• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ رب العزت نے ہمیں بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے اور اُن ہی میں سے ایک نعمت، بڑی بہن ہونے کا اعزاز ہے۔ ہم جب سے اس منصب پرفائز ہیں، اللہ بڑے بول سے بچائے، نادر و نایاب تو نہیں، البتہ بے شمار دل چسپ واقعات کے چشم دید گواہ ہیں اور اگر کبھی قسمت سے ان واقعات میں دل چسپی لینے میں چشم نے کوتاہی برتی، تو پھر عزت افزائی کی ایسی ایسی مثالیں رقم ہوئیں، جو اپنی مثال آپ ہیں۔ اس ضمن میں سب سے پہلے تذکرہ ہوجائے ہماری ’’آپو‘‘ یعنی چھوٹی بہن صاحبہ کا۔ جنہوں نے اپنی شِیرخوارگی سے لے کر اب تک ہماری اور ہماری بڑی بہن صاحبہ کی، والدہ ماجدہ سے کلاس لگوانے کی ذمّے داری بڑی خوش اسلوبی سے انجام دی ہے۔ اکثر اوقات اپنی سیمابی طبیعت کےباعث کئی بار ناقابلِ تسخیر مہم سر کرتے ہوئے خود کو زخمی بھی کرچکی ہیں۔ ایسی ہی ایک مہم کے دوران محترمہ آپو اپنے کچھ ’’قیمتی لوازمات‘‘ کے ساتھ جو کہ ہیئربرش، پونیز اور کلپس پر مشتمل تھے، ایک میز پر چڑھنے کی سعی کررہی تھیں۔ 

معلوم نہیں اس لرزتی میز میں دل چسپی کا ایسا کون سا سامان پوشیدہ تھا، جسے وہ دنیا کے سامنے لانا چاہ رہی تھیں۔ وہ میز ان محترمہ کے قد سے خاصی اونچی تھی، غالباً انہیں یہ عظیم خیال گزرا ہو کہ کیوں نہ اس کی چوٹی سر کی جائے۔ بہرحال، ان کا جو بھی ارادہ یا نیّت رہی ہو، لیکن جب عمل کے جواب میں ردِعمل سامنے آیا، تو حالات و واقعات کچھ یوں شکل اختیار کرگئے کہ محترمہ میز سمیت دھڑام سے فرش نشین ہوگئیں۔ قیمتی لوازمات بھی بکھر کر فرش کی زینت بن گئے۔ البتہ پونیز کا ایک گچھا ان کے کان میں اٹک کر باغ میں لگے جھولے کی مانند جھولنے لگا، جب کہ خود وہ بھی کافی مدھرآواز میں نغمہ سرا ہوگئیں۔ اس کے بعد جو تعریفی کلمات ہمارے حصّے میں آئے، ان کا ذکر پھر کبھی، فی الحال تو ذکر ہوجائے چھوٹے بھائی صاحبان کا، جن کی کوششوں کے باعث تعریفی سیشنز کو اٹینڈ کرنے والے معصوم افراد میں ایک اضافہ آپو کی صورت میں ہوا ہے، کیوں کہ وہ بھی تو ماشاء اللہ دو بھائیوں سے بڑی ہیں۔ 

آخر کچھ حق تو اُن کا بھی بنتا ہے، جب کبھی تعریف کا رُخ اُن کی جانب ہوتا، تو ہم شرارتاً دریافت کرتے کہ ’’کہو کیسا لگتا ہے بڑی بہن ہونا؟‘‘ ویسے ہمارا اب تک کا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ان کلاسز یا سیشنز میں کچھ جملے ایسے ہوتے ہیں، جو سدا ایک سے ہی رہتے ہیں۔ مثلاً ’’آپ لوگ کہاں تھے؟‘‘ ’’کوئی دیکھ نہیں سکتا تھا، ان کو؟‘‘ (پھر جواب بھی خود ہی دے دیا جاتا) ’’جی بالکل کیوں دیکھتے؟ دیکھنے کو بھی تو فرصت درکار ہوتی ہے اور فرصت ہی تو نہیں ہے ان کے پاس.....‘‘ علاوہ ازیں، موقعے کی مناسبت سے جو بھی الفاظ موزوں محسوس ہوتے، ان کے استعمال میں قطعاً کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی۔ ان سب کے باوجود اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ گھر میں رونق بھی ان ہی ننّھے فرشتوں کی شرارتوں سے رہتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اُن کی شرارتوں کے نتیجے میں جو تعریفی کلاسز کا انعقاد کیا جاتا، ان کے ذریعے خود میں موجود اَن دیکھی خصوصیات کا ہر بار نئے سرے سے انکشاف ہوتا رہتا۔ 

کبھی چھوٹے بہن بھائیوں کی معصومیت سے کہی ہوئی کسی بات کو پکڑ کر انہیں تنگ کرنے کا بھی اپنا ہی لُطف ہے، جیسے ہماری آپو نے جب پہلی بار سودے کی لسٹ ترتیب دی، تو الفاظ کا چناؤ کچھ اس انداز میں کیا کہ ’’کُٹی سرخ مرچ، لال رنگ کی‘‘ بس جی وہ دن ہے اور آج کا دن، جب کبھی ہم لسٹ بنارہے ہوتے ہیں، تو اُن سے ضرور پوچھ لیتے ہیں، ’’جی بتاؤ ’’کُٹی سرخ مرچ، لال رنگ کی۔‘‘ بھی لکھ ڈالیں سودے میں؟‘‘ اُن سے چھوٹے بھیّا کے حوالے سے بات کی جائے، تو وہ محترم جب کسی کو کسی ایسے کام کو تکمیل تک پہنچانے کا کہیں، جس کا آغاز تک کرنے کا کسی کا دل نہ چاہے، تو وہ اس جملے کی گردان شروع کردیتے ہیں کہ ’’کردیں گے ناں؟ کردیں گے؟‘‘ ساتھ میں مزید تنگ کرنے کو قہقہے بھی لگاتے جاتے ہیں، تاوقتیکہ حاضر سرِتسلیم خم نہ کردے، تو اب جب کبھی ان محترم کا کسی کام کو ہاتھ تک لگانے کا چنداں ارادہ نہ ہو، تب ہم ان ہی کی مرتّب کردہ گردان کو استعمال کرتے ہوئے ان ہی کو ستانے کی کام یاب کوشش کرتے ہیں۔ 

رہی بات سب سے چھوٹے اور لاڈلے بھیّا کی، تو ان حضرت کو بامحاورہ گفتگو کا اس قدر شوق ہے کہ موقع محل کی پروا کیے بغیر کسی بھی محاورے کا استعمال ان کے نزدیک ناگزیر ٹھہرتا ہے۔ ایک بار بڑے جوش میں یوں گویا ہوئے ’’یہ تو وہی بات ہوگئی کہ تولیے کی بلا بندر کے سر‘‘ (طویلے کی بلا بندر کے سر)۔ ظاہر ہے اس محاورے کی بے توقیری کے بعد ہمارے پاس سوائے سر دُھننے کے اور کیا رہ جاتا، لیکن اس کے باوجود ہم اُن کی یادداشت کا امتحان لینے کو کبھی پوچھ لیتے ہیں کہ ’’سُنا ہے تولیے کی بلا نامی بھی کوئی مخلوق پائی جاتی ہے، کہو بھئی ایسا ہی ہے ناں؟‘‘ 

بہرحال، یہ ایک علٰیحدہ بحث ہے کہ ہماری ذاتی رائے کے مطابق گھر میں ہونے والی خاص بے عزتیوں کے عام ذمّے دار چھوٹے بہن بھائی ہوتے ہیں، لیکن اس حقیقت سے بھی کسی طور انکار ممکن نہیں کہ جب یہ تینوں چند روز کے لیے گھر سے کہیں دُور چلے جائیں، تو دل اُداس ہوجاتا ہے، خواہ جدید ٹیکنالوجی، موبائل فون وغیرہ کی مدد سے رابطے میں ہی کیوں نہ رہیں۔ تب ہی ہم کہتے ہیں، ’’الحمدلله ہم بڑی بہن ہونے کے منصب پر فائز ہیں۔‘‘ (صائبہ مشام مصطفیٰ، گیلان آباد، ملیر، کراچی)

تازہ ترین