• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت میں کسانوں کا شور، پاکستان میں براڈشیٹ کا ہنگامہ

اِس بار بھارت کا’’یومِ جمہوریہ‘‘ کسانوں کے پُرتشدّد مظاہرے کے سبب’’ یومِ سیاہ‘‘ میں بدل گیا۔ نیز، اِس واقعے سے دنیا کو یہ بھی پتا چل گیا کہ نریندر مودی کی حکومت بھارت میں کتنی مقبول ہے۔ وہاں معاشرے کے مختلف طبقات میں بے چینی اِس حد تک بڑھ چُکی ہے کہ حکومت کے لیے ایک سرکاری تہوار، یعنی یومِ جمہوریہ بھی یک سوئی سے منانا ممکن نہیں رہا۔ 

دارالحکومت دہلی میں روایتی فوجی پریڈ کے بالکل قریب پُرتشدد مظاہرے ہوئے‘ یہ تقریب بھارتی ثقافت کے مختلف رنگ اور فوجی قوّت کے اظہار کے لیے بڑے دھوم دھام سے منعقد کی جاتی ہے‘ مگر اِس بار دنیا کو کچھ اور ہی پیغام گیا۔ بھارتی وزیرِ اعظم لال قلعے سے قوم سے مخاطب نہ ہو سکے‘ جو اِس دن کی ایک خاص روایت ہے‘ کیوں کہ مظاہرین نے قلعے کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ بہت سے سِکھ مظاہرین تمام تر رکاوٹیں توڑتے ہوئے قلعے کے اندر داخل ہو گئے اور وہاں ایک نمایاں مقام پر اپنا پرچم بھی لہرا دیا۔ 

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ 55 سال میں یہ پہلا موقع تھا، جب کسی غیر مُلکی مہمان نے پریڈ میں شرکت نہیں کی۔ بھارتی پنجاب‘ خاص طور پر ہریانہ سے تعلق رکھنے والے کسان دو ماہ سے نئی زرعی پالیسی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ اُنہیں مُلک کے دیگر علاقوں اور طبقات کی بھی حمایت حاصل ہوتی جارہی ہے۔ مظاہرین کی نمایندہ تنظیم ’’کسان مورچہ‘‘ نے 72ویں یومِ جمہوریہ کے موقعے پر ایک سو کلومیٹر طویل ٹریکٹر ریلی نکالنے کا اعلان کیا تھا‘جس کی منزل دہلی تھی۔ اس اعلان پر پنجاب‘ ہریانہ‘ اتر پردیش اور دیگر ریاستوں کے کسان ہزاروں ٹریکرز لے کر دہلی کی طرف چل پڑے اور پھر راستوں میں لگائی گئی تمام رکاوٹیں توڑتے ہوئے نہ صرف دارالحکومت، بلکہ حسّاس ترین مقام، لال قلعے تک بھی پہنچنے میں کام یاب ہو گئے‘ جہاں سخت سیکیوریٹی حصار میں فوجی پریڈ ہو رہی تھی۔ 

پولیس اور دیگر سیکیوریٹی اداروں کے ہزاروں اہل کاروں نے سِکھ مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی‘ جس کے دَوران بدترین لاٹھی چارج‘ آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا گیا، مگر مشتعل کسانوں نے پولیس اہل کاروں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ ان ہنگاموں میں ہلاکتوں اور زخمیوں کے حوالے سے متضاد اطلاعات گردش کرتی رہیں۔ نئی دہلی میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطّل رہی‘ جب کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کو وقت سے پہلے ہی سخت سیکیوریٹی میں گھر پہنچا دیا گیا۔ 

گو کہ شام تک صُورتِ حال پر قابو پالیا گیا اور مظاہرین مذاکرات کے نتیجے میں پیچھے ہٹ گئے‘ تاہم کسانوں کی احتجاجی تحریک جاری ہے‘ جس میں ان کی خواتین اور بچّے بھی شریک ہیں۔ لال قلعے پر یوں پرچم لہرانا بھی ایک اہم واقعہ تھا‘ جو مقامی اور غیر مُلکی میڈیا پر چھایا رہا۔ بھارت میں کئی تجزیہ نگاروں نے اسے ریاست کی ناکامی قرار دیا۔ حزبِ اختلاف کے رہنما، راہول گاندھی نے ہنگاموں کی مذمّت کرتے ہوئے حکومت کو تشدّد سے باز رہنے اور متنازع قوانین واپس لینے کا مطالبہ کیا۔

مودی حکومت نے زرعی اجناس کی فروخت‘ قیمتوں کے تعیّن اور فصلوں کی ذخیرہ اندوزی سے متعلق کچھ زرعی اصلاحات متعارف کروائی ہیں۔ حکومت کے مطابق، ان قوانین کا مقصد آزاد منڈیوں کو تحفّظ دینا ہے۔ نئے قوانین کے تحت عام خریداروں کو بھی اجازت ہوگی کہ وہ کسانوں سے اُن کی پیداوار براہِ راست خرید کر ذخیرہ کر لیں اور بعد میں فروخت کر دیں۔ جب کہ پرانے طریقۂ کار کے تحت صرف حکومتی ایجینٹس ہی فصلوں کی خریداری اور اُنھیں ذخیرہ کر سکتے تھے۔ 

حکومت کا خیال ہے کہ ان اصلاحات سے کسان اپنی فصلوں کو منڈی کی قیمت پر عام افراد کو بیچ سکیں گے۔ اِس وقت زیادہ تر کسان حکومت کی طے شدہ قیمت ہی پر اپنی پیداور فروخت کرتے ہیں۔ بظاہر نئی قانون سازی سے کسان روایتی منڈیوں سے آزاد ہوجائیں گے‘ لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں کہ ان قوانین پر عمل در آمد کا طریقۂ کار کیا ہوگا؟ یہی ابہام احتجاج کی بنیاد ہے۔ 

کسانوں کا کہنا ہے کہ نئے طریقۂ کار سے آڑھت یعنی مِڈل مین کی منڈیاں ختم ہوجائیں گی اور اگر عام خریدار اُنہیں مناسب قیمت ادا نہیں کرتے، تو اُن کے پاس اپنی پیداوار منڈی میں فروخت کرنے کے راستے بند ہوجائیں گے۔ علاوہ ازیں، وہ زیادہ قیمت کے حصول کے لیے سودے بازی بھی نہیں کر سکیں گے۔ حکومت کسانوں کو یقین دہانی کروا رہی ہے کہ منڈیوں کا نظام ختم نہیں کیا جارہا، مگر کسانوں کو حکومت پر اعتبار نہیں۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ تک بھی گیا‘ جس نے نئے قوانین پر عمل درآمد روک کر حکومت اور ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی بنادی‘ جو کسانوں سے بات چیت کر رہی ہے‘ لیکن کسان تمام قوانین واپس لینے کے مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ 

ایک خیال یہ بھی ہے کہ مودی حکومت نے ایک منصوبے کے تحت کسانوں کو دہلی تک آنے دیا کہ پُرتشدّد مظاہروں کو بنیاد بنا کر اُن کی تحریک کچلی جاسکے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں کسان تحریک ہمیشہ سے مضبوط رہی ہے اور طاقت کے بل بُوتے پر تحریک کچلنے کے نتائج انتہائی سنگین ہوں گے۔ 32 سال قبل شمالی بھارت میں گنّے کے تنازعے پر کسانوں نے ایک بڑی تحریک چلائی تھی اور وہ دلّی بھی پہنچ گئے تھے۔

اگر پاکستان کی بات کریں، تو یہاں چند ہفتوں سے سب سے زیادہ زیرِ بحث رہنے والا معاملہ، براڈ شیٹ اسکینڈل ہے۔ حکومت‘ اپوزیشن‘ میڈیا غرض ہر جگہ گفتگو کا یہی موضوع ہے۔ ظاہر ہے، ایسا ہونا ہی تھا‘ کیوں کہ قوم کو اچانک پتا چلا کہ براڈ شیٹ نامی کمپنی کو لاکھوں ڈالرز ادا کیے گئے ہیں اور وہ بھی اس لیے کہ اُس نے وہ کام نہیں کیا‘ جو اُسے سپرد کیا گیا تھا۔ 2001ء میں جنرل پرویز مشرف کے دَورِ حکومت میں براڈ شیٹ سے سیاست دانوں‘ خاص طور پر میاں نواز شریف کے غیر مُلکی اثاثوں کا کھوج لگانے کا معاہدہ کیا گیا تھا۔ 2003ء میں اچانک یہ معاہدہ ختم کر دیا گیا‘ جس پر کمپنی نے نیب کے خلاف برطانوی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ اس معاہدے کی ایک شق کے مطابق کمپنی جن اثاثوں کا کھوج لگائے گی‘ اُس کا 25 فی صد حصّہ اُسے ملے گا۔ یہ بات تو کسی حد تک مناسب تھی‘ مگر حیران کُن شق یہ تھی کہ اگر نیب خود کسی اثاثے کا سراغ لگائے، جس میں کمپنی کا کوئی کردار نہ ہو‘ تب بھی اُسے کمیشن دیا جائے گا۔ 

سماعت کے دَوران نیب اور کمپنی کے درمیان بات چیت ہوتی رہی، مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا اور پھر عدالت نے نیب پر بھاری جرمانہ کر دیا اور یہ رقم پاکستانی سفارت خانے کے بینک اکائونٹ سے کاٹ کر کمپنی کو ادا کر دی گئی۔ لازمی اَمر ہے کہ قوم پر یہ خبر بجلی بن کر گری۔ کِک بیکس اور غلط ادائیوں کے الزامات کا سلسلہ شروع ہو گیا‘ جس نے قومی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا۔ جب بات زیادہ بڑھی، تو حکومت نے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج، جسٹس عظمت سعید پر مشتمل ایک رُکنی تحقیقاتی کمیشن قائم کردیا، تاہم اپوزیشن نے مختلف تحفّظات کا اظہار کرتے ہوئے اُن کی تقرّری مسترد کر دی۔ 

یہ کوئی پہلا موقع نہیں‘ جب پاکستان کو کسی بیرونی عدالت کے فیصلے پر جرمانہ ادا کرنا پڑا ہو۔ گزشتہ برس بین الاقوامی ثالثی عدالت نے ریکوڈک تنازعے پر ٹیتھیان کمپنی کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے پاکستان پر ساڑھے پانچ ارب ڈالرز سے زاید کا جرمانہ کیا۔ گو کہ پاکستان اس فیصلے پر حکمِ امتناعی لینے میں کام یاب رہا‘ لیکن اِس معاملے کا ایک خطرناک پہلو یہ ہے کہ ٹیتھیان کمپنی نے ورجن آئی لینڈ کی عدالت میں جرمانے کے ساتھ پی آئی اے کے روز ویلٹ ہوٹل اور پیرس میں واقع ہوٹل سکرائب منسلک کرنے کی درخواست دی ہے۔ غالباً وہ بھی براڈ شیٹ اور ملائیشیا میں پی آئی اے کے طیارے کو روک کر وصولی کا طریقۂ کار اپنا رہی ہے۔

یہ ایک حیران کُن اَمر ہے کہ حکومت مختلف ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے کشکول اُٹھائے پِھرتی ہے اور جب وہاں سے کچھ امداد یا قرض مل جاتا ہے‘ تو وہ رقم جرمانوں کی ادائی میں لُٹا دی جاتی ہے۔ یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ آخر ہماری حکومتیں ایسے معاہدے کرتی ہی کیوں ہیں‘ جن کی وہ پاس داری نہیں کر سکتیں؟ ریکوڈک اور براڈ شیٹ جیسے معاہدوں میں قیمتی زرِمبادلہ ہی ضائع نہیں ہوا‘ مُلکی نیک نامی اور ساکھ بھی بُری طرح متاثر ہوئی۔ عالمی سطح پر یہ پیغام گیا ہے کہ یہ مُلک کمپنیز سے معاہدے تو کرتا ہے‘ مگر اُنہیں پورا نہیں کرتا۔ ان حالات میں کون سا مُلک یا کمپنی پاکستان سے معاہدے کا رسک لے گی؟ 

ان کیسز کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ایک طرف مُلک پر جرمانہ ہوا اور دوسری طرف، وکلاء کی فیسز کی مَد میں بھی کروڑوں ڈالرز خرچ ہوئے۔ ماضی میں مختلف ممالک اور کمپنیز سے شان دار معاہدے ہوئے‘ جن کے نتیجے میں روزگار اور ترقّی کے نئے دروازے کُھلے۔ تربیلا ڈیم‘ موٹر ویز اور گیس منصوبے اس کی نمایاں مثالیں ہیں‘ پھر ایسا کیا ہوا کہ معاہدے صرف جرمانے بَھرنے ہی کے لیے کیے جانے لگے؟ اور وہ بھی کروڑوں ڈالرز میں؟ غور کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ اِس طرح کے معاملات اندرونِ مُلک تو کسی نہ کسی طرح لپیٹ دئیے جاتے ہیں، گو کہ اب سوشل میڈیا کے فعال ہونے کی وجہ سے ایسا بھی ممکن نہیں رہا، لیکن پھر بھی حکومتیں ان معاملات پر’’ مٹیّ پاؤ‘‘ کا رویّہ ہی اختیار کرتی ہیں۔ 

تاہم، بین الاقوامی معاہدوں پر پورا نہ اُترنا یا جرمانے بَھرتے چلے جانا مُلک کی مالیاتی، تجارتی پالیسیز اور گورنینس کے لیے کسی بھی طرح نیک شگون نہیں۔جب عالمی عدالتوں میں مُلک کے خلاف فیصلے آتے ہوں یا جرمانے عاید ہو رہے ہوں، تو اُس سے کم از کم یہ بات تو ثابت ہو ہی جاتی ہے کہ مُلک میں’’ سب ٹھیک‘‘ نہیں ہے اور یہ بھی کہ حالات حکومتی دعوؤں کے برعکس ہیں۔

اس معاملے کا ایک سیاسی پہلو یہ بھی ہے کہ حکومتی پالیسیز میں تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے بھی مُلک کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک حکومت کوئی پالیسی بناتی ہے اور بعد میں آنے والی حکومت اُسے بدل دیتی ہے، جس کے نتیجے میں کمپنیز اور اداروں کے درمیان بدگمانیاں جنم لیتی ہیں۔کیا یہ ممکن نہیں کہ ہر چیز بدلنے کا کریڈٹ لینے کی بجائے ایک خاص عرصے تک حکومتی پالیسیز میں تسلسل برقرار رکھا جائے؟

تازہ ترین