میں نے یکم جنوری کو اپنے کالم میں استفسار کیا تھا کہ تحریکِ انصاف نے اپنے دور میں پاکستان کے ساتھ کیا کیا ہے؟ میڈیا اور سوشل میڈیا پر ’’محبِ وطن احباب‘‘ نے ہیجان خیز ی تو بہت پیدا کی لیکن عملی طور پر تحریک ِ انصاف عوام کے لئے کچھ نہیں کر سکی۔ اس کے پورے نہ ہونے والے وعدوں کی فہرست بہت طویل ہے جس میں سے کچھ کا یہاں ذکر بر محل ہوگا۔
تحریکِ انصاف کو اکثریتی جماعت قرار دے دیا گیا تو عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیراعظم ہائوس میں نہیں رہیں گے کیوںکہ ایک غریب ملک کے لیڈر ہونے کے ناتے اُنہیں ایک عالیشان گھر میں رہتے ہوئے شرم آئے گی لیکن میرا خیال ہے کہ اب تک موصوف اپنی شرمندگی پرقابو پاچکے ہیں۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وزیراعظم ہائوس کو یونیورسٹی میں بدل دیا جائے گا۔ تاہم اس کی عملی طور پر نوبت نہ آئی۔ نہ ہی فی الحال گورنر ہائوسز کتب خانوں میں تبدیل ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کا دعویٰ تھا کہ کفایت شعاری کو اپناکر اخراجات میں کمی لائی جائے۔ درحقیقت وزیرِ اعظم کے دفتر اور ایوانِ صدر سمیت حکومت کے حالیہ اخراجات میں گزشتہ دو برسوں کے دوران ہونے والی مہنگائی کے تناسب سے بھی زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ وعدہ کیا تھا کہ اُن کی حکومت محصولات دگنا کردے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ بےپناہ مہنگائی کرنے کے باوجود یہ گزشتہ دوبرسوں میں محصولات جمع کرنے کی اس حد تک نہیں پہنچ پائی جو مسلم لیگ ن نے اپنے آخری برس میں جمع کئے تھے۔ مسلم لیگ ن جی ڈی پی کے مطابق ٹیکس کی شرح 11.2فیصد تک لے گئی تھی لیکن اب یہ کم ہوکر 9.3تک پہنچ چکی ہے۔ برآمدات بڑھانے کا وعدہ کیا۔ کرنسی کی قدر میں یک لخت گراوٹ کے بعد امید تھی کہ کم از کم اس شعبے میں تو کامیابی دیکھنے میں آئے گی لیکن حکومت کے پہلے دو برسوں کے دوران برآمدات ن لیگ کے آخری برس سے بہت کم رہیں۔ موجودہ حکومت سابق جمہوری حکومتوں کے قرض لینے کی سخت ناقد رہی۔ آج اس کا گزشتہ دو برسوں کے دوران لیا گیا قرضہ پاکستان کی کل تاریخ میںلئے گئے قرض کا چالیس فیصد ہے۔ اگر ہم اگلے چار برس تک ہر پاکستانی (بشمول تمام گھر، فیکٹریاں، اسپتال، اسکول وغیرہ) کو مفت بجلی، گیس، چینی اور آٹا فراہم کرتے رہیں تو بھی اس پر حکومت کے صرف دو برسوں میں لئے گئے قرض سے کم خرچ آئے گا۔ اس کی وجہ گزشتہ دو برسوں کے دوران پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ خسارہ، اور سود کے نرخوں میں دگنا اضافہ کرنا تھا۔ ایک کروڑ ملازمتیں دینے کا مشہور وعدہ بھی کیاگیا تھا۔ جب سے یہ جماعت اقتدار میں آئی ہے، بےروزگار افراد میں چالیس لاکھ کا اضافہ ہو چکا ہے۔ ایک کروڑ سے زیادہ لوگ بدترین غربت کا شکار ہیں ۔ہمیں بتایا گیا تھا کہ پچاس لاکھ گھر تعمیر کئے جا ئیں گے۔ فی الحال ایک گھر بھی تعمیر نہیں ہوا ہے۔ تحریک انصاف نے مہنگائی کم کرنے کا وعدہ کیا۔ آج پاکستان میں اشیائے خورونوش کی قیمتیں نئے ریکارڈ قائم کررہی ہیں۔ چھوٹے پیمانے پر کاشت کی جانے والی فصلوں، بشمول سبزیوں کی قیمتوں میں یک لخت اضافے کی وجہ حکومت کی وہ پالیسیاں ہیں جن کی وجہ سے چھوٹے کاشت کار کنگال ہوچکے ہیں۔ اُن کی سبزیاںاُگانے کی سکت کم ہوچکی ہے۔ چینی اور گندم کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کی وجہ بدعنوانی ہے۔ ایف آئی اے کی شوگر انکوائری رپورٹ دیکھ کرحکومت کے حامیوں کا دل ٹوٹ جانا چاہئے تھا۔ وہ سوچتے ہوں گے کہ بدعنوانی کے خلاف مہم چلانے والی جماعت کس طرح اقتدار میں آتے ہی طمع کا پیکر بن گئی ہے۔ ادویات کی قیمتوں میں تین سو فیصد تک ہونے والا ظالمانہ اضافہ صرف اس ہی طمع کی وجہ سے ہواہے۔
سول ہوابازی کے شعبے اور پی آئی اے کی ساکھ کو تباہ کرنے میں طمع سے زیادہ نااہلی کا عمل دخل ہے ، وزیر کے دماغ میں کیا سمائی کہ اُنہوں نے پاکستانی پائلٹوں کے بارے میں ایک غلط بیان داغ دیا؟ پی آئی اے کی پروازوں پر اہم ترین ممالک نے پابندی لگادی۔ وزیر موصوف پہلے تو اپنے بیان پر قائم رہے اور پھر اس سے پھر گئے لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ مزید ستم یہ ہوا کہ وزیراعظم کے مشیرِ خاص نے روزویلٹ ہوٹل بند کرنے کا فیصلہ کر لیاہے۔ اب خدشہ ہے کہ پاکستان کے خلاف کیس جیتنے والی ایک کمپنی اس ہوٹل پر قبضہ کرلے گی جس طرح چند دن پہلے پی آئی اے کا ایک طیارہ ملائیشیا میں ضبط کرلیا گیا تھا۔ یاد رہے وزیرِاعظم کسی دبائو پر ملائیشیا نہیں گئے تھے۔ اس پر کھلم کھلا بیان باز ی سے ناراضی میں اضافہ ہوا۔ ہماری حماقت نے بیک وقت دوست ممالک کو ناراض کر لیا۔ گویاہم تمام اسلامی دنیا سے تعلقات بگاڑنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ کراچی میں قومی اسمبلی کی چودہ نشستیں رکھنے والی تحریک انصاف نے کراچی کے لئے 165ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا لیکن اس کے لئے کوئی رقم جاری نہیں کی گئی۔ جب شدید بارشوں کی وجہ سے 2020میں کراچی ڈوبا ہوا تھا تو حکومت نے اس سے بڑا، 1100ارب روپوں کے پیکج کا اعلان کردیا۔ ایک مرتبہ پھر کوئی رقم جاری نہ کی گئی لیکن ماننا پڑے گا کہ پیکج ہینڈسم ہے۔
آخر میں، تحریک انصاف کا بنیادی دعویٰ بدعنوانی کا خاتمہ تھا۔ ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی حالیہ رپورٹ ہمیں بتاتی ہے کہ موجودہ دورِ حکومت میں پاکستان میں بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے۔