• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگرچہ کملا دیوی ہیرس کا پہلی خاتون امریکی نائب صدر بننا امریکی تاریخ کا ایک خوش آئند واقعہ قرار دیا جا رہا ہے لیکن تاریخ کا ایک اور سچ بھی ہے کہ امریکہ کی پانچ سو سالہ تاریخ اور 1788 کو پہلے امریکی الیکشن کے نتیجہ میں جارج واشنگٹن کے صدر بننے کے تقریباً 120سال بعد تک امریکہ میں عورت کی حیثیت ایک غلام سے زیادہ نہیں تھی۔ آج کی جدید دنیا میں ترقی اور بنیادی انسانی آزادیوں اور حقوق کے تمام دھارے برطانیہ یا امریکہ سے ہی پھوٹتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان ملکوں میں عورت کی آزادیوں کی تاریخ کو ابھی 100سال سے زیادہ عرصہ نہیں گزرا مثلاً امریکہ میں 1920 اور برطانیہ میں 1918سے پہلے عورت کو انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق نہیں تھا، وہ مردوں کی طرح پینٹ نہیں پہن سکتی تھی۔ مرد گھروں اور باہر جہاں چاہے سگریٹ پی سکتے تھے لیکن عورت کے گھر سے باہر سگریٹ پینے پر سخت پابندی تھی۔ آج کی مہذب دنیا میں عورت کو حق حاصل ہے کہ وہ بچہ پیدا کرے یا ابارشن کروا لے لیکن امریکہ میں 1960 سے پہلے عورت کو یہ حق حاصل نہیں تھا بلکہ اسے اس سلسلہ میں معلومات تک رسائی تک نہیں تھی۔ 1916میں ایک امریکی عورت مارگریٹ سپنجر نے پہلا برتھ کنٹرول کلینک قائم کیا تو اسے اگلے ہی روز گرفتار کرکے کلینک بند کردیا گیا۔ 1949تک امریکی عورت کو طلاق لینے کا اختیار نہیں تھا۔ عورت ملکی افواج میں نرسنگ کا کردار تو ادا کرسکتی تھی لیکن باقاعدہ فوج میں بھرتی نہیں ہو سکتی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران 1942 میں عورت کو یہ حق ملنا شروع ہوا۔ آج عورت اپنا خاندانی نام شادی کے بعد بھی رکھ سکتی ہےلیکن 100سال پہلے ایسا نہیں تھا اگر عورت اپنے شوہر کا نام اپنے نام کے ساتھ نہیں لگاتی تھی تو قانون میں اس کی سخت سزا تھی امریکہ کی ریاست ہوائی وہ آخری اسٹیٹ تھی جس نے 1976 میں یہ قانون ختم کیا اور کہا کہ یہ عورت کی مرضی ہے وہ جوبھی نام رکھے۔ سو سال پہلے تک امریکی عورت شاد ی کے بعد ذاتی جائیداد کا حق نہیں رکھتی تھی بلکہ جو کچھ جائیداد یا پیسہ عورت کے پاس ہوتا، قطع نظر اس کے کہ وہ کیسے اور کہاں سے آیا‘ وہ سب شوہر کا ہوتا تھا۔ 1922 تک یہی قانون تھا۔

19ویں صدی کے شروع تک عورت کو قانون اجازت نہیں دیتا تھا کہ وہ اکیلی شاپنگ کرسکے‘ جب تک اس کے ساتھ کوئی مرد نہ ہو، وہ تھیٹر یا فلم بھی اکیلی نہیں دیکھ سکتی تھی، عورت کے ساتھ ابھی پچاس سال پہلے تک امریکہ، برطانیہ میں امتیازی سلوک ہوتا تھا، ملازمت کی جگہوں پر انہیں مردوں کے برابر کام اور تنخواہ نہیں دی جاتی تھی، وہ حاملہ ہو جاتیں تو ملازمت سے نکال دیا جاتا۔ 1977تک حالت یہ تھی کہ عورت کام کی جگہوں پر جنسی زیادتی کا نشانہ بننے کے بعد کیس تک نہیں کر سکتی تھی۔ ابھی کل کی بات ہے 1993تک امریکی عورت اپنے شوہر کو کسی بھی بات یا کام کے لئے انکار نہیں کر سکتی تھی۔ 1980تک امریکی عورت ایتھلیٹک شوز تک نہیں خرید سکتی تھی۔ 1879تک امریکی عورت عدالت میں جیوری کی رکن نہیں بن سکتی تھی پھر 1918 میں یہ تحریک شروع ہوئی اور 1961 میں یہ قانون پوری طرح نافذ ہوگیا کہ عورت جیوری میں بیٹھ سکتی ہے۔ 1900 تک عورت اولمپکس گیمزمیں حصہ نہیں سکتی تھی، 1920 تک عورت شادی کے بعد اپنا پاسپورٹ تک نہیں رکھ سکتی تھی اسے شوہر کے پاسپورٹ میں ہی ایڈ کردیا جاتا تھا تاکہ وہ شوہر کے بغیر سفر نہ کرسکے۔ 1937میں پہلی دفعہ یہ قانون تبدیل ہوا۔ ابھی پچاس سال پہلے تک عورت اپنا کریڈٹ کار ڈ نہیں لے سکتی تھی۔ برطانیہ میں بھی 1975سے قبل عورت اپنا ذاتی بینک اکائونٹ نہیں کھلوا سکتی تھی، یہاں 1918میں اسے ووٹ کا حق ملا بھی تو سخت شرائط کے ساتھ کہ عورت کی عمر 30سال ہو، اس کے پاس اس قدر جائیداد ہو اور اس کی تعلیم اتنی ہو تو ہی وہ ووٹ کاسٹ کرنے کی اہل ہوسکتی ہے۔ افسوس کہ پاکستان کے بعض قبائل میں 21ویں صدی میں بھی یہی کچھ روایات جاری ہیں۔

قرون وسطیٰ کے تاریک پُرجہل دور میں یورپ کے کلیسا اور مردوں کے پُراثر معاشرے نے عورت کو دبائو میں رکھنے کا بڑا آسان حل نکالا تھا وہ ہر خودمختار، پراعتماد اور ذہین عورت کو جادو گرنی مشہور کر دیتے، بس یہی الزام کافی ہوتا تھا چنانچہ پھر انسان نما بھیڑیوں کا ہجوم الزام زدہ عورت کے پائوں کے ساتھ بھاری پتھر باندھ کر دریا میں پھینک دیتا، اس کا سرقلم کر دیا جاتا یا اسے پھانسی چڑھا دیا جاتا، اگر کوئی عورت پانی میں ابھر آتی تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ مجرم ہے چنانچہ اسے دریا سے نکال کر زندہ جلا دیا جاتا لیکن اگر وہ پانی میں ڈوب کر مر جاتی تو اس کا مطلب ہوتا کہ وہ بےقصور تھی، پھر پادری اس کے لئے خصوصی دعا فرماتے تھے۔ برصغیر اور تیسری دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی عورت کی مصیبتیں کچھ کم نہیں بلکہ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ایسی ہی تھیں۔ ہمارے ہاں یہ صورت حال قدرے مختلف تھی کہ یہاں کسی بھی خود اعتماد، ذہین یا سر اٹھا کر چلنے والی عورت کو ’’بدکردار‘‘ کا لقب دے دیا جاتا جس کے بعد معاشرہ اس سے وہ سلوک کرتا کہ پائوں میں پتھر باندھ کر دریا برد ہونا اور ایک ہی دفعہ مر نا اسے ہزار درجے بہتر محسوس ہونے لگتا۔ چنانچہ عورت کے ساتھ یہ سب امتیازی سلوک اس لئے ہوتا تھا کہ اس کی ذہنی صلاحیت مردسے کم تر ہے لیکن سائنس نے وقت گزرنے کے ساتھ یہ ثابت کیا کہ عورت اور مرد کی ذہنی قابلیت میں کوئی فرق نہیں۔ مرد کی طرح عورت بھی ایک ہی دفعہ پیدا ہوتی ہے اس لئے اسے بھی اپنی مرضی سے جینے کا حق مرد کے برابر ہے۔ اب یہ ایک طویل بحث ہے کہ کیا برسوں کی محکومی کے بعد مغربی دنیا میں عورت کو بہت زیادہ حقوق تو نہیں دے دیے گئے؟

تازہ ترین