• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ کا سنسنی خیز انتخاب تو ہو گیا، لیکن ہو کر بھی اِس کا ہنگامہ خیز فالو اپ جاری ہے۔ الیکشن سے ایک روز قبل رات گئے تک ضمیروں کے بھائو تائو کی خبریں آتی رہیں۔ جس نے بکنا تھا وہ بک گیا۔ کسی حد تک یہ اطمینان ہوا کہ بے ضمیروں کے ووٹوں کی خرید و فروخت کا جتنا ہنگامہ مچا ہوا تھا، ضمیر اس کے تناسب سے کم ہی بکے، پھر بھی جتنے بکے انہوں نے اسلام آباد کے انتخابی معرکے کے نتائج کو متاثر تو کیا۔ گویا بات جاری ملکی نظام بد میں عام انتخابات کی مہم میں عام ووٹرز کے شعور وضمیر کو کئی کئی روز تک بریانی کھلا کھلا کر سُلانے سے آگے،بات ’’نیشنل ہائوس آف ایلڈرز‘‘ (ایوان بالا) کے ووٹر کے سودے بھاری رقوم پر ہونے تک آ گئی ہے۔ سینیٹ کے موجودہ چیئرمین کے انتخاب کے مرحلے میں بھی ضمیر کی خریداری کا غوغا مچا تھا اور پی پی کے شاطر قائد آصف زرداری گیم اور نتائج دونوں میں، سب پر بھاری ثابت ہوئے تھے۔ اس مرتبہ سینیٹ الیکشن کے معرکہ اسلام آباد میں ان (زرداری) کی وفا کے ثابت شدہ اسیر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بطور پی ڈی ایم امیدوار، ٹیکنوکریٹ حکومتی امیدوار حفیظ شیخ کے مقابل اتارے گئے تو ضمیروں کی منڈی لگنے کی خبروں میں ایسی تیزی آئی کہ لگا ہر طرف، اسٹیٹس کو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ’’اے نظام بد تو کتنا سلامت ہے؟‘‘ کا سوال اور اس کے خلاف تبرا محافل ملاقاتوں میں عام ہوا۔ اِسی ماحول میں یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی کی وڈیو کا چرچا ہنوز جاری ہے۔ یہ مین اسٹریم میڈیا میں دکھائی جارہی ہے، جس میں علی کوٹارگٹڈ گاہکوں کو ووٹ دینے اور دے کر ضائع کرنے کا گُر سکھاتے دکھایا گیا۔ ’’جمہوریت کے حسن‘‘ کا یہ منظر پورا ملک اور بیرون ملک ہر دم وطن کے غم میں مبتلا پاکستانی گزشتہ تین چار روز سے کسی نہ کسی ٹی وی ٹاک شو یا خبری تجزیے میں دیکھ دیکھ کر پریشان ہے کہ ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ میں یہ ہو کیا رہا ہے اور کب تک ہو گا؟ وزیراعظم عمران کی عمومی پریشانی جو سینیٹ الیکشن کے موقع پر ہراسگی بنی مکمل عیاں تھی۔

اب ہماری ہر پارلیمان کا معیار اور اعتبار عوام پر مکمل بے نقاب ہے، رونا تو یہ ہے کہ تبدیلی سرکار آنے کے بعد بھی حکمراں جماعت سمیت اِسے سنبھالنے سنوارنے میں اسٹیٹس کو کی سیاسی قوتوں کی بھاری بھرکم رکاوٹوں نے جاری بیمار جمہوری سیاسی عمل میں ارتقاکو کچل کر رکھ دیا ہے۔ خود تحریک انصاف نے جو جو نابغہِ روزگار ایوانِ بالا کو عطا کئے ہیں، اس سے پارٹی کے حامیوں کو شدید مایوسی ہوئی ہے۔ گیلانی صاحب ملک کے مقابلے میں پارٹی کے ناجائز مفاد کی حفاظت کے جرم کی سزا مکمل کر کے پھر عوامی نمائندگی کے قائد کا انتخاب ٹھہرے ہیں تو فیصل واوڈا اپنے کاغذات نامزدگی میں ذاتی حقائق و کوائف کو چھپانے کے الزامات کے جواب کی طویل ٹال مٹول کے بعد کام خراب ہوتا دیکھ کر جلدی سے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے کر سینیٹ کے امیدوار بن گئے۔ اب بالکل واضح ہے کہ حکمران جماعت کے پارلیمانی گروپ میں جو ملاوٹ با امر مجبوری الیکٹ ایبلز کی کرنی پڑی۔ الیکشن سے ایک سال قبل انتخابی مہم کی کوئی رزلٹ اورئنٹڈ ڈیزائننگ کی ہوتی تو آج خالص تحریک انصاف کا پارلیمانی سائز بھی بڑا ہوتا اور منتخب ارکان کے گروپ کا معیار اور اعتبار بھی کہیں بہتر ہوتا۔ پانامہ کے نزول کے بعد تحریک انصاف کے لئے ایسا کرنے کی صورتحال مکمل سازگار ہو گئی تھی۔ سینیٹ انتخاب سے پہلے جس طرح کھلے عام وزیراعظم عمران خان نے اپنی ہی جماعت کے 16اراکین اسمبلی کے ڈگمگانے کے حوالے سے اپنے دھڑکے کا اظہار کیا، اس نے حکمراں جماعت کے پارلیمانی گروپ اور اتحاد کے معیار اور اعتبار کا پردہ چاک کر دیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح ن لیگ نے، سابق وزیراعظم گیلانی کے خلاف سپریم کورٹ سے وزارت عظمیٰ گنوانے سے پہلے مقدمے پر اپنے موقف اور فیصلہ آنے پر اظہار مسرت کو بھلا کر، انہیں سینیٹ کا مشترکہ امیدوار قبول کیا، اس سے پی پی اور ن لیگ میں گلگت الیکشن کے بعد سے پیدا ہونے والی دوری بھی ختم ہوئی۔ گیلانی صاحب کے منتخب ہونے سے پی ڈی ایم میں جان پڑی، لیکن عمران خان نے وزیراعظم جیسے محتاط انداز کے برعکس خان اعظم جیسے فوری رسکی فیصلہ سے دو روز میں ہی اعتماد کا ووٹ لے کر، اور پی ڈی ایم نے اس عمل میں حصہ نہ لے کر، پھر بُری طرح ڈسٹربڈ عمران حکومت کو سنبھالا دیا۔ یہ داغ دھل گیا کہ عمران خان کو سیاست کرنی نہیں آتی اور اسٹیٹس کو کے جاری نظام بد میں اِس کے ماہر زرداری ہی ہیں۔ موجود اکثریت میں دو مزید ووٹوں کے اضافے کے ساتھ اتنی سرعت سے وزیراعظم کو پارلیمان کے اعتماد نے گیلانی کی اس فتح کو کافور کر دیا جس کی اہمیت فقط علامتی ہی ہے۔ خاں کے زور دار سیاسی چھکے نے اسے گہنا دیا۔ پی ڈی ایم کا یہ بیانیہ ٹھس ہے کہ وہ (وزیراعظم)اپنا اکیلا گھوڑا دوڑا کر ہی پارلیمان سے اعتماد کا ووٹ لے سکےہیں۔ اپوزیشن کے جو رہنما تحریک اعتماد لینے پر اسمبلی سے باہر آپے سے باہر ہو رہے تھے، اُن کے مظاہرے کو پی ٹی آئی کے جیالوں نے زیادتی کی حد تک آپے سے باہر ہو کر ہنگامے میں تبدیل کیا۔ اب دونوں ہی آپے سے باہر ہیں۔ سیاسی ابلاغ کی آلودگی انتہاپر اور دونوں کی کامیابی کا مزہ کرکرا، اطمینان نے بے چینی اور انتشار کی جگہ لے لی۔ بغیر ارتقائی عمل کے اسٹیٹس کو کے بیمار جمہوری عمل میں جمہوریت کا حسن ایسا ہی ہوتا ہے۔

تازہ ترین