• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن
متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ اگست 2020کو دستخط ہونے والے امن معاہدے کے بعد خلیج کی دیگر ریاستوں پر ترکی اور امارات نے اس بات کیلئے دباؤ بڑھا دیا ہے کہ وہ اپنے معاشروں میں مذہب کے کردار کا ازسر نو جائزہ لیں۔ اس سلسلے میں سعودی عرب، قطر اپنے اپنے انداز میں ایک ہی صفحے پر ہیں۔ مقصد ایک ہی ہے کہ سوسائٹیوں کو لبرل کیا جائے یہ کوئی زیادہ عرصے کی بات نہیں ہے کہ خلیجی ممالک بڑے متحرک انداز میں مذہب کے الٹراقدامت پسند رخ کا پرچار کرتے تھے اور انتہا پسند مذہبی گروہوں کی سپورٹ کیا کرتے تھے لیکن اب تیل کے مخدوش مستقبل نے انہیں ایسا سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ اس لئے گزشتہ دو دہائیوں سے تجارتی اور صنعتی زون بن رہے ہیں یہی صورتحال سعودی عرب اور قطر کی ہے۔ سیاحت اور ائیر لائنز کی طرف تینوں ممالک بھاری سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ سیاحوں کی ضروریات کے مطابق ائیر لائنز میں شراب وغیرہ کی سروس کی کافی سہولتیں دی ہیں۔ امارات اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ دستخط ہونے کے بعد چند مہینوں میں امارات کی ریاستوں میں سیاحت انڈسٹری خوب بڑھنے پھولنے لگی ہے۔ امارات کی ساتوں ریاستوں میں ہروقت لاکھوں سیاحوں کی موجودگی اور آمدورفت نے شاہی خاندانوں کے مائنڈ سیٹ میں آزاد سوسائٹی بنانے کی سوچ نے گھر کرلیا ہے۔ اب وہ اس راہ پر نہ صرف تیزی سے خود چل پڑے ہیں بلکہ تمام مڈل ایسٹ کو اس طرف راغب کررہے ہیں۔ اب دبئی کے اندر شراب عام ملنے لگی ہے۔ جگہ جگہ شراب کے کاروبار کیلئے لائنسنس جاری کئے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس معاہدے سے پہلے نا محرم مرد اور عورت ہوٹل کے ایک کمرے میں نہیں ٹھہر سکتے تھے۔ اب گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کہیں بھی جگہ لے کر رہ سکتے ہیں۔ اس وقت امارات اور سعودی عرب میں نہ صرف جدید اور مغربی طرز کے کلب بنائے جارہے ہیں۔ جہاں ڈسکو، شراب اور جوئے خانے بھی بنائے جائیں گے جس سے یورپی سیاح ان علاقوں کی جانب تیزی سے متوجہ ہورہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مڈل ایسٹ کے شاہی خاندانوں کے نوجوان شہزادے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں کوشاں ہیں کہ وہ یہ ثا بت کریں کہ لبرل اسلام آج کے جدید دنیا کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلیجی ریاستوں کے علاقائی سیاسی اتحادوں میں شفٹ ہوتی نظر آرہی ہے۔ سعودی عرب میں شاہی خاندان اور پرنس سلمان ان تمام تبدیلیوں کو اس طرح بدلنا چاہتے ہیں کہ سوسائٹی بدلنے کے ساتھ اس ماڈرن ازم کی لہر کو اپنایا جا رہا ہے۔ جدید لبرل ماحول کے شہر اور زون بنائے جارہے ہیں لیکن امارات اس دوڑ میں سب سے آگے ہے۔ جو یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ تبدیلی کے عمل میں خطے میں سب سے آگے ہیں اور سب سے زیادہ اور Tolerantسوسائٹی ہیں۔ جس کا امریکہ کے ساتھ مفادات اور اقدار میں اشتراک آرہا ہے۔ اب وہاں اسپورٹس، ٹورنامنٹ اور ورلڈکپ جیسی تقریبات پلاننگ اور عمل درآمد میں آچکی ہیں جو کہ بہرحال مڈل ایسٹ کی سیاحت کو بہت فائدہ دیں گے۔ ہوٹل انڈسٹری تیزی سے آگے جائے گی۔ اس کے ساتھ ٹرانسپورٹ اور فوڈ انڈسٹری میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ پرنسپل لا میں کچھ تبدیلیاں تو کردی گئیں ہیں۔ مثلاً اب غیر ملکیوں کے شادی اور طلاق وغیرہ کے ایشوز اسلامی قوانین کے تحت طے نہیں کئےجائیں گے۔ غیر ملکیوں کیلئے اسلامی شرعی عدالتیں نہیں لگیں گی۔ اب اسرائیل کے ذریعے وہاں کئی تبدیلیاں اور ایسی شاہی خاندانوں کے اندر دراڑیں پڑیں گی جس کا چندہی برسوں میں اظہار ہونے لگے گا۔ مڈل ایسٹ کی یوتھ ابھی تک تو مذہب کو ہی اپنی بنیادی شناخت سمجھتی ہے لیکن ان کی طرف سے لبرل ازم کی طرف شفٹ میں کسی قسم کی مزاحمت دیکھنے کو نہیں مل رہی۔ اس کے اثرات ان ریاستوں میں دنیا بھر سے آنے والی ورک فورس کے حوالے سے بہت گہرے ہونگے۔ مڈل ایسٹ کا لبرل ازم جو خود کو پراگریسو ماڈل کے طور پر پیش کررہا ہے لیکن اس لبرل ازم کی اصطلاح کا مطلب اور مفہوم لبرل ازم کے اس مفہوم سے بہت مختلف ہے جو مغرب میں سمجھا جاتا ہے۔ سعودی پرنس نے2017 میں کہا تھا کہ اب ہم انتہا پسند خیالات کو ختم کرنے کیلئے 30سال تک نہیں سوچیں گے بلکہ ہم نے اسے آج ہی ختم کرنا ہے۔ اس طریقے سے شہزادہ سلمان Reformistبننا چاہتے ہیں اور ریڈیکل مبلغین کو منظر سے ہٹانا چاہتے ہیں لیکن ان اقدامات کے باوجود یہ ممالک ابھی تک تو آزاد معاشروں کی لسٹ میں شامل نہیں کئے گئے کیونکہ وارثتی شاہی خاندان، سیاسی پارٹیوں پر پابندی، شہری آزادیوں پر پابندی، انٹرنیٹ پرسنسر شپ اور جاسوسی جیسی پابندیاں سسٹم میں موجود ہیں۔ قطر ابھی سیاسی اسلام کی سپورٹ ختم نہیں کرنا چاہتا جبکہ فلسطینیوں کو کارنر کرنا اسرائیل کامقصد اولین ہے۔ سعودی عرب کی وہابی اسلام سے جڑت شہزادے سلمان کی لبرل ہونے کے شوق کو قابل اعتبار نہیں سمجھنے دے رہی کیونکہ نائن الیون کے 19ہائی جیکرز میں سے15 سعودی وہابی مسلم تھے۔ اس طرح سےجدید لبرل سوچ کے مغربی معیار کے مطابق مڈل ایسٹ پرانی روایت اور جدیدیت کی کشمکش میں پھنس چکا ہے۔
تازہ ترین