• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی سیاست کے نشیب و فراز انتہائی ڈرامائی رُخ اختیار کرگئے ہیں۔ دارالحکومت سے سینیٹ کی اہم ترین نشست پر حزب اختلاف کی کامیابی کے بعد وزیر اعظم نے ازخود قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا دلیرانہ فیصلہ کیا۔ ایوان، جس میں پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی ارکان کے علاوہ جماعت اسلامی اور پی ٹی ایم کا ایک رکن بھی شریک تھا، نے 178ووٹوں سے وزیراعظم پر اعتماد کا اظہار کیا۔ ان میں وہ ارکان بھی شامل تھے جنہوں نے سینیٹ کے انتخاب میں اپوزیشن کے امیدوار کو ووٹ دیا تھا۔ اپوزیشن نے اعتماد کے ووٹ کی اس کارروائی کو بوجوہ آئین کے منافی قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کیا ۔اعتماد کے لئے وزیر اعظم کو 172ووٹوں کی ضرورت تھی مگر انہیں اس سے 6ووٹ زیادہ ملے۔ ایک رائے یہ ہے کہ حزب اختلاف کی مکمل عدم شرکت کی بناء پر اس اجلاس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ یاد رہے کہ یہ رائے شماری خفیہ نہیں تھی لہٰذا خود وزیر اعظم کے بقول ان کی جماعت کے وہ پندرہ سولہ ارکان جنہوں نے ان کے مطابق پیسے لے کر سینیٹ کے الیکشن میں حکمراں جماعت کے امیدوار کے بجائے اپوزیشن کے امیدوار کوووٹ دیا انہوں نے بھی وزیر اعظم ہی کے حق میں رائے ظاہر کی۔ تاہم اپوزیشن کے امیدوار کوووٹ دینے والے حکمراں جماعت کے ارکان کو ووٹ بیچنے کا مرتکب قرار دینااس وقت تک محض الزام ہے جب تک اسے ثابت نہ کردیا جائے۔ اس امکان کو ردّ نہیں کیا جاسکتا کہ ان حکومتی ارکان نے سینیٹ کے لیے نامزد کیے گئے حکومتی امیدوار کو واقعتاً اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق اپوزیشن کے امیدوار کے مقابلے میں بہتر نہ سمجھا ہو یا وہ حکومتی پالیسیوں اور مقتدر افراد کے رویوں سے ناخوش ہوں جس کے واضح مظاہر حالیہ دنوں میں سامنے آتے رہے ہیں۔ قابل شناخت ووٹ کی صورت میں عین ممکن ہے کہ نتیجہ مختلف ہوتا جیسا کہ وزیراعظم کی جانب سے اعتماد کے ووٹ کے حصول میں نظر آیا ہے۔اس کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ خفیہ بیلٹ میں اگرچہ ووٹوں کی خرید و فروخت کا خدشہ موجود ہوتا ہے لیکن ضمیر کی آزادی برقرار رکھنے کے لیے یہ طریقہ ضروری بھی ہے۔ لہٰذا ووٹوں کی خرید و فروخت روکنے کی خاطر ووٹ الیکشن کمیشن کی حد تک قابل شناخت بنایا جائے تو اس امر کی یقینی ضمانت بھی فراہم کی جانی چاہیے کہ پارٹی کے فیصلے کے خلاف ووٹ دینے والے ارکان کو کسی بھی طور انتقامی کارروائی کا ہدف نہیں بنایا جائے گا۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے ارکان پر یہ پابندی عائد کرنا کہ وہ لازماً پارٹی کے نامزد کردہ امیدوار ہی کوووٹ دیںاس لئے درست نہیں کیونکہ اس صورت میں الیکشن کی کوئی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی اور اسمبلیوں میں سیاسی جماعتوں کی عددی حیثیت کے مطابق سینیٹ کیلئے اُن کے امیدوار منتخب قرار دیے جاسکتے ہیں۔ سیاست میں شفافیت اور امانت و دیانت کی اقدار کے فروغ کی خواہش کے جو دعوے ملک کی موجودہ قیادت کی جانب سے کیے جاتے ہیں ان کا تقاضا تھا کہ اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان دھمکی آمیز لب و لہجے کے بجائے اس یقین دہانی کے ساتھ کیا جاتا کہ تمام ارکان کو اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دینے کی آزادی ہے لہٰذا لوگ بے خوف ہو کر اپنی دلی رائے کا اظہار کریں۔ اس معاملے کا ایک ستم ظریفانہ پہلو یہ ہے کہ حکمراں جماعت کے جو پندرہ سولہ ارکان وزیر اعظم کے اپنے بیان کے مطابق ضمیر بیچنے کے مجرم اور دارالحکومت سے سینیٹ کی نشست پر حکومت کی شکست کے ذمہ دار ہیں، اپنا منصب برقرار رکھنے کی خاطر ان ارکان کی حمایت کا حصول وزیر اعظم کے لیے لازم ہو گیا۔ ہمارے سیاسی نظام کے یہ تضادات یقیناً اصلاح طلب ہیں اور قومی مفاد کا ناگزیر تقاضا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن اس مقصد کے لیے جلد از جلد باہمی تعاون سے قانون سازی کریں۔

تازہ ترین