• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم جس تغیر پذیر دنیا میں رہتے ہیں یہاں طرز حکمرانی (گورننس) کو قومی اور عالمی سطح پر پیچیدگی اور چیلنجوں کا سامنا ہے۔ عالمی طاقت کی نئی تقسیم کیلئے ریاستوں اور ملکوں کے آپس میں ایک دوسرے پر بڑھتے ہوئے انحصار نے ان پیشرفتوں اور رائج شدہ طرز حکمرانی کے نمونوں کے درمیان خلیج پیدا کر دی ہے۔ معلوماتی انقلاب اور عالمگیریت کے دور میں طرز حکمرانی کے چیلنجز خاصے وسیع ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی نے معلومات کے غیر معمولی سوتوں کو جنم دیا جس نے اس چیلنج کو مزید بڑھا دیا۔ تیزی سے منازل طے کرتی اس دنیا میں حکومتوں کی کارکردگی بہت سست نظر آتی ہے۔ دونوں قومی اور عالمی ادارے پوری دنیا میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں سے نبردآزما ہونے کی سعی کر رہے ہیں۔ اس سب سے ادارتی اصلاحات اور پالیسی میں تبدیلی کے حوالے سے21ویں صدی میں طرز حکمرانی پر بین الاقوامی بحث کو جلا ملی ہے تاکہ ممالک نئے حقائق کے مطابق خود کو ڈھال سکیں۔ ایک نئی ولولہ انگیز کتاب اس بحث کا حصہ بن گئی ہے۔ ’انٹیلی جنٹ گورننس فار21st سینچری‘ کے مصنف نکولس برگرون اور نیتھن گارڈیلز نے تاویلیں پیش کیں کہ کیونکر موجودہ سیاسی نظام موثر طرز حکمرانی فراہم نہیں کررہا ہے اور کیوں اس اہم مسئلے کے حوالے سے دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مصنف نے ایک بامقصد خیال پیش کیا جو کہ ان لوگوں کیلئے اشتعال انگیز ہو سکتا ہے جو سمجھتے ہیں کہ صرف مغربی لبرل ڈیموکریٹک ماڈل ہی اچھی طرز حکمرانی اور موجودہ دنیا کے مسائل حل کر سکتا ہے۔ ان کے پیش کردہ خیال کے مطابق مشرق اور مغرب دونوں کو ایک دوسرے سے سیکھنا اور آپس میں مطابقت پیدا کرنی چاہئے، جس میں باعلم جمہوریت اور قابلیت اور احتساب کا میل ہو۔ مذکورہ کتاب مشرق بہ مخالف مغرب کے تصور اور نسل پرست خیال کو رد کرتی ہے کہ مغربی سیاسی نظریات اور نظام نے دوسروں کو ماند کردیا ہے، جسے فرانسس فوکو یامہ نے اپنی کتاب ’اینڈ آف ہسٹری‘ میں پیش کیا تھا۔ مصنفین کے لئے سوال یہ نہیں ہے کہ آیا مغربی طریق کی جمہوریت کو قدیم چینی ادارتی تہذیب پر فتح نصیب ہو گی یا اس کے برعکس ہو گا لیکن آیا اس کے درمیان کا کوئی راستہ تلاش کیا جاسکتا ہے، اس ذریعے سے مراد ہے کہ قابلیت اور جمہوریت، اختیار اور آزادی، اجتماعیت اور انفرادیت کے درمیان توازن تلاش کیا جائے تاکہ سب سے زیادہ عقیل حکمرانی کی شکل پیدا کی جائے۔ مطالعے سے تعلق رکھنے والی مذکورہ کتاب میں مصنفین نے مشرق و مغرب کے بہترین سیاسی نظاموں اور دونسلی ادارتی تنصیبات کو یکجا کرنے کی تجویز دی ہے جس میں جمہوریت کے مقبول عناصر اور قدیم چینی فلسفی کنفیوشس سے ماخوذ تہذیب کی رائج کردہ قابلیت کی اقدار کو ملا دیا جائے۔ کتاب کا آغاز اس مسئلے کو پیش کرکے کیا گیا ہے کہ مشرق و مغرب دونوں سیاسی نظاموں کو اصلاح کی ضرورت ہے کیونکہ دونوں کے سامنے ہی مشترکہ چیلنج ہیں جن پر وہ قابو پانے سے قاصر ہیں۔ مغرب پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے مصنف نے امریکہ اور کسی حد تک یورپ کو مرکز نگاہ بنایا جبکہ مشرق پر بحث کرتے ہوئے چین کو مرکز نگاہ بنایا لیکن طرز حکمرانی کے دوسرے ماڈلوں کو بھی تسلیم کیا ہے جیسے کہ ترکی کے سیکولر ڈھانچے میں اسلامی طرز کی جمہوریت۔ مصنف نے عالمی سطح پر مختلف نظاموں پر بھی زور دیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا تکثیریت کی جانب لوٹ رہی ہے جوکہ انسانی تاریخ کے زائد حصے کا خاصہ رہی ہے۔ مصنفین کا ماننا ہے فساد فعل، ابتری، تقطیب اور نظریاتی سختی زیادہ تر مغربی ممالک میں طرز حکمرانی کے نظاموں کو خراب کرنے کا باعث بنی ہے۔ جب تک اس میں اصلاحات نہیں کی جاتیں، انتخابی جمہوریت جس میں فوری فائدہ پہنچانے کا صارفی کلچر پنہاں ہے، بتدریج تنزلی کی راہ پر گامزن ہے۔ فرانسس فوکو یامہ کا حوالہ دیتے ہوئے، جنہوں نے لکھا ہے کہ لبرل ڈیموکریسی فساد فعل کی ویٹو کریسی بن چکی ہے، مصنفین نے دلیل پیش کی کہ صارفی جمہوریت طویل مدتی مفادات اور مشترکہ فوائد کے تصور کی حوصلہ شکنی کرتی ہے، جس میں صارف کا انتخاب مدتی اور ذاتی مفادات پر مبنی ہوتا ہے۔ قلیل مدتی عوامی جذبات میں ملوث ہوکر خصوصی مفادات پورے کرنے سے نظام بندش کا شکار ہوجاتا ہے اور فیصلہ کن طور پر مفاد عامہ کی فراہمی کے قابل نہیں رہتا۔ سیاست اس طریق میں آئندہ نسل کے بجائے آئندہ انتخابات کا شاخسانہ بن چکی ہے۔ مصنفین کا دعویٰ ہے کہ انتخابی جمہوریت بحران کا شکار ہے کیونکہ طاقتور قابل غور اداروں سے اس میں کوئی تخفیف نہیں ہوتی، اس کی ترجیح قلیل مدتی مفادات ہوتے ہیں جو کہ مفاد عامہ کو فروغ دینے کے قابل نہیں اور کمزور ہو چکے ہیں۔ جیسا کہ امریکہ میں صورتحال دیکھنے میں آئی جمہوریت فری مارکیٹ کی طرح خود کی اصلاح کرنے سے قاصر رہی جس کی آزمائش 2008-9ء کے مالی بحران میں کرلی گئی۔ دوسری جانب چین طویل مدتی طرز حکمرانی کا تصور رکھتا ہے اور مشکل فیصلے کرکے ان کا موثر طریقے سے نفاذ کرسکتا ہے۔ کنفیوشس روایات کے مطابق چین نے اشرافیہ کی تعلیم اور اخلاقیات پر تکیہ کیا تاکہ ادارتی جوابداری اور شفافیت یقینی بنائی جاسکے۔ چین کے انتظامی نظام کی بنیاد قابلیت کو اہمیت دینے کی روایات پر قائم ہے جس میں باعلم اور تجربہ کار اشرافیہ شامل ہے،جسے کمیونسٹ پارٹی کے عصر حاضر کے موجودہ عہدیداروں میں بھی دیکھا جاسکتا ہے، جو اسے طویل مدتی رخت سفر متعین کرنے کے قابل بناتے ہیں اور اس کے شاندار عروج کو یقینی بناتے ہیں لیکن چینی نظام بھی تناوٴ کا شکار ہے کیونکہ وہ ایک پیچیدہ اور جدید معیشت بنتا جارہا ہے، اسے بھی درستی کی ضرورت ہے کیونکہ اس میں احتساب کی کمی ہے اور کرپشن کی آمیزش ہے اور یہاں فیصلہ کن اتھارٹی اور اشرافیہ کو نوازے جانے پر عوام کی جانب سے جمہوری احتساب کے مطالبات بلند ہو رہے ہیں۔ خود چین میں بھی کنفیوشس روایات کے تحت چلنے والی ایک قابل حکومت کی بحث جاری ہے جس میں احتساب اور شفافیت بھی ہو۔ یہاں تک کہ کمیونسٹ پارٹی کے اعلیٰ عہدیداران بھی تبدیلی کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں۔مصنفین نے اختتامیہ میں لکھا کہ چین اپنی طرز کی جمہوری عمل کو اپنائے گا اور یہ اس خیال کی تائید کرتے ہیں کہ جدیدیت اختیار کرنے کا مطلب مغربیت کے رنگ میں رنگ جانا نہیں ہے۔ اس بحث سے مصنفین اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مشرقی اور مغربی نظاموں کی بہترین خصوصیات عقیل طرز حکمرانی کا نمونہ بنانے میں مدد فراہم کرنا ہے۔ اس سے مراد حقوق و فرائض میں ایک توازن پیدا کرنا اور طویل مدتی اور مشترکہ مفادات کے تصور کو راسخ کرکے عوامی اور خواص کی خواہشات پر نظر رکھنا ہے۔ مصنف کے عقیل طرز حکمرانی کے تصور کے تحت طاقت کو نچلی سطح تک منتقل کرنا درکار ہے، جس میں شہری اپنی قابلیت کے تحت شامل ہوں اور جو کہ پیچیدگی کی اعلیٰ سطح پر متعلقہ اتھارٹی کی قانونی حیثیت اور رضامندی کی حمایت کرے۔ مصنف کی دلیل کے مطابق چین کو اپنی طرز حکمرانی میں توازن پیدا کرنے کیلئے عوامی شمولیت اور قابل عہدیداروں کی ضرورت ہے، جو قابل احتساب بھی ہو جبکہ امریکہ کو غیر سیاسی جمہوریت درکار ہوگی جس میں طرز حکمرانی طویل مدتی اور مشترکہ مفادات عوامی سطح کے قلیل مدتی مخصوص مفادات سے جدا ہوں جہاں ایک شخص ، ایک ووٹ کا سیاسی کلچر موجود ہے۔ اس لئے چین کو اپنے نظام میں کچھ روشن خیالی لانے کی ضرورت ہوگی جبکہ امریکہ کو اپنے نظام پر گرفت مضبوط کرنا ہوگی اور دونوں کو اس توجہ دلاوٴ امر کو تسلیم کرنا ہوگا کہ زیادہ عقیل نظام ہی باقی رہے گا۔ مصنفین کا دعویٰ ہے کہ وہ یہ دلیل نہیں دیتے کہ ایک طرز کا نظام حکمرانی سب کے لئے مفید ہے لیکن وہ دکھانا چاہتے ہیں کہ جمہوری احتساب اور باعلم قابل حکومت کی آمیزش کس طریق سے کی جاسکتی ہے۔ ہر نظام کا اپنا ایک خاص توازن ہوتا ہے جو اس کے کلچر سے میل کھاتا ہے اور اس کے سیاسی نظام سے مطابقت رکھتا ہے۔ مصنفین اس توازن کے قومی نتائج سے بھی اتنے ہی فکر مند ہیں جتنے کے اس کے بین الاقوامی نتائج سے۔ اس لئے وہ دونوں نظاموں کی معیشتوں میں پائے جانے والے فرق کی درستی چاہتے ہیں تاکہ عالمی سطح پر مساوات قائم ہو سکے اور بین الاقوامی امن و ترقی پروان چڑھ سکے۔ امریکہ مقروض ہے اور صارف ہے جبکہ چین سرمایہ کار اور برآمد کرنے والا ملک ہے لیکن یہ پھر بھی ترقی پذیر قوم گردانا جاتا ہے۔ایسے وقت میں جبکہ پاکستان میں نئی حکومت اقتدار سنبھال رہی ہے اور اسے غیر معمولی چیلنجوں کا سامنا ہے، کیا پاکستان اس بحث سے کچھ سیکھ سکتا ہے؟ اس کا جواب ہے، جی ہاں ۔ طرز حکمرانی کے واضح اصول بھی ہیں جیسا کہ مسائل کے حل کیلئے پالیسی کارروائیوں میں قانونی حیثیت اور قابلیت کا حاصل کرنا۔ اقربا پروری پر قابلیت کو ترجیح دینا لازمی ہے۔ مفاد عامہ کیلئے طویل مدتی، مطلع اور مستحکم فیصلے کرنے کا بھی اصول موجود ہے جوکہ اسمارٹ گورننس کا خاصہ ہے۔ یہاں ایک اور سبق بھی سیکھنا باقی ہے جس کے تحت ان ماہرین کا حصول اور رسائی ہے جو پاکستان کے بیش بہا مسائل کو حل کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ ایک ایسی حکومت جس کے پاس فیصلہ کن اکثریت ہے اسے ان ماہرین کی فہرست مرتب کرنے میں کسی قسم کا ڈر نہیں ہوناچاہئے جو انتظامی امور کو موثر طور پر چلانے میں اس کی مدد کر سکتے ہیں۔ ملک کو موجودہ ابتری سے نکالنے کیلئے قومی کاوش درکار ہے۔ اس ضمن میں سیاسی قیادت کو آگے بڑھنا چاہئے، جو ملک میں موجود عمدہ ٹیلنٹ اور پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے افراد کی مدد سے ان مشکل مسائل کا سدباب کرسکتی ہے۔ مذکورہ کتاب کے اسباق سے بالاتر ہوکر یہ کہا جاسکتا ہے، قیادت کے بغیر کچھ کرنا ممکن نہیں ہوتا اور اداروں کو مضبوط بنائے بغیر کچھ بھی دیرپا نہیں ہوتا ہے۔
تازہ ترین