• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دہلی میں بھارتی کسانوں کا احتجاج دو ماہ سے زائد عرصہ سے جاری ہے۔ اس احتجاجی تحریک میں مشرقی پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش کے علاقوں کے کسان شریک ہیں۔ احتجاج اس پر ہو رہا ہے کہ ستمبر 2020ء میں لوک سبھا نے تین ایکٹ کی منظوری دے دی اور کسانوں کا مطالبہ ہے کہ یہ تینوں قوانین واپس لئے جائیں۔ ان مذکورہ زرعی قوانین میں پہلا یہ ہے کہ زرعی پیداوار بڑے سرمایہ کار خریدیں گے اور مارکیٹ ریٹ پر لیں گے اور مارکیٹ ریٹ پر فروخت کریں گے اس طرح بیچ سے آڑھتیوں کا کردار ختم ہوگیا۔ دُوسرا قانون یہ ہے کہ اناج صاف کرنے کے بعد زرعی گھاس پھونس کو جلایا نہ جائے کیونکہ اس سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ 

تیسرا قانون یہ ہے کہ زرعی پیداوار پر حکومت کی طرف سے رعایتی امداد کم کر دی جائے گی۔ پیداوار کی خرید و فروخت کا رٹیل سسٹم کے تحت مارکیٹ کی قیمت پر استوار ہوگی۔ ان قوانین کو کسان کالے قوانین، کسانوں کے ساتھ زبردست زیادتی اور ان کوبڑی کارپوریشنز اور تجارتی اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے مترادف ہے۔ حکومت نے کسانوں کی احتجاجی جگہوں پر انٹرنیٹ، بجلی اور پانی کی ترسیل بند کر دی ہے۔ بیش تر کسان رہنمائوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ 

میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں، مگر کسان متحد ہیں اور تاوقت کامیابی، وہ احتجاج جاری رکھنے پر اَٹل ہیں۔ اس کسان تحریک کو کسانوں کی اکثریت کے علاوہ بھارت کی بڑی سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس، کمیونسٹ پارٹی اور بعض غیرسرکاری تنظیموں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ 

سیاسی اور ٹریڈ یونین حلقوں کا حکومت اور حکمراں جماعت بی جے پی پر بڑا اعتراض یہ ہے کہ انہوں نے زرعی قوانین سازی سے قبل کسان رہنمائوں سے بات چیت کر کے اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا۔ اگر حکومت ذرا ہوش مندی سے کام لیتی اور اس قدر عجلت میں قانون سازی کر کے ایکٹ کو لوک سبھا سے منظور نہ کراتی اور ان قوانین پر کھلی بحث کرواتی تو یہ سب کچھ نہ ہوتا جو ہوا اور ہونے جا رہا ہے، وہ بہت بُرا ہے۔ سیاسی حلقوں کو خدشہ ہے کہ بات بہت آگے جا رہی ہے۔ 

بعض حکومت مخالف عناصر اس کا پورا فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ بیرونی دُنیا سے بھی بعض سربراہوں، سیاسی جماعتوں نے بھی بھارتی کسان تحریک کی حمایت کی ہے اور بھارتی حکومت پر زور دیا ہے کہ ان کے مطالبات پر ہمدردی سے غور کیا جائے۔ اس کے علاوہ گلوکاہ ریحانا، متنازع فلموں کی ہیروئن مایا خلیفہ اور ماحولیات کی سوئیڈن کی تنظیم کی رہنما گرٹیا تھمبرگ نے بھی ٹوئیٹ کے ذریعہ کسانوں کی حمایت کی ہے۔ 

بی جے پی کے رہنمائوں نے ان معروف خواتین پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ کچھ دن قبل واشنگٹن میں دُنیا کی قدیم جمہوریہ کے مرکز پر ہزاروں امریکی باشندوں نے احتجاج کیا اور پرتشدد کارروائیاں سامنے آئیں تھیں اس وقت انہوں نے نکتہ چینی نہیں کی۔تاہم یہ بحث برائے بحث ہو سکتی ہے مگر سچ یہ ہے کہ قدیم جمہوریہ اور پھر سب سے بڑی جمہوریہ دونوں جگہ احتجاج کے کچھ حقیقی اسباب ہیں ایسے میں ہر قسم کی پرتشدد کارروائیوں کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا نہ اس کو احتجاج کہا جاسکتا ہے۔ مگر غور طلب نکتہ یہ ہے کہ احتجاج کیوں ہوا؟

جمہوری حکومتیں اکثر اپنی اپنی حکمرانی کو قائم رکھنے، ووٹ بینک کو وسیع کرنے، سیاسی عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی جستجو میں جمہوری، اخلاقی اور سیاسی اقدار کو پامال کرنے، مصلحت پسندی کا شکار ہونے اور عوامی نقطۂ نظر کو درگزر کرنے سے بھی نہیں چوکتی ہیں۔ اس طرز عمل سے لوگوں میں مایوسی اور غم و غصہ فروغ پاتا ہے۔ بیش تر سرمایہ دارانہ ممالک میں کارٹل سسٹم عام ہے، بڑی تجارتی کمپنیوں اور کارپوریشنز کی اجارہ داریاں قائم ہیں۔ 

ان ممالک میں مہنگائی، افراط زر اور بے روزگاری عام ہے۔ بھارتی حکومت نے جو ماڈل فارمنگ ایکٹ وضع کئے اور انہیں نافذ کیا ہے وہ بھارتی زرعی شعبہ سے مماثلت نہیں رکھتے کیونکہ یہاں بڑی بڑی زمینداریاں، بڑے زرعی فارم نہیں ہیں۔ اناج کی پیداوار اور خرید و فروخت آڑھتی کرتے آئے ہیں جن کی تعداد بہت زیادہ ہے جو اس وقت کسان تحریک میں آگئے ہیں۔

بھارت میں زرعی شعبہ 155 ملین ہیکٹر پر پھیلا ہوا ہے جس سے تقریباً ملک کے 55 فیصد افراد وابستہ ہیں۔ بھارت کی اوسط سالانہ آمدنی میں اس شعبہ کا 18 فیصد حصہ ہے۔ عام طور پر کسانوں کو شکایت ہے کہ معیاری بیج، جدید زرعی آلات دستیاب نہیں۔ آب رسانی کے ذرائع پرانے ہو چکے ہیں، اسٹوریج کی نمایاں کمی ہے اور زرعی قرضوں پر بھاری سود کی شرح عائد ہے۔ فصل کی پیداوار میں بھی بتدریج کمی آتی جا رہی ہے۔ 

کسان بھارتی حکومت سے حالیہ متنازع قوانین کی واپسی کے ساتھ ساتھ ان کے دیرینہ مسائل حل کرنے پر توجہ مرکوز کرے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کا مؤقف یہ ہے کہ حکومت نے حالیہ بجٹ میں کثیر رقم زرعی شعبہ کی ترقّی کے لئے مختص کر دی ہے۔ اگر کسان رہنما چاہتے ہیں تو حکومت حالیہ زرعی قوانین کو 18 ماہ تک مؤخر کر سکتی ہے مگر قوانین واپس نہیں لئے جائیں گے۔ بھارت کے سیاسی حلقوں کو اس اَمر پر تشویش ہے کہ کسانوں کی احتجاجی تحریک میں رفتہ رفتہ تشدد کا عنصر بھی داخل ہو رہا ہے جو دونوں حکومت اور کسانوں کے لئے کسی طور پر مناسب نہیں ہو سکتا۔

تازہ ترین