• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بجلی کا شعبہ جس سنگین بحران سے دوچار ہے اُس کا ایک مظاہرہ چند روز پہلے پورے ملک کے بیک وقت گھنٹوں تاریکی میں ڈوبے رہنے کی شکل میں ہوا جبکہ بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ عام صارفین کی مشکلات بڑھانے اور مجموعی معاشی بحران کو شدید تر کرنے کا ایک مستقل اور بنیادی سبب ہے۔ اِس کی اصل وجہ روز افزوں گردشی قرضے یعنی سرکاری اداروں پر بجلی پیدا کرنے والی ملکی اور غیرملکی نجی کمپنیوں کی واجب الادا رقوم ہیں۔ کابینہ کمیٹی برائے توانائی کے مطابق نومبر 2020ءتک پاکستان میں پاور سیکٹر کے گردشی قرضوں کا حجم 2306ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اِس کی بڑی وجوہات میں بجلی کی چوری، واجبات کی بروقت ادائیگی کا نہ ہونا اور توانائی کے شعبے میں حکومت کی ناقص کارکردگی شامل ہیں۔ یہ شعبہ تقریباً دو عشروں سے گردشی قرضوں تلے دبا ہوا ہے۔ 2008میں اِن قرضوں کا حجم ساڑھے چھ ہزار ارب روپے تھا، جو پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت کے آخری مالی سال تک بڑھ کر ساڑھے تیرہ ہزار ارب روپے تک جا پہنچا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں اِس مسئلے پر قابو پانے کی مؤثر کوششیں کی گئیں لیکن انتخابات سے پہلے نگراں حکومت کے قیام کے بعد جون 2018ءمیں توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ پھر 1148ارب روپے ہو چکا تھا جبکہ موجودہ دور میں نومبر 2018ءسے نومبر 2020ءکے دوران یہ قرضہ 23کھرب سے بھی بڑھ گیا ہے۔ گردشی قرضوں میں اس اضافے کے اسباب میں اگرچہ ڈالر کی قدر کا بڑھنا اور کورونا کی وبا بھی شامل ہے لیکن ماہرین کے مطابق اس کی بنیادی وجہ مسئلے کے مستقل حل کے لئے کوئی نتیجہ خیز طریق کار وضع نہ کیا جانا ہے۔ بجلی چوری روکنے اور صارفین سے واجبات کی سو فی صد وصولی یقینی بنانے کے لئے اسمارٹ میٹرز کی تنصیب ایک مؤثرحل ثابت ہو سکتا ہے نیز شمسی توانائی جیسے آسان متبادل ذریعے کو فروغ دے کر صارفین کو اپنی بجلی آپ پیدا کرنے کے لائق بنایا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین