• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر روز نیا ایشو، نئی کہانی،نہ کچھ حاصل وصول،نہ عوام کے لئے کوئی آسانی، پانامہ، فارن فنڈنگ اور براڈ شیٹ کے بعد نہ جانے کس نئے ایشو کی تیاری ہو رہی ہو گی، ان تمام قضیوں کا انجام بڑا عجیب ہے۔ پانامہ کے معاملے میں بڑا شور ہوا۔ گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ معلوم نہیں اس پر کتنی رقم قومی خزانے سے خرچ ہوئی لیکن نہ کچھ حاصل ہوا نہ ہی وصول ہوا۔فارن فنڈنگ کیس کے معاملہ میں پاکستان تحریکِ انصاف کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان میں قضیہ گزشتہ تقریباً سات سال سے چل رہا ہے۔ شاید اب اس کا کوئی نتیجہ سامنے آ جائے ،پی ٹی آئی کی طرف سے بھی اسی نوعیت کا معاملہ مسلم لیگ ( ن) اور پیپلز پارٹی کے خلاف چل رہا ہے۔ آئین و قانون کے ماہرین کا خیال ہے کہ یہاں جو بھی فیصلہ ہو جائے اس کے خلاف اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا جا سکتا ہے ۔وہاں کتنا وقت لگتا ہے اور کیا فیصلہ آنا ہے یہ اختیار عدلیہ کا ہے۔ لیکن عوام کو مشغول رکھنے کے لئے گاہے گاہے کوئی خبرآیا کرے گی جیسا کہ پانامہ اور شریف فیملی سے متعلق عوام اب بھی ’’لطف اندوز‘‘ ہوتے ہیں۔ یہی حال بے نامی اکائونٹس،اور منی لانڈرنگ کے معاملات کا ہے۔ تازہ ترین ایشو براڈ شیٹ نامی کمپنی کا ہے جسے پاکستان اب تک تقریباً 35ملین ڈالرز ادا کر چکا ہے۔ یہ خطیر رقم بغیر کسی وجہ کے ادا کی گئی۔ واضح رہے کہ اس رقم میں سے15ملین ڈالرز، 2003،میں اور 20ملین ڈالرز موجودہ حکومت نے ادا کئے۔

نواز شریف کی ناجائز طریقے سے حاصل ہونے والی رقم اور اس رقم سے بیرون ملک خریدی گئی جائیدادوں کا پتہ چلانے کیلئے اس کمپنی سے معاہدہ ہوا تھا۔ معاہدے کے مطابق ریکوری کی صورت میں رقم کا20فیصد کمپنی کو دیا جانا طے تھا۔ لیکن نہ کوئی مقصد حاصل ہوا نہ ریکوری ہوئی لیکن مذکورہ رقم کمپنی کو دینی پڑ گئی۔ اس کمپنی اور واردات کا سرغنہ طارق فواد ملک نامی ایک پاکستانی تھا۔ اس بارے میں تمام تفصیلات سب کے علم میں آ چکی ہیں۔ ہم بڑے عجیب لوگ ہیں۔ اس سے زیادہ کیا کہا جا سکتا ہے کہ یہ نظام نہ بولنے کی اجازت دیتا ہے نہ سچ لکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہاں انصاف کا حصول مشکل بنا دیا گیا ہے۔ یہ کسی ایک ادارے کا قصور نہیں بلکہ نظام کا قصور ہے ۔ عام آدمی کا تو جینا ہی محال ہے ۔قانون کے نفاذ میں کئی طرح کی رکاوٹیں ہیں۔ اس نظام کی بنیاد جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول پر قائم ہے۔ آج بھی پنجاب کے دیہات میں چوہدری اور جاگیردار ،سندھ میں وڈیرہ شاہی اور بلوچستان میں سرداروں ہی کی اہمیت ہے۔ البتہ کے پی اب کافی حد تک خان کلچر سے آزاد ہے۔ تھانہ کلچر بھی کے پی میں کافی حد تک تبدیل ہواہے۔ ایک اور بڑی پیش رفت جو کے پی میں ہوئی ہے وہ بدمعاشوں ،بھتہ خوروں اور اغوا کاروں کا خاتمہ ہے۔ لیکن اس پیش رفت کا سہرا سیکورٹی اداروں کو حاصل ہے۔ پنجاب اور سندھ میں تھانہ کلچر میں انفرادی چھوڑ کر مجموعی طور پر کوئی خاص تبدیلی نہیں آ سکی ۔ یہ سب نظام کی وہ خرابیاں ہیں جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔

پنجاب میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے۔ بچیوں اور بچوں سے زیادتی اور قتل کی سنگین وارداتوں کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا۔ جب تک ایسے ظالموں اور درندوں کو سر عام پھانسی نہیں دی جائے گی ایسی وارداتوں میں کمی آنا ممکن نہیں ہے۔ اخلاقی جرائم میں اضافہ نہایت خطرناک شگون ہے۔ دین سے دوری کی وجہ سے بحیثیت قوم تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ کوئی ماںباپ کے سامنے آنکھ اٹھا کر بات کرنے کا سوچ نہیں سکتا تھا۔ اب ماں باپ اس خوف سے اولاد کے سامنے نہیں بولتے کہ کہیں وہ غصہ نہ کرجائیں اور بے عزت نہ کریں۔ خود سوچئے کہ ہمارا معاشرہ کس طرف جا رہا ہے؟ لگتا ہے کہ والدین اور علماء بھی نئی نسل کو دین اسلام کی طرف راغب کرنے میں اپنا کردار صحیح طرح ادا نہیں کر رہے ۔

جرائم میں اضافہ، بدعنوانیوں کی وجہ فرسودہ نظام ہے۔ حصولِ انصاف غریب عوامکیلئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ سیاست دان چاہے حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، وہعوام کی طرف سے غفلت برت رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کے ڈھائی سالوں میں عوام کے مفاد کیلئے کوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔ جس کی ذمہ دار حکومت اور اپوزیشن دونوں ہیں۔ ایسا لگتا ہےکہ عوام لاوارث ہیں۔ یہ پارلیمانی نظام اور نام نہاد جمہوریت کے پھل ہیں۔

عام آدمی کے گھر کا چولہا کیسے جلتا ہے؟ بچوںکے تعلیمی اخراجات ، علاج معالجہ،غمی خوشی ،مہمانداری ،مکان کا کرایہ ،بجلی و گیس کے بل ناقابل برداشت ہو چکے ہیں۔حکومت اپنے تمام وعدوں سے پھر گئی ہے۔ اپوزیشن والے تقاریر اور ٹاک شوز میں اپنے مفادات کی بات کرتے ہیں۔ لیکن یہ سیاست دانوں کی غلط فہمی ہے کہ عوام ہمیشہ ان کے دلفریب نعروں کے فریب میں آتے رہیں گے۔

اگر سیاست دان اپنی سیاست کی بقا چاہتے ہیں تو اپنے مفادات چھوڑ کر عوام کے مسائل کے حل کیلئے ہنگامی نوعیت کے اقدامات کر یں۔ یہ عوام کی خواہش ہے جس کی تکمیل نظر نہیں آتی۔ عام آدمی کو ان ایشوز سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں ہے جو حکمران اور اپوزیشن آئے روز بناتے ہیں۔ عوام کو ان کے مسائل کے حل سے غرض ہے حکومت چاہے کوئی بھی ہو اور نظام چاہے جو بھی ہو۔ لیکن پارلیمانی اور نام نہاد جمہوریت ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ عوام اب سیاست دانوں کے رویوں، ووٹ کی طلب اور اقتدار کی خواہشوں میں مزید استعمال ہونا شاید پسند نہیں کریں گے۔ ’’دانشمند لوگ ‘‘ یہ سمجھتے ہیں کہ اب یہ نظام اور حالات نہیں چل سکتے۔ دیکھئے اب اور کیا ہوتا ہے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین