• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آزادی کے بعد ’’سیکولر جمہوریہ‘‘ کا امتیاز حاصل کرنے میں کامیابی نے بلاشبہ بھارت کو دنیا کا اہم ملک بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ وگرنہ اپنی غربت اور پسماندگی، پھر روس کی جانب واضح جھکائو رکھنے کے باوجود امریکہ کے نیٹو بلاک اور اِن کے حلیف ممالک میں بھی بہت جلد اپنا امیج بنانا، اِسے مسلسل بڑھانا اور برقرار رکھنا، وقت کی عالمی سیاست میں کوئی آسان نہ تھا۔

تسلسل کے ساتھ قومی انتخابات کا انعقاد کافی حد تک میڈیا کی آزادی، کانگریس جیسی تجربے کار اور منظم قومی جماعت کے علاوہ ، قومی علاقائی جماعتیں بنانے کی مکمل آزادی پھر انتخابی عمل میں ان کی سرگرمی نے ثابت کیا کہ بھارت میں مطلوب جمہوریت کا ارتقاجاری و ساری ہے۔

جواہر لال نہرو کے بعد اُن کی بیٹی اندرا گاندھی کچھ کانگریسی بزرگوں کے بعد اقتدار میں آئیں تو وہ ملک کی سب سے پاپولر اور کامیاب سیاسی رہنما ثابت ہوئیں، لیکن جب انہوں نے ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ کیا تو اُن کی مستحکم و مقبول قیادت بھی بحیثیت مجموعی قومی ردعمل سے متنازعہ ہو گئی۔ انہیں جمہوری عمل بحال کرنا پڑا اور کانگریس سیاسی اتحادوں کی محتاج ہونے لگی۔

سکھوں کے خلاف اُن کے مقدس ترین مذہبی مقامات میں سے ایک گولڈن ٹیمپل پر فوجی چڑھائی میںسکھوں کے کشت و خون اور عسکری طاقت سے آزاد وطن خالصتان کی تحریک کو پنجاب بھر میں بے رحمانہ اور مکمل غیر جمہوری ملٹری آپریشن سے کچلنے کے اقدامات نے بھارت کی داخلی سلامتی کے لئے بڑا چیلنج پیدا کر دیا،

تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ خالصتان ہو، آزادی کی دوسری تحریکیں یا مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ قبضے کا فوجی طاقت سے ہی تسلسل، ہر ایسے داخلی خطرے کے مقابل، بھارت میں آئینی جمہوری عمل کا تسلسل ایسا ’’شاک آبزرور‘‘ ثابت ہوا۔

یوں کانگریس ملکی داخلی سلامتی کا دفاع کرنے میں کامیاب ہوتی رہی۔ حالانکہ بھارتی ’’سیکولر جمہوریہ‘‘ کی اصل حقیقت وہ نہیں تھی جو دنیا کو نظر آتی رہی۔ جمہوری ارتقا کے سراب میں سیاسی سماجی قومی زندگی میں چھوت چھات کلچر برقرار رہا۔ اچھوت اپنی توقعات کے مطابق انتخابی جمہوری عمل کے بینی فشری نہ بن سکے۔

اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کہ ابتدا میں ہی، بھارت کو جدید رنگ اور جمہوری سیکولر تشخص دینے والے ملک کےا سمارٹ آئین کے دلت آرکیٹیکٹ، ڈاکٹر رائو بھیم ایمبیڈ کر بھارتی سیاست و سماج میں ذات پات ختم کرنے میں مکمل ناکام ہونے لگے۔

وہ مستقبل میں بھی اسی (برہمنی) کا اصل ہی راج دیکھتے ہوئے اچھوت ہندو کے طور اپنے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک پر دل برداشتہ ہو کر ہندو مذہب ترک کر کےاور بدھ مت قبول کر کے آنجہانی ہوئے۔

اس کے بھی واضح شواہد موجود ہیں کہ وہ ’’مساواتِ محمدیؐ‘‘ کے فلسفے سے بھی متاثر تھے۔

انہوں نے تبدیلی مذہب میں پہلے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ بھی کیا لیکن پھر مستقبل میں اپنی ذات کے سیاسی سماجی مقام کا اندازہ کرتے ہوئے اِس نتیجے پر پہنچے کہ اگر انہوں نے اسلام قبول کیا تو اونچی ذات کے طاقتور ہندو طبقات اچھوتوں کا بھارت میں جینا حرام کر دیں گے۔ اب ان کی تقلید میں لاکھوں دلت بدھ مت قبول کر چکے ہیں۔

اِس پس منظر میں بھارتی میڈیاسے بریک ہونے والی نیوز نے ثابت کر دیا کہ بھارت کے سہانے، مانند سراب ’’سیکولر جمہوریہ‘‘ کے عالمی امیج کو ٹھکانے لگانے والی ہندو بنیاد پرست مودی سرکار اپنی دوسری انتخابی فتح کیلئے آپے سے باہر اور کچھ بھی کرنے کیلئے کس حد تک تیار تھی۔

یہاں تک کہ اس نے مقبوضہ کشمیر کے خلاف اقتدار میں آ کر اس کی آئینی حیثیت ختم کرنے، پاکستان کے خلاف جنگی فضا پیدا کرنے، اور یہ ثابت کرنے کہ ’’پاکستان عملاً بھارت کی سلامتی کے در پے ہو گیا ہے‘‘۔ مقبوضہ جموں و کشمیر نکلتا نظر آ رہا ہے،از خود مودی سرکار نے ’’پلوامہ کا ڈرامہ رچایا۔

اور رچاتے ہی پوری شدت سے پاکستان پر اِس کا الزام دھر کر انتقام لینے اور بھارت کے دفاع میں پاکستان کو سبق سکھانے کا وعدہ انتخابی مہم کا محور بنا دیا۔

پلوامہ کے فوراً بعد انتخاب کے نتیجے میں بننے والی مودی ہی کی اِمکانی سرکار سے معطل مذاکرات بحال کرنے پر کمٹیڈ نومولود پاکستانی عمران حکومت نے بھارتی الزامات کو لغو قرار دیتے ہوئے پلوامہ میں بھارتی فوجی قافلے پر حملے اور 40سے زائد سپاہیوں کی ہلاکت کے واقعہ کی تحقیقات میں تعاون کا یقین دلایا۔

اسلام آباد کے سفارتی و ملکی و غیر ملکی صحافتی حلقوں اور تجزیہ نگاروں میں پلوامہ واقعہ پر دو بیانیے عام ہوئے تھے یہ کہ ’’بھارتی فوجی قافلے پر حملہ کشمیری مجاہدین نے کیا ہے‘‘، دوسرا یہ کہ ’’خود مودی سرکار نے ڈرامہ رچایا اور مقصد پاکستان کے خلاف جنگی ماحول پیدا کر کے بھارتی ووٹر کو گرمانا اور اپنا حامی بناناہے‘‘۔

اب گودی میڈیا کے سرخیل اینکر پرسن ارنب گوسوامی کی واٹس ایپ پر چینل ریٹنگ کمپنی کے ایگزیکٹو سے چیٹنگ کا جو ڈیٹا بھارتی میڈیا سےبے نقاب ہوا ہے، اس نے ناقابلِ تردید حد تک بھارت میں مودی سرکار پر لگے الزامات کو درست ثابت کر دیا ہے۔

اقتدار کی ہوس میں بھارتی وزیراعظم اور اس کا قابلِ مذمت سراپا دروغ گوئی اور مکمل پروپیگنڈے کا حامل میڈیا اقتدار کے حصول اور اسے یقینی بنانے میں اِس حد تک جا سکتا ہے کہ اپنی ہی فوج کے (اچھوت) فوجیوں کی جانوں پر انتخاب جیتنے کا ہولناک ڈرامہ رچایا جائے۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ محض عالمی برادری سے ہی یہ توقع کیوں کر رہی ہے کہ ’’وہ اِس چونکا دینے والے انکشاف پر خطے کے امن کو بڑے اور مسلسل خطرے سے دوچار کرنے پر بھارتی حکومت کو جوابدہ بنائے گی‘‘۔

اِس کے لئے تو پاکستان نے خود محنت کرنی اور سفارتی پاپڑ بیلنے ہیں۔ اسی طرح اور کچھ ایسے ہی، جیسے بھارت نے پاکستان مخالف دروغ گوئی اور خطرناک حربوں کو سچ ثابت کر کے پاکستان کو دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے والا ملک ’’ثابت‘‘ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

تازہ ترین