• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”ذرائع“ کے بطن سے پھوٹنے والی خبریں عام طور پر مستند نہیں ہوتیں لیکن انہیں سرسری طور پر نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کھوج لگا لینے اور سب سے پہلے خبر دینے کی اُکساہٹ صحافی کی جبلت بن جاتی ہے۔ آج کل تو میڈیا ساون کی ہریالی کی طرح پھیل چکا ہے۔ چینل ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے بولائے پھرتے ہیں۔ خبر کا درست اور مستند ہونا، ثانوی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ ترجیح صرف یہ ہے کہ چونکا دینے والی کوئی بات، بریکنگ نیوز کی شوخ و شنگ موسیقی کے ساتھ اسکرین پر جلوہ گر ہو۔ خبر درست نکل آئی تو کیا کہنے اور اگر غلط بھی نکلی تو یہاں کونسا ایسا نظام احتساب ہے کہ کسی کی بازپرس ہوگی۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ”ذرائع“ کے بارود خانے کے زور پر کسی سیاستدان یا حکومتی عہدیدار کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں۔ وہ احتجاج کرے تو شہ سرخیوں میں شائع ہونے والی خبر کی تردید اخبار کے کسی گوشہ گمنام کی زینت بنا کر صحافتی تقاضوں کی تکمیل کردی جاتی ہے۔
”ذرائع“ ہی کے حوالے سے ایک خبر مختلف اخبارات کی زینت بنی ہے کہ متوقع وزیراعظم نوازشریف وزیراعظم ہاؤس میں نہیں رہیں گے۔ وہ کسی اور جگہ رہائش رکھیں گے تاکہ سادگی کا تاثر دیا جاسکے۔ تاہم یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سیکورٹی ایجنسیز میاں صاحب کی اس خواہش کی مزاحمت کررہی ہیں۔ اخبارات نے سرکاری اخراجات میں بچت کے حوالے سے بھی بعض اقدامات کا ذکر کیا ہے جو میاں صاحب کے پیش نظر ہیں۔ ”ذرائع“ کی اس خبر کی حقیقت جلد واضح ہوجائے گی۔ عین ممکن ہے کہ میاں صاحب واقعی انہی خطوط پہ سوچ رہے ہوں۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، اپنے دوسرے دور وزارت عظمیٰ میں بھی انہوں نے وزیراعظم ہاؤس کا رہائشی حصہ چھوڑ دیا تھا اور آفیسرز کی کالونی میں منتقل ہوگئے تھے۔ تازہ خبر کے مطابق وہ وزیراعظم ہاؤس ہی کو ترک کرکے کسی اور رہائش گاہ میں منتقل ہونا چاہتے ہیں۔
جس طرح ”ذرائع“ کی خبر عام طور پر مستند نہیں ہوتی اسی طرح ایسی خبروں پر تبصرہ اور خیال آرائی بھی بے محل سی لگتی ہے لیکن جب تک صورتحال واضح نہیں ہوتی، یہ خبر چوپالوں کا موضوع بنی رہے گی۔ میاں صاحب کا وزیراعظم ہاؤس سے دستکش ہوکر کسی دوسرے مقام پر منتقل ہوجانا ممکن ہے ایک عوامی سا اقدام لگے اور خلق خدا اسے سراہے بھی لیکن میرے خیال میں ایسے اقدامات عملی طور پر بامقصد اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتے۔ شاید ان سے قومی خزانے پہ بوجھ بھی کم نہیں ہوتا۔ ممکن ہے کچھ بڑھ جاتا ہو۔ ایوان صدر، وزیراعظم سیکرٹریٹ، وزیراعظم ہاؤس، سپریم کورٹ، ہائی کورٹس، سرکاری سیکرٹریٹ اور ایسی ہی دیگر عمارات، کچھ مخصوص ضرورتوں اور تقاضوں کو پیش نظر رکھ کے تعمیر کی جاتی ہیں۔ اگر ان عمارات کو متعینہ مقاصد سے الگ کرکے استعمال کرنے کی کوشش کی جائے تو ان کی افادیت بہت کم ہوجاتی ہے اور بعض اوقات وہ ناکارہ ہوکے رہ جاتی ہیں۔
میں نے وزیراعظم ہاؤس سرسری طور پر دیکھا ہے۔ اس میں وزیراعظم کا رہائشی حصہ اسلام آباد کی ایک اوسط درجے کی کوٹھی سے زیادہ نہیں۔ لیکن اس میں وزیراعظم کے کاموں کے لئے ایک دفتر ہے۔ اسٹاف کے دفاتر میں ایسے کمرے میں جہاں وزیراعظم غیرملکی مہمانوں سے ملاقات کرتا ہے۔ کمیٹی رومز ہیں جہاں اہم میٹنگز ہوتی ہیں۔ منسلک ایک کالونی ہے جس میں وزیراعظم ہاؤس کا عملہ رہائش رکھتا ہے۔ ارگرد وسیع سبزہ زار رکھنے کے باوجود پورا وزیراعظم ہاؤس لاہور یا اسلام آباد کی کئی عالی مرتبت کوٹھیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
اگر وزیراعظم یہاں نہیں رہیں گے تو اس کا مصرف کیا ہوگا؟ وہ باہر کے معزز مہمانوں سے کہاں ملیں گے؟ بڑے بڑے اجلاس کہاں کریں گے؟ انکے اسٹاف کا کیا بنے گا؟ اگر وہ یہاں رہائش نہیں رکھتے اور باقی استعمال جاری رہتا ہے تو اس سے کون سے مقاصد پورے ہونگے؟ اگر وہ اپنی نئی رہائش گاہ کو تمام ضروری سہولتوں سے آراستہ کرتے ہیں تو کیا اس پہ اضافی اخراجات نہ اٹھیں گے؟ اور سب سے اہم بات یہ کہ سیکورٹی کی حساسیت کا کیا بنے گا جسے اس دور میں بالکل نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ وزیراعظم ہاؤس، کسی فرد کیلئے نہیں پاکستان کے چیف ایگزیکٹو کیلئے بنا ہے۔ دنیا بھر سے آئے مہمانوں کے سامنے پاکستان کا باوقار تشخص قائم رکھنا بھی ضروری ہے۔ ان کی ملاقاتیں وزیراعظم ہاؤس میں ہی ہونی چاہئیں۔ ایسی عمارتیں علامتوں کا درجہ رکھتی ہیں۔ اگر کروڑوں روپے کے سرمائے سے یہ بن ہی گئی ہیں تو انہیں کسی اور مصرف کی نذر کرکے برباد نہ کیا جائے۔ اپنے محل وقوع کے اعتبار سے یہ عمارت کسی درس گاہ، لائبریری یا دوسرے عوامی مقصد کے لئے استعمال کرنا ممکن ہی نہیں۔ اس تک تو رسائی کے راستے بھی انتہائی حساس منطقوں سے گزرتے ہیں۔
بچت اور سادگی کے لئے لاتعداد اقدام کئے جاسکتے ہیں۔ میاں صاحب نے اپنے دور میں ایسے اقدام کئے بھی تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایٹمی دھماکوں کے فوراً بعد انہوں نے وزیراعظم ہاؤس، ایوان صدر اور تمام وزارتوں کے اخراجات میں پچاس فیصد کٹوتی کردی تھی۔ میں نے صدر محمد رفیق تارڑ کے ساتھ ساڑھے تین برس ایوان صدر میں گزارے۔ یہ انتہا درجے کی سادگی اور قومی خزانے کی حرمت کا مثالی دور تھا۔ ہر صدر کو کروڑوں کی گرانٹ ملتی ہے کہ وہ اپنی آمد کے بعد ایوان صدر کو اپنی خواہش کے مطابق آراستہ پیراستہ کرے۔ فرنیچر، قالین، پردے، سازوسامان جو چاہے بدل ڈالے۔ صدر تارڑ نے اس گرانٹ کو چھوا بھی نہیں۔ میں ایوان صدر میں پہنچا تو رمضان کے دن تھے۔ عید کے بعد دفتر کھلا تو میرا سیکرٹری ایک کلاہ بردار شخص کو لے کر آیا کہ سر اب یہ آپ اور آپ کے مہمانوں کے لئے لنچ تیار کیا کرے گا، جو کھانا ہو بتا دیا کریں۔ میں نے کہا اچھا بتادوں گا۔ تھوڑی دیر بعد مجھے صدر نے اپنے کمرے میں بلایا۔ کہنے لگے۔ ”یہ کھانے وغیرہ کا کیا مسئلہ ہے؟“ میں نے بتایا کہ یہاں چوتھی منزل پہ براجمان افسروں اور صدر کے لئے ان کی خواہشوں کے مطابق لنچ تیار ہوتا ہے۔ تارڑ صاحب کہنے لگے ۔ ”باقی کا اسٹاف“ میں نے کہا ”وہ شاید گھروں سے لاتے یا کینٹین سے کھالیتے ہیں۔ ”انہوں نے ملٹری سیکرٹری کو بلا کر ہدایت کی کہ لنچ کا یہ سلسلہ بند کردیا جائے۔ہمیں بھی کھانا ہو گا تو گھر سے باندھ لایا کریں گے یا کینٹین سے منگوا لیں گے“۔ یہ سلسلہ بند ہوگیا۔ کمانڈو نے ایوان صدر پر قبضہ کیا تو مطبخ پھر آباد ہوگئے۔
صدر تارڑ نے مہمانوں کی چائے بھی غریبانہ حد تک سادہ کردی تھی۔ ایک بار برادرم مجیب الرحمن شامی ملنے آئے۔ انہیں وہی غریب و سادہ سی چائے پیش کی گئی۔ اپنے مخصوص انداز میں بھڑک کر بولے ”دیکھئے! ہم رفیق تارڑ سے نہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر سے ملنے آتے ہیں۔ یہ چائے صدر کے مرتبہ و مقام کے منافی ہے“۔ اس کے بعد چائے کے ساتھ دو چار بسکٹوں کا اضافہ ہوگیا۔ صدر نے حج پر جانے کا پروگرام بنایا تو ہم لوگ بھی مچل گئے لیکن ان کی ہدایت پر، صدر سمیت سب نے اپنے ٹکٹ خود خریدے۔ پی آئی اے کی عام پرواز سے گئے اور عام پرواز سے آئے۔
میاں صاحب نے اپنے دونوں ادوار میں تنخواہ لی نہ مراعات۔ وہ کچن کا خرچہ بھی اپنی جیب سے دیتے رہے۔ اس طرح کے متعدد اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ میاں صاحب نے کسٹم فری گاڑیوں اور پلاٹوں کی بندر بانٹ کا سلسلہ بھی ختم کردیا تھا۔
محض آرائشی اور زیبائشی اقدامات سے کچھ حاصل نہیں۔ ایم ایم اے نے خیبرپختونخوا کی حکومت سنبھالتے وقت اعلان کیا تھا کہ اب کوئی تقریب فائیو اسٹار ہوٹل میں نہیں ہوگی لیکن عین زلزلے کے دنوں میں وزیراعلیٰ ہاؤس میں ایک شاندار ضیافت کا اہتمام ہوا جس کا کھانا اور مشروبات فائیو اسٹار ہوٹل سے آئے اور کیٹرنگ کی وجہ سے خرچہ کئی گنا بڑھ گیا۔ یہ اعلان بھی ہوا تھا کہ وزراء گاڑیاں استعمال نہیں کریں گے۔ تب اور آج کے وزیر اور ہمارے دوست سراج الحق نے ڈائیوو بس کے ذریعے پشاور سے لاہور تک کا سفر کیا۔ چند دنوں بعد لشکارے مارتی گاڑیاں تھیں اور ایم ایم اے کے وزراء۔
مخصوص مقاصد کیلئے بنی عمارات کو مخصوص مقاصد کیلئے استعمال کرنا، بچت کے نقطہ نظر سے بھی ضروری ہے۔کرنے کے بہت کام ہیں۔ قوم کی توقعات اس نوع کی تمثیلات سے بہت زیادہ ہیں۔ اگر ”ذرائع“ کی اس خبر میں کچھ صداقت ہے تو میاں صاحب کو ضرور نظرثانی کرنی چاہئے۔
تازہ ترین