہے۔

معزز سینئر صاحبان کی بہت سی تلخ باتوں کا جواب میرے پاس نہیں تھا تاہم میں نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ گزشتہ حکومتوں کے پاس حکمرانی اور اپوزیشن کی سیاست کا کئی دہائیوں کا تجربہ تھا جبکہ عمران خان کو اپنی نیک نیتی اور طویل جدوجہد کے باوجود حکومت میں آنے کیلئے کئی کمپرومائزز کرنا پڑے، الیکٹ ابیلز کو ساتھ ملانا پڑا، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں اکثریت برقرار رکھنے کے لئے اور ذاتی دوستوں کو خوش کرنے کیلئے بعض ناخوشگوار فیصلے کرنا پڑے جس سے حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔ مسلم لیگ کی حکومت کو عام انتخابات سے قبل اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ الیکشن ہار جائیں گے، چنانچہ نئی حکومت کو ناکام بنانے کیلئے انہوں نے کام بہت پہلے شروع کر دیا تھا۔ بجلی و گیس کے مہنگے ترین معاہدے، ڈویلپمنٹ فنڈز کی بےتحاشہ تقسیم، بھاری مارک اپ پر اندرونی و بیرونی قرضے لے کر میگا پروجیکٹس کی تعمیر اور انتخابات سے چند ماہ قبل انتظامی و کنٹریکٹ افسران کی پلیسمنٹ اس کی چند مثالیں ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ پرانی حکومتوں کے مراعات یافتہ مشیراور افسرپی ٹی آئی کی نئی حکومت کے صلاح کار بن گئے، نتیجتاً خالی خزانے، ادائیگیوں میں عدم توازن اور بڑی حد تک کرپٹ اور بےوفا بیورو کریسی نے حکومت کو مسلسل مشکلات میں رکھا جبکہ وزیراعظم کے بعض قریبی ساتھیوں کی نااہلی، ناتجربہ کاری، اقربا پروری یا لالچ نے حکومتی ورکنگ اور حالات کو ٹھیک نہیں ہونے دیا۔

تحریکِ انصاف کی حکومت آنے کے ڈھائی سال بعد ملک معاشی لحاظ سے بہتری کی طرف گامزن ہے اور دنیا بھر میں پھیلے کورونا وائرس کے باوجود اکانومی کا پہیہ چلنا شروع ہو گیا ہے۔آئی ٹی سیکٹر میں واضح ترقی نظر آتی ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر اور کنسٹرکشن انڈسٹری میں بعض حکومتی اقدامات کی وجہ سے کافی تیزی آئی ہے جس سے سیمنٹ، اسٹیل سیکٹر میں بہتری اور بےروزگاری میں کمی آئی ہے۔ کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی آئی ہے، بیلنس آف پیمنٹ بہتر ہوا ہے اور مارک اپ میں کمی سے کاروباری سرگرمیاں تیز ہوئی ہیں۔ بیرونی ممالک سے ترسیلاتِ زر میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے مگر پاکستان کی حکومت اور اسٹیک ہولڈرز کو بیرونی ممالک خصوصاً عرب ممالک اور خلیجی ریاستوں کیساتھ تعلقات میں گرمجوشی لانا ہوگی۔ اسی طرح امریکہ اور چین دونوں دنیا کی سپر پاورز ہیں ان کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار کھنا بھی ضروری ہے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اپوزیشن کی یلغار، اتحادیوں کی دوغلی سیاست اور تحریک انصاف کے وزراء اور ممبران اسمبلی کے پریشر کی وجہ سے عمران خان کوئی بڑے انقلابی اقدام نہیں کر سکتے مگر اب تک کئے جانے والے کاموں کے ثمرات عوام تک پہنچانے اور ملک کو مضبوط اور خوشحال بنانے کیلئے عمران خان کو ٹیم نئے سرے سے ترتیب دنیا ہوگی اور اپنی انا کو پس پشت ڈال کر مخالفین کے جائز مطالبات سننے اور ماننے کا حوصلہ پید اکرنا ہوگا۔ (صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)

تازہ ترین