سالِ نو کی شروعات کے ساتھ کورونا وبا کے باقاعدہ عالمی اعلان کو بھی ایک سال مکمل ہو گیا۔ ایک سال سے کچھ زائد عرصے میں کورونا وائرس 8کروڑ 88لاکھ سے زائد لوگوں کو متاثر اور 19لاکھ سے زائد انسانوں کی جان لے چکا۔ عالمی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا حجم اتنا زیادہ ہے کہ ابھی تک اس کا درست تخمینہ بھی نہیں لگایا جا سکا۔ اگرچہ دنیا کے بڑے تجارتی مراکز کی اکثریت اس وقت لاک ڈاونز، پابندیوں اور کرفیوز کی وجہ سے بند ہے تاہم امید کی جارہی ہے کہ نئی ویکسینز اور بہتر علاج سے وبا پر مکمل قابو کی منزل اب کچھ زیادہ دور نہیں۔ پاکستان اِس ایک سال میں کامیابی سے وبا پر قابو پانے کے حوالے سے عالمی سطح پر موضوع بحث رہا۔ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان کے کیسز کی شرح خاصی کم رہی۔ اگرچہ اکتوبر کے آغاز سے کورونا کی دوسری لہر کے دوران کیسز میں خاصا اضافہ دیکھنے میں آیا تاہم دسمبر کے آخری دو ہفتوں میں ہم بڑھتے ہوئے کیسز کو روکنے میں بہت حد تک کامیاب ہوئے۔ پہلی لہر کے دوران عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ادہان گیبریسئس نے برطانوی اخبار دی انڈی پنڈنٹ میں اپنے ایک کالم میں لکھا کہ پاکستان نے کورونا وبا پر کچھ اس طرح قابو پایا ہے کہ ساتھ ہی ساتھ معیشت بھی استحکام کی جانب گامزن ہے اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ خیال درست نہیں کہ وبا پر قابو پانے اور معیشت بچانے میں کسی ایک کا ہی انتخاب ہو سکتا ہے۔
بلحاظ آبادی پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب بھی ماہرین اور محققین کی خصوصی توجہ کا موضوع رہا۔ پنجاب پورے ملک کی آبادی کا53 فیصد ہے لیکن مجموعی ملکی کورونا کیسز میں سے صرف اٹھائیس فیصد کا تعلق پنجاب سے ہے۔ سال کے اختتام تک پاکستان میں فی ملین آبادی میں اموات کی شرح پینتالیس تھی جبکہ پنجاب میں یہ شرح پینتیس تک رہی۔ اسی طرح پاکستان میں کیسز کی شرح 2151 فی ملین آبادی رہی جبکہ پنجاب میں یہ شرح 1245ریکارڈ کی گئی۔ یاد رہے کہ پڑوسی ملک بھارت میں یہ شرح 7404 تک تھی۔ اکتوبر کے آغاز میں کورونا وبا کی دوسری لہر کے دوران اضافہ پھر سے شروع ہوا۔ تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا جو تعداد ستمبر کے دوسرے ہفتے تک چند درجن تک محدود ہو گئی تھی، اب سینکڑوں تک جا پہنچی۔ پہلی لہر کے آخری دنوں میں اسپتالوں کے جو وارڈز خالی ہو گئے تھے وہ اب دوبارہ بھرنا شروع ہو گئے۔ کورونا کے لئے مختص تمام وارڈز کو دوبارہ مزید بہتر کرنے کے علاوہ بہت زیادہ کیسز کی صورت میں متبادل انتظامات والے اسپتالوں کو بھی فوری طور تیار کیا گیا۔ پی کے ایل آئی، میو اسپتال، راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اور نشتر اسپتال ملتان میں کورونا کے لئے خصوصی انتظامات موجود ہیں۔ بڑھتے ہوئے نئے کیسز کو روکنے کے لئے اعداد و شمار کے تفصیلی جائزے کے بعد تعلیمی اداروں کو بند کرنے اور عوامی اجتماعات پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا۔ اسی نوعیت کے دیگر اقدامات کے نتیجہ میں دسمبر کے دوسرے ہفتہ سے ہم اِس اضافہ کو روکنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ روزانہ کے کیسز میں مزید اضافہ تھم گیا ہے اور ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ کیسز میں واضح کمی لائی جا سکے۔
جوں ہی عالمی ادارۂ صحت نے تین جنوری کو اِس بیماری کا باقاعدہ اعلان کیا، ہم نے فوری طور پر تیاریوں کا آغاز کر دیا تھا۔ وزیراعلیٰ کے احکامات پر قائم ہونے والی خصوصی کمیٹی کی پہلی میٹنگ دس جنوری کو ہوئی۔ اِ جنگی بنیادوں پر تیاریاں شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے تحت ریسکیو 1122، سول ایوی ایشن اور اسپیشل پروٹیکشن یونٹ سے مل کر فوری طور ایک حکمت عملی وضع کی گئی۔ ہنگامی بنیادوں پر اسکریننگ، قرنطینہ اور علاج کے بارے میں ابتدائی اقدامات اور طریقہ کار وضع کیا گیا۔ ہمارے دو پڑوسی ممالک میں وائرس تیزی سے پھیل رہا تھا اور روزانہ بڑی تعداد میں کیسز رپورٹ ہو رہے تھے۔30 جنوری کو جب عالمی ادارۂ صحت نے کورونا وبا کو ایک عالمی ایمرجنسی قرار دیا اِس وقت تک ہم ایئر پورٹس پر تمام مسافروں کی اسکریننگ کا نظام اور مشتبہ اور مصدقہ مریضوں کو علیحدہ رکھنے کا نظام بنا چکے تھے۔ 12جنوری کو جب پنجاب میں میڈیکل ایمرجنسی کا باقاعدہ نفاذ کیا گیا عین اسی دن وائرس کو اس کا موجودہ نام SARS-COV2دیا گیا۔ ہم نے فوری طور پر پی کے ایل آئی لاہور، رجب طیب اردگان اسپتال مظفر گڑھ اور راولپنڈی انسٹیٹیوٹ میں کورونا سے متعلقہ خصوصی انتظامات کئے۔ صوبہ کے تمام اسپتالوں کے لئے الرٹ جاری ہونے کے علاوہ ونٹی لیٹرز، آکسیجن اور ڈاکٹرز کے لئے خصوصی حفاظتی ساز و سامان کی خریداری کے لئے فوری طور پر خریداری کے عمل کا آغاز کر دیا گیا۔
پنجاب میں پہلا کیس 15مارچ کو رپورٹ ہوا۔ گویا پہلے ملکی کیس اور پہلے پنجاب کے کیس میں تقریباً تین ہفتے کا وقفہ تھا اور اِس قیمتی وقت کے دوران ہمیں پنجاب میں تیاریاں مکمل کرنے کا موقع ملا۔ رائے ونڈ میں 10مارچ کو ہونے والے تبلیغی اجتماع کے شرکا کو قرنطینہ میں رکھنے کے انتظامات اسی وقفہ کے دوران کئے گئے کام کی بدولت ممکن ہوئے۔ منتظمین نے ہماری بار بار کی درخواست پر کان نہیں دھرے اور اجتماع کرنے پر مصر رہے۔ یہ تقریباً اسی ہزار کا اجتماع تھا جس میں چالیس سے زائد ممالک سے لوگ شریک ہوئے۔ وائرس کے پھیلاؤ میں عوامی اجتماعات کے کردار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 8اپریل تک پنجاب میں 539کیس رپورٹ ہوئے جن میں سے 404کا تعلق صرف اسی ایک اجتما ع سے تھا۔ ان نتائج کی روشنی میں ہمیں نہ صرف رائے ونڈ کے پورے علاقے کو بند کرنا پڑابلکہ پورے پنجاب سے اجتماع میں شامل شرکاء کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر دس ہزار سے زائد لوگوں کو فوری قرنطینہ کرکے اُن کے ٹیسٹ کرنا پڑے۔ مارچ اور اپریل کے عرصہ میں عالمی صورتحال سنگین سے سنگین تر شکل اختیار کر گئی۔ (جاری)