• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ﷲ تعالیٰ برادرم رؤف طاہر کی اگلی منزلیں آسان فرمائے۔ ابھی ان کی وفات کا زخم تازہ ہی تھا کہ سرحد پار کشمیر سے اطلاع ملی کہ ایک اور دوست نیاز احمد پنچو اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے۔ 5اگست 2018کے بعد جب کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کردیا گیا تو اُس کے بعد سے کشمیری بے پناہ نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو گئے ہیں۔ پچھلے ڈیڑھ سال کے عرصے میں کشمیریوں کو لگ بھگ تمام اہم انتظامی عہدوں سے الگ کرکے ان کی جگہ غیر کشمیری افسران کو تعینات کردیا گیا ہے جو مقامی انتظامی مسائل کو بھی تعصب زدہ سیاست کی نظر سے دیکھ رہے ہیں جس سے لوگوں کی روزمرہ کی زندگی نئے اور اضافی مسائل کا شکار ہو رہی ہے۔ مثلاً امسال جاری سردیوں میں اب تک کئی بار شدید ترین برف باری ہوئی مگر انتظامیہ کی جانب سے سڑکوں اور گلی کوچوں سے برف یا تو بہت دیر سے یا بالکل بھی نہیں ہٹائی گئی جس سے نقل و حمل میں اس قدر رخنہ پڑا ہوا ہے کہ کچھ لوگ اسے 5اگست 2018کے بعد مسلط کئے جانے والے کرفیو زدہ لاک ڈاؤن اور پھر کورونا کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن کی مناسبت سے تیسرا لاک ڈاؤن قرار دے رہے ہیں۔ منفی درجہ حرارت میں یخ بستہ سڑکوں پر گاڑی چلانا تو دور کی بات پیدل چلنا بھی انتہائی خطرناک ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے مریضوں تک بر وقت ایمرجنسی طبی امداد نہیں پہنچتی۔ ان حالات میں تجہیز و تکفین کے مراحل بھی بہت کٹھن ہو جاتے ہیں اور لواحقین اور متعلقین کے صدمے میں غیر ضروری اضافہ ہو جاتا ہے۔

نیاز احمد پیشے کے لحاظ سے سرکاری استاد تھے۔ ان کے مرحوم والد نے ترکے میں کافی جائیداد چھوڑی تھی جس میں دو کنال رقبے پر ایک تین منزلہ کمپاؤنڈ بھی شامل تھا جہاں پر وہ اپنی امی اور دیگر تین بھائیوں کے ساتھ رہ رہے تھے۔ اپنے دو بچوں کے ساتھ ان کی شادی شدہ زندگی بظاہر مطمئن تھی اور وہ کسی قسم کی مالی یا خانگی پریشانیوں میں بھی مبتلا نہیں تھے مگر اس کے باوجود پینتالیس سالہ نیاز احمد کے دل نے اچانک کام کرنا چھوڑ دیا جو عام حالات میں شاید لوگوں کو اچنبھے میں ڈالتا مگر کشمیر میں اس طرح کی اموات میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رواں ماہ جنوری کے پہلے اٹھارہ دنوں میں تیس سے زائد جواں سال کشمیری دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوچکے ہیں۔ 5اگست 2018 کے اقدامات کے بعد کشمیریوں میں عدم تحفظ اور بیچارگی کا احساس تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔ بدلتے ہوئے سیاسی حالات اور اس سے جڑی نت نئی قدغنوں کی وجہ سے عام لوگوں کی مشکلات میں جس قدر اضافہ ہوا ہے اس کا احاطہ لفظوں میں کرنا شاید میرے لئے ممکن نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے سنجیدہ طبقے اور خاص کر نوجوان ڈپریشن اور اس سے جڑے طرح طرح کے نفسیاتی دباؤ اور مسائل کا شکار ہورہے ہیں۔ گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے سے میں کشمیر سے باہر مقیم ہوں مگر اس دوران وہاں پر میرے حلقہ احباب اور جان پہچان والوں میں لگ بھگ ایک درجن افراد جن میں زیادہ تر نوجوان شامل ہیں، دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے ہیں۔ ان میں میرے ایک قریبی دوست کے جواں سال بھتیجے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زیر تعلیم ایک اسکالر، ایک استاد کے علاوہ ہماری ہمسائیگی میں رہنے والی ایک نو بیاہتا خاتون کے شوہر بھی شامل ہیں جو شادی کے صرف دو ہفتوں بعد دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے۔

کشمیر میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کے مطابق گزشتہ دو سال کے دوران کشمیری نوجوانوں میں دل کا دورہ پڑنے سے ہلاکتوں میں بےانتہا اضافہ ہوا ہے۔ کچھ رپورٹوں میں تو یہاں تک بتایا جاتا ہے کہ ہلاکتوں میں یہ اضافہ شاید پچاس فیصد تک ہوا ہو۔ ماہرین کے مطابق ڈپریشن اور لمبے عرصے تک ایک ہی جگہ بیٹھے رہنا اس کی بڑی وجوہات میں شامل ہے۔ کشمیر میں لمبے عرصے تک کرفیو کے نفاذ اور پابندیوں کی وجہ سے لوگ عموماً اپنے گھروں یا مقامی علاقوں تک ہی محدود رہتے ہیں۔ نا گفتہ بہ سیاسی حالات کے باعث ڈپریشن میں مزید اضافہ ہونے کی وجہ سے بظاہر خوش و خرم زندگی گزارنے والے لوگ اچانک ہارٹ اٹیک سے زندگی ہار جاتے ہیں۔ یہی کچھ ہمارے دوست نیاز احمد کے ساتھ ہوا۔ ﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائےاور ان کی اُخروی منزلوں کو آسان فرمائے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق گاندربل علاقے کے عبد الصمد کھانڈے دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہو گئے۔ جب ان کی لاش گھر پہنچی تو ان کی چھوٹی بہن راجہ بانو سے یہ منظر دیکھا نہ گیا اور وہ بھی دل کے دورے سے چل بسیں۔

تازہ ترین