پیارے بچو! آپ نے ٹرین میں سفرتو کیا ہوگا۔ کیا آپ جانتے ہیں اس کی ایجاد سے قبل ایک سے دوسرے شہر تک جانا انتہائی دقت طلب تھا اور سفر کئی دن میں طے ہوتا تھا ۔ آج ریل گاڑی کے ذریعے سفر انتہائی سہل اور گھنٹوں کا رہ گیا ہے۔ آپ نے ڈیزل انجن یا الیکٹرک انجن سے چلنے والی بوگیوں میں بیٹھ کر سفر کیا ہوگا،لیکن شاید آپ کے علم میں نہ ہو کہ سب سے پہلی ٹرین بھاپ کی طاقت سے چلائی گئی ۔ جی ہاں 1650ء تک انگلستان میں کوئلے کی کانوں میں بنی لوہے کی پٹریوں پر ایسی بار بردار گاڑیاں چلتی تھیں جنہیں گھوڑے کھینچتے تھے اور ان پر کوئلہ ڈھویا جاتا تھا ۔
جب سائنس دانوں نے بھاپ کی قوت کا مشاہدہ کیا تو انہوں نے اس کی مدد سے انجن چلانے کا تجربہ کیا۔ 1698ء میں ایک انگریز انجینئر ’’تھامس سیوری ‘‘نے بھاپ کی طاقت سے چلنے والا انجن ایجاد کیا لیکن اس سے صرف کنوؤں سے پانی کھینچنے کا کام لیا جاتا تھا۔ 12سال بعد 1710ء میں دوسرے سائنس داں ، ’’تھامس نیوکن‘‘ نے اس میں جدت پیدا کی۔ 1769ء میں’’ جیمز واٹ ‘‘ نامی انجینئر نے اس میں مزید بہتری پیدا کی، جس کے بعد مختلف صنعتوں میں سامان کی نقل و حمل کے لیے اس سے استفادہ کیا گیا۔
1804ء میں ’’ٹری وی تھک‘‘ نامی شخص نے اس میں مزید تبدیلیاں کیں لیکن1815ء میں انگلستان کا ہی ایک انجینئر جارج اسٹیفن ایسا انجن بنانے میں کامیاب ہوگیا جو بھاپ کی قوت سے پٹری پر دوڑتا تھا،اس نے اس کا نام راکٹ رکھا۔ اس انجن کی ایجاد کے بعد 1825ء میں انگلستان میں پہلی ریلوے لائن بچھائی گئی جس پر جارج اسٹیفن کے بنائے ہوئے انجن کوتجرباتی طور پر چلایا گیا۔1829میں اس میں مزید بہتری پیدا کی گئی اور یہ 36میل یا 60کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے دوڑنے لگا۔
اس ایجاد کی کامیابی کے بعد جارج اسٹیفن کو ’’فادر آف ریلوے ‘‘ کا خطاب دیا گیا۔1896ء میں ڈیزل انجن ایجاد ہوا لیکن اسٹیم انجن بھی مسافر وں کی نقل وحمل اور باربرداری کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ پاکستان کے بعض علاقوں میں1988ء تک ڈیزل انجن کے ساتھ ساتھ بھاپ سے ٹرینیں چلائی جاتی رہیں۔ 1837ء میں الیکٹرک انجن تیار کیا گیا لیکن مسافرگاڑیوں میں اس کا استعمال 1879ء میں کیا گیا۔ 1964ء میں بلٹ ٹرینیں بنائی گئیں اور چین، جاپان،امریکا اور یورپی ممالک میں دوردوراز فاصلے کے لیے لوگ اس سے سفر کرنے لگے ،جو پانچ سو کلومیٹر سے بھی زیادہ رفتار سے لوگوں کو اپنی منزل پر پہنچاتی ہے۔1989ء میں بھاپ سے چلنے والی ٹرینیں پاکستان میں مکمل طور سے بندہوگئیں۔
فروری2019ء سے خیبر پختون خواہ کے سیاحتی مقامات کی سیر کے لیے پشاور سے تخت بائی اور اٹک تک ’’سفاری ٹرین ‘‘ کے نام سے اسے دوبارہ فعال کیا گیا ہے ۔