پاکستان کے ساتھ مودی سرکار کے مستقل مخاصمانہ اور متعصبانہ رویے کے باوجود جارحیت کا جواب دینے کے لئے تیار رہنے کے ساتھ ساتھ پرُامن مذاکرات کے ذریعے سے تنازعات کا تصفیہ اور پائیدار امن کا قیام پاکستان کی مستقل حکمتِ عملی ہے۔ دو سال پہلے فروری کی ستائیس تاریخ کو پاک فضائیہ نے اسی حکمت عملی کے تحت پاکستان کے حدود میں جارحیت کی غرض سے داخل ہونے والے بھارتی فضائیہ کے دو طیاروں کو گرا کر اور ایک پائلٹ کو گرفتار کرکے بھارت ہی نہیں پوری دنیا پر جارحیت سے نمٹنے کے ضمن میں اپنی اہلیت کا شاندار مظاہرہ کیا تھا۔ پاکستانی شاہینوں کی اس کارروائی کو ’’آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ‘‘ کا نام دیا گیا تھا جبکہ اس واقعے کے دو سال بعد دونوں ملکوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی پابندی کو یقینی بنانے کی خاطر اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز پاکستان کے خلاف فضائی حملے کی شکل میں بھارت کی عسکری مہم جوئی کے خلاف کامیاب جوابی کارروائی کے دو سال مکمل ہونے پر قوم کو مبارکباد اور افواج کو سلام پیش کرنے کے علاوہ ایل او سی جنگ بندی کا خیر مقدم کرتے ہوئے صراحت کی ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام حل طلب امور بات چیت سے طے کرنے تیار ہے اور اب امن کے لئے مزید پیش رفت بھارت کی ذمہ داری ہے۔ پاک فضائیہ کے ہیڈ کوارٹرز میں ہفتے کو ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایئر چیف مارشل مجاہد انور خان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستانی افواج اور قوم کشمیریوں کی جدو جہد میں ان کے ساتھ ہیں اور آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کی طرح کسی بھی مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ دفتر خارجہ کے بیان میں بھی کہا گیا ہے کہ پوری پاکستانی قوم دو سال قبل بھارت کی غیر ذمہ دارانہ فوجی مہم جوئی پر پاکستان کی شاندار جوابی کارروائی کو بڑے فخر سے یاد کر رہی ہے۔ دفتر خارجہ نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق جموں و کشمیر کے طویل تنازع کے پرامن حل کے لئے پرعزم ہے۔ افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ کے بقول 27 فروری 2019اس عہد کا دن ہے کہ مسلح افواج قوم کی حمایت سے تمام خطرات کے خلاف مادر وطن کا ہمیشہ دفاع کریں گی۔ پاکستان اور بھارت جغرافیائی قربت ہی نہیں رکھتے بلکہ مذہبی عقائد کے فرق کے باوجود تاریخ، تہذیب، زبان اورثقافت کے حوالوں سے بھی بڑی یکسانیت کے حامل ہیں۔ تاہم دونوں ملکوں میں اچھے پڑوسیوں جیسے روابط فروغ نہیں پا سکے۔ آزادی کے بعد پون صدی کے بیشتر حصے میں باہمی تعلقات کشیدہ ہی رہے جبکہ نریندر مودی کی سیاست کی تو بنیاد ہی پاکستان سے مخاصمت پر رکھی گئی ہے۔ خود اپنے ملک میں بھی مسلمانوں کے خلاف نفرت کو فروغ دینے اور ان کے بنیادی حقوق باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے پامال کرنے کی کارروائیاں ان کے دورِ حکومت میں عَلانیہ ہوتی چلی آرہی ہیں۔ بھارت کی اکثریتی آبادی میں مقبولیت کی خاطر پاکستان کے خلاف جذبات کو بھڑکانا اور پاکستان کا ہَوّا دکھا کر اور جارحانہ کارروائیاں کرکے یہ تاثر دینا کہ بھارت کو اس خطرے سے ان کی حکومت ہی محفوظ رکھ سکتی ہے، ان کا مستقل حربہ ہے۔ تاہم ہوشمندی اور خود بھارتی عوام کے مفاد کا تقاضا ہے کہ بھارتی قیادت موجودہ حکمراں پارٹی ہی سے تعلق رکھنے والے سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے اس قول کو اپنی حکمت عملی کی بنیاد بنائے کہ دوست بدلے جا سکتے ہیں مگر پڑوسی نہیں۔ انہوں نے لاہور میں مینار پاکستان پر تسلیم کیا تھا کہ پاکستان ایک حقیقت ہے جسے مٹایا نہیں جا سکتا لہٰذا بھارت کشمیر سمیت تمام باہمی تنازعات پرامن بات چیت سے حل کرنے کو تیار ہے۔ مودی حکومت بھی اس حقیقت پسندانہ موقف کو اپنا کر بھارت سمیت پورے خطے کی خوشحالی کی راہ ہموار کرسکتی ہے۔