علم جغرافیہ کا سب سے پہلا اور بنیادی فلسفہ (Paradigm) ہے، اس نظریہ کے مطابق انسان قدرتی ماحول کے تابع ہے بلکہ کچھ جغرافیہ دان اس نظریہ کو) (Environmental Determinisیا ماحولیاتی جبرکا نام بھی دیتے ہیں۔ اس نظریہ کے بانی اور حامی جغرافیہ دانوں کے مطابق انسان نہ صرف قدرتی ماحول یا زمین کی Productہے بلکہ Environment ہی اس کی پرورش کرتا ہے‘ اس کے سامنے مشکلات رکھتا ہے اور ان مشکلات کے ممکنہ حل سرگوشی کی شکل میں بتاتا ہے۔ آپ اس نظریہ کو کچھ سادہ اور دلچسپ مثالوں سے سمجھ سکتے ہیں۔ ہماری زندگی میں استعمال ہونے والے مختلف رنگوں کا سبق انسان نے قدرت سے سیکھا، آئینہ بنانے کا خیال انسان کو پانی میں اپنا عکس دیکھ کر ہی آیا تھا۔ اسی طرح اسے ہوا میں اڑنے کا خیال بھی پرندوں کو دیکھ کر ہی آیا۔روس کے ایک بادشاہ کا فقرہ بہت مشہور ہے کہ ’’میرے دو جرنیل ایسے ہیں جن کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔‘‘ جنرل جنوری اورجنرل فروری کا بجا ماننا تھا کہ ان دو سرد ترین مہینوں میں کوئی بھی اس کے ملک پر حملہ کرنے کا نہیں سوچ سکتا۔ ایک مغربی مفکر McKinder نے ایک نظریہ پیش کرتے ہوئے مشرقی اور درمیانی یورپ کے میدانی علاقوں کی اہمیت بیان کی۔ اس کے مطابق جو ان میدانی علاقوں پر قابض ہو گا اسکا یورپ پر قبضہ ہو گا اور اسی کا یورپ اور ایشیا ( Eurasia) پر قبضہ ہو گا.اور یوں اس کا قبضہ پوری دنیا پر ہو گا۔ اسی طرح دورِ حاضر کی دو مشہور کتابیں Revenge of Geography اور Prisoners of Geography دنیا کے مختلف ممالک کے محل وقوع ،قدرتی خدو خال (پہاڑ، میدان، صحرا وغیرہ( موسمی حالات اور قدرتی وسائل وغیرہ کی اہمیت کو بیان کرتی ہیں۔
مڈل ایسٹ کے ممالک 1920کی دہائی سے پہلے پسماندہ ترین علاقوں میں شمار ہوتے تھے مگر تیل کی دریافت نے اس علاقے کو دنیا کا امیر ترین علاقہ بنا دیا۔ تیل کی دریافت کو اس علاقے کے لئے Geological Lotteryکا نام دیا گیا۔ پوری دنیا میں اس کی اہمیت کی بنا پر تیل کو Liquid Black Goldکا نام دیا گیا مگر ،انسان کی تباہی کے نام پر ترقی کے نتیجے میں قدرت کا ایک ایسا انتقام سامنے آیا کہ پانی جیسی بنیادی ترین چیز ناپید ہوئی یا ناقص شکل میں میسر ہے۔ اس بحران کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اب بین الاقوامی سطح پر پانی کی تجارت شروع ہو چکی ہے۔ جس طرح تیل کے معیار کے مطابق اسے ڈیزل، پٹرول اور ہائی اوکٹین کے ناموں سے جانا جاتا ہے۔ اسی طرح اب پانی کے معیار کے مطابق اس کی تجارت ہو رہی ہے۔ عین ممکن ہے مستقبل میں صاف پانی ایک سوغات کے طور پر ایک علاقے سے دوسری جگہ بھیجا جائے۔
ان تمام مصیبتوں کی جڑ حضرت انسان کی جانب سے Mother Earth کو دیئے جانے والے وہ دکھ ہیں جو اس نے ترقی کے نام پر تباہی کی شکل میں دیئے ہیں۔ اس میں آبادی کا بے ہنگم اور خاموش بم ہے جو بتدریج نا قابل تلافی تباہی لایا ہے۔اب بات اس صدی کی ایک ایسی عالمی آفت کی ،جو قدرتی ہے یا انسانی، مگر اس کا حل قدرت کے مطابق اور قدرت کے قریب ہونے میں ہے۔ اس آفت نے پوری دنیا کو نہ صرف لپیٹ میں لیا ہوا ہے بلکہ لپیٹ کر رکھ دیا ہے۔ ٹیکنالوجی، معدنی وسائل، معاشی و عسکری طاقت اور طرز حکومت کی جگہ ایک طرف صاف پانی، ہوا اور دھوپ نے لے لی ہے تو دوسری طرف سادہ اور قدرتی طرز زندگی ہی بچائو کا واحد رستہ ہے۔ صاف پانی کے ساتھ قدرتی غذا (Organic Food) ،قدرتی طرز کی زندگی سے مراد زندگی کو جنگی جنون اور طوفانی رفتار کی بجائے ایک چہل قدمی کی طرح بسر کرنا ہے۔ اس تناظر میں اہم ترین بات سورج کی روشنی اور تپش کی ہے جو وٹامن ڈی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ا س معاملے میںیورپی ممالک کو ایک بھیانک کمی کا سامناہے۔ اسی طرح باہمی تعلقات میں میل جول کو مفادات کی بجائے بے غرضی کی طرف مائل کرنا پڑے گا کیونکہ دکھ بانٹنے والی زندگی سے ہی Feel Good Factor حاصل ہوتا ہے جو اس بیماری کے خلاف قوت مدافعت (Immunity) میسر ہونے یا بڑھانے کا ذریعہ ہے۔دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک کمزور خاندانی نظام اور غرض سے غرض رکھنے کی وجہ سے افراتفری ،اضطراب اور ہیجانی کیفیت کا شکار نظر آتے ہیں۔ان ممالک میں اس وائرس کے علاوہ زیادہ شراب نوشی اور خود کشی کی وجہ سے اموات ہو رہی ہیں۔ شروع میں ذکر ہوا تھا کہ قدرت انسان کے مسائل کے حل کے لئے سرگوشی (Whisper) کرتی ہے مگر اب Mother Earth نے خطرے کی Whistle بجا دی ہے اور اس سرگوشی کی بازگشت ہر سو سنائی دے رہی ہے۔ یہی عالمی جنگ یا نیا ورلڈ آرڈر ہے اور یہی قدرت کا فیصلہ کن انتقام Revenge of Geography ہے۔