• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے حالیہ میٹنگ میں فیصلہ کیا ہے کہ حکومت کے خلاف لانگ مارچ سینٹ کے انتخابات کے بعد کیا جائے گا اور سینٹ کیلئے متفقہ امیدوار لائے جائیں گے، پی ڈی ایم کے اس فیصلے سے اپوزیشن اتحاد کی ہچکولے کھاتی کشتی مزید مشکلات کا کا شکار ہوگئی ہے اور حکومت مخالف تحریک کمزور پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس وقت تمام سیاسی جماعتوں اور عوام کی نظریں سینٹ الیکشن پر لگی ہیں اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کی تقسیم کے مطابق حکمران جماعت پی ٹی آئی ایوان بالا میں اکثریت حاصل کرتی نظر آ رہی ہے۔ حکمران جماعت نے سینٹ کے الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ اور پیسے کا بے دریغ استعمال روکنے کیلئے شو آف ہینڈ کا طریقہ اپنانے کا فیصلہ کیا ہے جسکی اپوزیشن جماعتیں بھرپور مخالفت کر رہی ہیں اور نظریہ آرہا ہے کہ اس بارے میں حتمی فیصلہ سپریم کورٹ آف پاکستان کرے گی۔

سینٹ کا ٹکٹ حاصل کرنے کیلئے پہلی شرط پارٹی کے سربراہ سے قریبی تعلق اور وفاداری ہے اور پھر پارٹی کیلئے خدمات، مضبوط سیاسی دھڑے سے تعلق، پیسے کی ریل پیل اور خرچ کرنے کی صلاحیت، پارٹی لیڈران یا دوسرے اہم لوگوں کی سفارش وہ چند فیکٹر ہیں جنکی بنیاد پر کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے امیدوار کا انتخاب کرتی ہے۔ مارچ میں صوبہ پنجاب سے سینٹ کی گیارہ نشستوں پر الیکشن ہونے جا رہے ہیں جس میں توقع کی جا رہی ہے کہ پی ٹی آئی پانچ، مسلم لیگ ن چار اور حکومت کی اتحادی مسلم لیگ ق ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی جبکہ ایک نشست پر وہ پارٹی کامیاب ہوگی جو مخالفین کے ووٹ توڑسکے گی اور دوسری تیسری ترجیحات کا بہتر طریقے سے استعمال کرے گی۔

پنجاب سے تحریک انصاف کے اب تک سامنے آنے والے ناموں میں سیف اللہ نیازی، زلفی بخاری، شہزاد اکبر، امین اسلم، علی ظفر ایڈووکیٹ، اعجاز چوہدری شامل ہیں جبکہ آنے والے دنوں میں چند سرپرائز امیدوار بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ خواتین میں ثانیہ نشتر، نیلوفر بختیار، نگہت محمود، فاطمہ چیمہ اور نیلم ارشاد متوقع امیدواروں میں شامل ہیں۔ جنوبی پنجاب سے جہانگیر ترین چاہیں گے کہ ان کے صاحبزادے علی ترین کو سینٹ کا ٹکٹ ملے‘ اس سے قبل ان کی ہمشیرہ سینیٹر منتخب ہو چکی ہیں۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما جہانگیر ترین کی انکے قریبی عزیز پیپلز پارٹی کے مخدوم احمد محمود سے صلح کے بعد ساوتھ پنجاب میں ایک نیا پاور گروپ سامنے آ سکتا ہے۔مسلم لیگ ن صرف انہیں سینیٹ کا ٹکٹ دے گی جو مریم نواز کے قریب تصور کئے جاتے ہیں جن میں پرویز رشید سر فہرست ہیں۔تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کے مشترکہ امیدوار کامل علی آغا ایک منجھے ہوئےپارلیمنٹرین اور چوہدری برادران کے بااعتماد ساتھی ہیں۔ چوہدری برادران کی کوشش ہو گی انکے لئے دوسری جماعتوں کے ایم پی ایز کے ووٹ بھی توڑ لیے جائیں۔اسلام آباد سے سینٹ کی دو سیٹوں پر پی ٹی آئی کے بابر اعوان، مسلم لیگ ن کے زبیر عمر اور پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی متوقع امیدواروں میں سر فہرست ہیں۔ آصف علی زرداری کی خواہش اور کوشش کے باوجود یوسف رضا گیلانی کا پنجاب یا مرکز سے جیتنا مشکل نظر آتا ہے البتہ سندھ سے وہ با آسانی سینیٹر منتخب ہو کر چیئر مین سینٹ کے امیدوار بن سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کی صفوں میں بابر اعوان چیئر مین سینیٹ کے موزوں امیدوار ہو سکتے ہیں جبکہ مریم نواز شریف کی خواہش ہوگی کہ پرویز رشید کو بنایا جائے۔

چیئرمین سینٹ ایک انتہائی اہم آئینی عہدہ ہے، صدر مملکت کی عدم موجودگی میں چیئر مین سینٹ قائم مقام صدر ہوتا ہے، ماضی میں غلام اسحاق خان، وسیم سجاد اور فاروق نائیک جیسے قابل اور اصول پرست سیاستدان اس عہدے پر فائز رہے ہیں جبکہ دوسرے منتخب ہونے والے چیئر مین آئینی اور قانونی معاملات پر زیادہ گرفت نہیں رکھتے تھے اور انکا زیادہ زور سینٹ سیکرٹریٹ میں بھرتیوں اور بیرون ملک دوروں پر ہوتا تھا۔ موجودہ چیئر مین سینٹ ایک بردبار اور شریف النفس انسان ہیں جو سینٹ کو احسن طریقے سے چلا رہے ہیں مگر آنے والے دنوں میں ایوان بالا کی اہمیت، رول اور در پیش چیلنجز دیکھتے ہوئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اکثریتی جماعت کسی قابل اور ماہر شخص کو اس ہم عہدے کیلئے منتخب کرے جو وفاق اور تمام صوبوں کے مفادات اور حقوق کا تحفظ کر سکے۔

(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)

تازہ ترین