بات چیت: شفق رفیع
’’ میرا ایک اسکول کا دوست کراچی یونی وَرسٹی کے شعبۂ تعلیم میںپڑھتا تھا۔ وہ ایک دن مجھے اپنے ساتھ ’’ Philosophy of Education‘‘کے ایک لیکچر میں لے گیا،جو ایک طرح سے میری زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ بھی ثابت ہوا کہ وہ لیکچر بہترین تھا اور مَیں نے زندگی میں پہلی مرتبہ جانا کہ ’’فلسفہ‘‘کسے کہتے ہیں۔اس کے صحیح معنی، مفہوم کا ادراک اسی دن ہوا۔ وہاں لیکچرار نے کچھ ایسے سوالات پوچھے، جن کے بارے میں، اس سے پیش تر مَیں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا ۔ جیسے ، انہوں نے کہا کہ ’’تعلیمی ادارے چلانے کا مقصد کیا ہے، تعلیم کی ضرورت کیا ہے؟‘‘ تو اس طرح کی کئی باتوں نے مجھے شعبۂ تعلیم کی طرف مائل کیا۔
یہی وجہ تھی کہ ایم بی اے کرنے اور کارپوریٹ سیکٹر میں اچھا خاصا کام کرنے کے باوجود مَیں آئی بی اے سے بطور معلّم وابستہ ہوگیا۔ پھر نوّے کی دَہائی کے وسط میں مجھے اسکالر شِپ پر برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا، جہاں مَیں نے ’’ایجوکیشن اینڈ انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ ‘‘ میں ڈگری حاصل کی۔ میرا نظریہ ہے کہ ہمارا مُلک تب تک ترقّی نہیں کر سکتا، جب تک نظامِ تعلیم بہتر نہ ہواور نظام کی بہتری کی ذمّے داری فردِ واحد پر نہیں، کہیں نہ کہیں ہم سب پرعاید ہوتی ہے۔
اگر نیک نیّتی سے کوشش کی جائے تو ہمارا نظامِ تعلیم بھی بہتر ہو سکتا ہے، مَیں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے یا تعلیم کے لیے صرف 2 فی صد لگایا جاتا ہے اس لیے بہتری نہیں آرہی ۔کیوںکہ میرے خیال میں اگراس شعبے پر مختص رقم ہی پوری طرح لگ جائے تو ہمیں ترقّی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
دراصل ہمارے مُلک میں معلّمی کو پروفیشن سمجھاہی نہیں جاتا۔ہمیں یہاں ٹیچنگ لائسینس کا نظام متعارف کر واناچاہیے تاکہ نسلِ نو کا مستقبل تربیت یافتہ اساتذہ کے ہاتھ ہو۔‘‘ یہ زرّیں خیالات ہیں، آغاخان یونی وَرسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ (آئی ای ڈی)کے ڈِین ،ڈاکٹر فرید پنجوانی کے، جو آکسفورڈ یونی وَرسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد وطن واپس آئے اور یہاں کام کرنے کو ترجیح دی اورجن کا وژن صرف اور صرف اس مُلک کا نظامِ تعلیم بہتر بنانا ہے۔
واضح رہےآئی ای ڈی کے مختلف پروگرامز کے تحت (گریجویٹ، انڈر گریجویٹ پروگرامز، شارٹ کورسز ) اب تک قریباً 36,000 جونیئر، سینئراساتذہ اورمحکمۂ تعلیم کےافسران وغیرہ تعلیم و تربیت حاصل کر چُکے ہیں۔ یہاں ایک سال میں ایک سو شارٹ کورسز، دو ماسٹرز اور ایک پی ایچ ڈی پروگرام کروایا جاتا ہے۔گزشتہ دنوں ہم نے ڈاکٹر فرید پنجوانی سے ایک تفصیلی نشست میں اُن کے تعلیمی سفر اور مُلکی نظامِ تعلیم کے حوالے سے بات چیت کی، جو نذرِ قارئین ہے۔
س: خاندان، ابتدائی تعلیم و تربیت سےمتعلق کچھ بتائیں؟
ج: میرا تعلق اندرونِ سندھ کے شہر ،حیدر آبا د سے ہے۔ والد کا چھوٹا سا کاروبار تھا اور ہم دو بھائی ہیں۔ مَیں نے ابتدائی تعلیم و تربیت حیدر آباد کے پبلک اسکول ہی میں حاصل کی۔ ہمارا تعلق متوسّط گھرانے سے ہے، تو والدین بھی معاشی طور پر بہت زیادہ مستحکم نہیں تھے، لیکن انہوں نےہم بھائیوں کی تعلیم و تربیت پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔
والد ہمیشہ کہتے کہ ’’تعلیم سے بڑھ کر کچھ نہیں، آگے بڑھنے ، بہتر شہری بننے کے لیے معیاری تعلیم ناگزیر ہے۔‘‘ اسی لیے انہوں نے ہمیں ہمیشہ بہتر سے بہتر تعلیم دلوانے کی کوشش کی اور نہ صرف بہترین نصابی تعلیم دلوائی بلکہ دینی تعلیم پر بھی خُوب توجّہ دی، جس نے مجھے اسلام کی حقیقی روح سے رُوشناس کروایا۔
مجھے سکھایا کہ ہمارے مذہب کا مطلب امن و سلامتی ہے۔ اسی لیے ہمیں زندگی کے ہر معاملے میں صبر و برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے، اپنی شخصیت میں تحمّل، عاجزی و انکساری پیدا کرنی چاہیے۔ پھر چند برس بعد ہم لوگ کراچی منتقل ہوگئے، جہاں میرا داخلہ ایک سیکنڈری اسکول میں کروادیا گیااوربقیہ تعلیمی مدارج اسی شہر میں طے کیے۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اُس زمانے میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) میں داخلہ ملنا بہت بڑی بات سمجھی جاتی تھی، ویسے آج بھی آئی بی اے کا شمار کراچی کے بہترین بزنس اسکولز میں ہوتا ہے، تو وہاں داخلہ ملنا میرے لیے بڑی بات تھی، جہاں سے مَیں نے بی بی اے اور پھر ایم بی اے کیا۔
س: بچپن کیسا گزرا؟ پڑھائی میں کیسے تھے؟
ج: بچپن اتنا اچھا تھا کہ آج بھی کسی خوش گوار یاد کی طرح دل میں بسا ہوا ہےاور جب کبھی زندگی کی بھاگ دوڑ سے تھک جاتا ہوں تو بچپن کے سنہری دِنوں کی یاد ، اُن لمحوں کا احساس دماغ ترو تازہ کر دیتا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، جب میں چھوٹا تھا تو ہم لوگ تواتر سے دریائے سندھ جاتے تھے، وہاں کی ایک خاص یاد، پلّا مچھلی ہے، جوہم بہت شوق سے کھاتے تھے۔ یہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اب جب بھی مَیں وہاں سے گزرتا ہوں تو دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ میرے بچپن کا دریا اب بدل گیا ہے کہ اس میں نہ اب وہ پہلی سی روانی ہے، نہ وسعت اوراس کی بڑی وجہ ماحولیاتی آلودگی ہے، جس کے سبب آب و ہوا کو نقصان پہنچ رہا ہے،دریا سوکھ رہے ہیں، نایاب پرندے نقل مکانی کر رہے ہیںیا مر رہے ہیں۔ خیر، جب ہم کراچی منتقل ہو گئے تو چُھٹیوں میں پاکستان کے مختلف شہروں میں جاتے تھے، وہ وقت بھی یاد گار ہےکہ فیملی کے ساتھ گزرا ہر لمحہ ہی کسی نہ کسی اعتبار سے سنہری ہی ہوتا ہے۔
س: تعلیمی میدان میں کیریئر بنانے کے بارے میں کیوں سوچا کہ عام طور پر لڑکےبزنس، انجینئرنگ کی طرف جانا چاہتے ہیں؟
ج: ہمارے بہت سے رشتے دار بیرونِ مُلک مقیم تھے، تو جب وہ آتے ، کزنز سے بات چیت ہوتی اور پتا چلتا کہ ان کے اور ہمارے رہن سہن(بنیادی سہولتوں)، طریقۂ تعلیم میں کس قدر فرق ہے، تو بچپن یا یوں کہہ لیجیے کہ ٹین ایج ہی سے میرے ذہن میں یہ سوال گردش کرتا کہ ’’جب پر دیس میں معیاری تعلیم، بہترین علاج مل سکتا ہےتو ہمیں کیوں نہیں، ہم لوگوں میں کیا کمی ہے ، جب مغربی ممالک بہتر اقوام بن سکتے ہیں، تو ہم کیوں نہیں؟ جب وہ لوگ قطار میں لگ کر صبر وتحمّل کا مظاہرہ کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ ‘‘یہ اور اس جیسے کئی سوالات ذہن میں اُٹھتے ، پھر خیال آیا کہ ایک معلّم ہی قوم کا مستقبل سُدھار سکتا ہے، تو یہی سوچ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہونے کی ایک وجہ بنی۔
س: آکسفورڈ یونی وَرسٹی میں داخلہ کیسے ہوا؟کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا؟
ج: دوست کے ساتھ فلسفے پر لیکچر لینے کے بعد ہی سے’’تعلیم کا مقصد کیا ہے، حقیقت کیا ہوتی ہے، تعلیم کی ضرورت و افادیت‘‘ جیسے سوالات کی کھوج نے مجھے ’’فلاسفی آف ایجوکیشن‘‘ کے مضمون سے متعارف کروایا، پھر مَیں یہ تحقیق کرنے لگا کہ کن کن یونی ورسٹیز میں اس مضمون میں پی ایچ ڈی کروائی جا تی ہے، تو یہی تلاش مجھے آکسفورڈ تک لے گئی۔ جہاں مجھے اسکالرشپ بھی ملی اور ساتھ ہی مَیں کام بھی کر رہا تھا۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ آکسفورڈ اور کیمبرج میں کالجیئٹ سسٹم ہے، جو انہیں باقی تعلیمی اداروں سے ممتاز بناتا ہے۔
یعنی، وہاں صرف تعلیم نہیں دی جاتی، شخصیت سازی بھی کی جاتی ہے، معاشرے میں اُٹھنے بیٹھے، ڈِنر ٹیبل پر گفتگو کرنے تک کے آداب سکھائے جاتے ہیں۔خیر، مجھے اسکالر شِپس کی وجہ سے کوئی زیادہ دشواری پیش نہیں آئی۔ البتہ، جو تھوڑی بہت مشکلات پیش آئیں،وہ طرزِ تعلیم کے حوالے سے تھیںکہ ان کا طریقۂ تعلیم یہاں سے بہت مختلف ہے۔
مثال کے طور پر وہاں ٹیکسٹ بُکس کا کوئی تصوّر نہیں کہ بس کورس آؤٹ لائن ، آرٹیکلز اور چَیپٹرز کی فہرست دے دی جاتی ہے، جن کا مطالعہ کرکے خود مضامین لکھنے ہوتے ہیں، کُتب خانوں میں وقت گزارنا پڑتا ہے۔ اس طرح کا نظام ہمارے مُلک میں رائج نہیں، تو وہاں جا کر تعلیم حاصل کرکے اُن کانظامِ تعلیم بھی سمجھنے کا موقع ملا ۔
س: ا نسٹی ٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ، پاکستان کے حوالے سے کچھ بتائیے۔
ج: ا نسٹی ٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ، پاکستان(آئی ای ڈی)آغاخان یونی ورسٹی کا حصّہ ہے۔ چوں کہ آغاخان یونی ورسٹی سوشل ڈویلپمنٹ (صحتِ عامہ اور تعلیم)کے لیے کام کرتی ہےاور ہم نےنوّے کی دہائی میں تعلیم کے شعبے میں کام کا آغاز کیا، توانسٹی ٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ کا بنیادی مقصد تعلیمی نظام کو بہتر بنانا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ شعبۂ تعلیم ہی وہ واحد شعبہ ہے، جو باقی تمام شعبوں پر اثر انداز ہوتا ہے، کیوں کہ اگر اچھے تعلیم یافتہ افراد نہ ہوں ، تو کوئی بھی شعبہ بہتر طور پر کا م نہیں کر سکتاکہ ڈاکٹرز ، انجینئرز، بزنس مین بھی اسی نظامِ تعلیم کے تحت ڈگریاں حاصل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام ترقّی یافتہ ممالک کا نظامِ تعلیم بہترین ہے، بلکہ اقوام کی ترقّی کا راز ہی اسی میں پنہاں ہے۔
اب جہاں تک بات ہے، ہمارے مُلک کی تو یہاں شعبۂ تعلیم کی حالت کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں۔ان حالات میں نجی تعلیمی اداروں کی ذمّے داری اور بھی بڑھ جاتی ہے، تو ایسے میں آغاخان یونی وَرسٹی میں بھی یہ سوال اُٹھا کہ ’’ہم اس حوالے سے کیا کر سکتے ہیں؟‘‘نصابِ تعلیم تو حکومت ہی بناتی ہے اور اس وقت بھی ہمارے یہاں ’’Single National Curriculum‘‘ پر کام ہو رہا ہے، جس کی مسلسل بازگشت سُنائی دے رہی ہے۔
اسی طرح فزیکل اسٹرکچر بھی حکومت یا بڑے نجی تعلیمی ادارے بناتےہیں، تو ہم نے ان معاملات سے خود کو دُور رکھا کہ یہ شعبے ہمارے کنٹرول سے باہر تھے۔ لیکن ہم نےسوچا کہ ہم اساتذہ کی تربیت یا ٹیچرز ڈویلپمنٹ پر کام کر سکتے ہیںاور بلاشبہ، نظامِ تعلیم میں اساتذہ ہی مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔
یعنی ہم چاہے کتنا ہی بہترین نصاب کیوں نہ مرتّب کرلیں، کتنی ہی جدید ٹیکنالوجیز کا استعمال کیوں نہ کرلیں ، جب تک قابل، تربیت یافتہ اساتذہ نہیں ہوں گے، تب تک کسی طور بہتری نہیں آسکتی۔اور یاد رکھیں،ایک اچھا استاد کسی درخت کے نیچے بھی بہترین تعلیم و تربیت فراہم کر سکتاہے، اس کے بر عکس ایئر کنڈیشنڈ کلاسز اور اَپ ٹو ڈیٹ نصاب کے با وجو د اگر استاد اچھا نہ ہو تو کوئی بہتری نہیں آسکتی۔
اسی لیے آغا خان یونی وَرسٹی نے اساتذہ کی تربیت پر فوکس کیا۔ اس حوالے سے مجھے اکثر علّامہ اقبال کا ایک شعر بھی یا د آتا ہے ؎ مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے …مَن اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا ۔تو عالی شان عمارتیں، نصاب وغیرہ تو بن جائے گا، لیکن نمازی بنانے کا کام اساتذہ کا ہے۔
اب ہمارے مُلک میں معلّم کے حوالے سے اتنا غلط طریقۂ کار رائج ہے کہ استاد بننے کے لیے کسی مخصوص تعلیم یا ڈگری کی ضرورت ہی نہیں ، ٹیچنگ لائسینس کا تو تصوّر ہی مفقود ہے۔جس کی مرضی ہو، جس کا دل چاہےیا کوئی اور کام نہ ملےتو پڑھانا شروع کر دیا۔
مثال کے طور پر نرس بننے کے لیے نرسنگ کی تعلیم، ڈاکٹر بننے کے لیے ایم بی بی ایس اور انجینئرنگ پریکٹس کے لیے متعلقہ ڈگری درکار ہوتی ہے ، لیکن درس وتدریس کے لیے کسی لائسینس کی ضرورت نہیں اور یہی ہمارے معاشرے کا بڑاالمیہ بھی ہے۔
بلاشبہ، بہت سے افراد شوق سے در س و تدریس کے شعبے میں آتے ہیں، جن کی ٹیچنگ اسکلز بھی قابلِ تعریف ہوتی ہیں، لیکن کئی افراد بے روزگاری سے تنگ آکریا اس شعبے کو نسبتاً آسان سمجھ کربھی معلّم بن جاتے ہیں، اسی وجہ سے ہماری ٹیچنگ فورس معیاری نہیں ۔سو، ہم نے ’’ٹیچنگ فورس‘‘ بہتر بنانے کا کام شروع کیا۔
یعنی ہم معلّمین کی تربیت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ہمارے ہاں ٹیچرز ایجوکیشن میں ماسٹرز پروگرام اور شارٹ کورسز کروائےجاتے ہیں۔ اور الحمدُ للہ! آج کراچی کے لا تعداد اسکولز میں ہمارے گریجویٹس، تربیت یافتہ اورسینئر اساتذہ علم کے دیے روشن کر رہے ہیں۔
س: کیا تعلیمی ادارے اساتذہ کی تربیت کے لیے آپ لوگوں سے خودرابطہ کرتے ہیں؟
ج: جی بالکل! نہ صرف نجی اسکول انتظامیہ، بلکہ حکومت بھی اس ضمن میں ہم سے رابطہ کرتی ہے۔ ہم نے کئی پراجیکٹس پرسندھ، بلوچستان، گلگت بلتستان اور کے پی کے حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔وہ ہمارے ادارے میں اپنےجونیئر، سینئر اساتذہ اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرز بھی بھیجتے ہیں، کیوں کہ ہم اساتذہ کو تربیت دینے کے ساتھ سینئر ٹیچرز ، پرنسپلز وغیرہ میں لیڈر شِپ اسکلز بہتر کرنے پر بھی کام کرتے ہیںکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک جونیئر ٹیچرز کو پرنسپل یا افسران کا تعاون حاصل نہیں ہوگا ،تب تک وہ بہتر طور پر کام نہیں کر سکتے۔علاوہ ازیں، ہمارے ادارے میں نصاب مرتّب کرنے والے اور شعبۂ امتحانات سے وابستہ افراد ( نظامِ تعلیم چلانے والے )کی بھی تربیت کی جاتی ہے۔
س: کیا کسی تعلیمی ادارے سے وابستگی کے بغیر آئی ای ڈی میں داخلہ لیاجا سکتا ہے؟
ج: ہمارے ادارے میںداخلہ لینے والےافراد عام طور پر کسی نہ کسی ادارے کے تحت ہی آتے ہیں، لیکن یہاں داخلہ لینے کے لیے کسی تعلیمی ادارے کے تحت آنا یا ملازم ہونا لازمی نہیں۔بلکہ یہاں مَیں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ بطور جامعہ ہمارا ایک مروجّہ نظام ہے، جس کے تحت نجی طور پر داخلہ لینے کے خواہش مند امیدواروں کو میرٹ پر داخلہ دیا جاتا ہے اور کوالیفائی کرنے والے اُمید واروں کو فنانس کی بنا پر مسترد نہیں کیا جاتا، اگر کسی کے مالی حالات داخلہ لینے کی اجازت نہیں دیتے، تو اسکالرشِپس وغیرہ کے ذریعے تعاون کیا جاتا ہے۔
س: آپ نے آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کی، توجو طلبہ آکسفورڈ میں داخلہ لینا چاہتے ہیں، ان کی بھی کچھ رہنمائی کریں۔
ج: ویسے تو ہر انسان کا شوق ہی اس کا بہترین رہنماہوتا ہے کہ جب شوق ہوتا ہے، تو انسان خود بخود راہیں تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے اور پھر منزل بھی مل ہی جاتی ہے۔ بہر حال، سب سے پہلے تو یہ سوچیں کہ آپ کرنا کیا چاہتے ہیں، پسندیدہ مضمون اور جامعات سے متعلق مکمل آگہی حاصل کریں، ضروری نہیں کہ وہ آکسفورڈ ہی ہو، دنیا کی کوئی بھی جامعہ ہو سکتی ہے۔
پھر دنیا کی بڑی یا بہترین جامعات میں اپلائی کرتے ہوئے یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ضروری نہیں کہ پہلے ہی برس اسکالر شِپ یا داخلہ مل جائے تو اس حوالے سے مستقل مزاجی بے حد ضروری ہےاور سب سے اہم بات یہ کہ آکسفورڈ، ہارورڈ یا دنیا کے کسی بھی بہترین تعلیمی ادارے میں داخلے کے بعد یہ نہیں فراموش کرنا چاہیے کہ ہماری پہچان، ہمارا مُلک ہی ہے اورہم کسی بھی مقام پر پہنچنے کے قابل بھی پاکستان ہی کی بدولت ہوئے ہیں۔ تو مُلک کا قرض ادا کرنا انتہائی ضروری ہےکہ بے شک مغرب کی تعلیم ہم سے بہتر ضرور ہے، لیکن پاکستان سے ملنے والی تعلیم ہی نے ہمیں اس قابل بنایا کہ وہاں داخلہ لے سکیں۔
س: پاکستان اور بیرونِ ممالک کے نظامِ تعلیم ، نصابِ تعلیم ، اساتذہ و طلبہ کے رویّوں میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟
ج: بنیادی فرق طریقۂ تدریس کا ہے۔ وہاں بچّوں کو ایجوکیشنل دَوروں پر لے جاتے ہیں، اسباق نہیں رٹواتے ، سمجھاتے ہیں۔ طلبہ میں خود اعتمادی پیدا کرتے ہیں، ان کے مزاج کو سمجھتے ہیں ، سزا کا تو تصوّر ہی نہیں ہے، بہت سے اسکولز میں قومی زبان کے علاوہ بھی دو، تین زبانیں پڑھائی جاتی ہیں، بچّوں کو پھلنے پھولنے کے بہترین مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں، پرائمری سطح تک امتحانات نہیں لیے جاتے، بچّے بے فکر ہوکر پڑھتے ، سیکھتے اور سمجھتے ہیں۔
ان کی گرومنگ پر خاص توجّہ دی جاتی ہے، فیڈ بیک کے ذریعے رپورٹس تیار کی جاتی اور بچّوں کو اگلی جماعت میں پروموٹ کر دیا جاتا ہے۔اسی لیے بچّے بھی گریڈز کے لیے نہیں، سیکھنے کے لیے پڑھتے ہیں۔ ہمیں بچّوں کو ایسا تعلیمی ماحول فراہم کرنا چاہیے کہ انہی غلطی کرتے ہوئے ڈر نہ لگے۔حکومت بدلنے سے نظامِ تعلیم، نصابِ تعلیم نہیں بدلنا چاہیے۔ نظام ِتعلیم سیاسی مقاصد کے لیےنہیں ،قومی مقاصدکے تحت بہتر ہونا چاہیے۔
س: کیریئر کاؤنسلنگ کی اہمیت کے حوالے سے کیا کہیں گے؟
ج: کیریئر کاؤنسلنگ کی اہمیت بہت زیادہ ہے،مگر ہمیں بچّے سے ’’وہ کیا بننا چاہتا ہے‘‘کے بجائے ’’وہ کیسی زندگی گزارنا چاہتا ہے‘‘ پوچھنا چاہیے۔ پھر اس کے رجحان، پسند،نا پسند، دل چسپیوں کو مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے شعبوں کے حوالےسے معلومات فراہم کرنی چاہئیں۔
س: کیا آپ کا ادارہ ایجوکیشن سسٹم بہتر بنانے کے لیے حکومتِ پاکستان سے بھی رابطے میں ہے؟
ج: جی بالکل! مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ ’’Single National Curriculum ‘‘میں ہم حکومت کے ٹاپ ری ویوئرزہیں۔ یعنی یہ کام ہو تو حکومتی سرپرستی میں رہا ہے، لیکن وہ ہمیں نصاب / آؤٹ لائن بھیجتے ہیں، پھر ہم بطور ماہرِ تعلیم اس پر اپنا فِیڈ بیک، آئیڈیاز، ماڈلز دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں، سندھ حکومت سے بھی معاہدے کیے ہیںکہ پبلک ایجوکیشن کی بہتری ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔
س: پاکستانی نوجوانوں میں کس چیز کا فقدان نظر آتا ہے؟
ج: مجھے تو ہماری نسلِ نو صلاحیت، قابلیت اور عقل و شعور سے مالا مال نظر آتی ہےکہ مَیں نے اب تک جتنے نوجوانوں سے بات چیت کی ، انہیں ذہین و فطین ہی پایا۔ ہمارے نوجوان کسی سے کم نہیں، انہوں نے کم وسائل میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔
لیکن بد قسمتی سے ہم انہیں آگے بڑھنے کے مواقع بہتر انداز میں فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ پروفیشنل تعلیم کے ساتھ ووکیشنل تعلیم پر بھی زور دیں کہ ہنر کی مدد ہی سےبے روزگاری کا خاتمہ ممکن ہے۔علاوہ ازیں، مَیں نسلِ نو سےکہنا چاہوں گا کہ مُلک کے ساتھ اپنے رشتے کو نہ بھولیںکہ اسی دھرتی نے ہمیں کچھ کرنے کے قابل بنایا ہے۔
س: پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے کیا رائے رکھتے ہیں؟
ج: مستقبل کے حوالےسے انتہائی پُر امید ہوں، بس ضرورت اس امر کی ہے کہ نسلِ نو کوبہترین تعلیم و تربیت ، روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
س: جامعات میں تحقیق کی تشویش ناک صورتِ حال کے حوالے سے کیا کہیں گے؟
ج: ہمارے یہاں مصنوعی تحقیق کی جاتی ہے۔ ویسے دیکھا جائے توپوری زندگی ہی ایک تحقیق ہے۔ ہم لوگوں سے ملتے ہیں ، ان کے بارے میں جانتے ہیں ،یہ بھی تحقیق ہی کی ایک قِسم ہے، سوالوں کا جواب ڈھونڈنا تحقیق کہلاتی ہے، جوعموماً انسان اپنے شوق سے کرتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ہماری جامعات میں تحقیق صرف اس لیے کی جاتی ہے تاکہ فنڈنگ ہو، طلبہ اس لیے تحقیق کرتے ہیں کہ پبلکیشنز بنیں ، گریڈنگ ہو اور ان کی پوسٹ بڑھے، تو حقیقی تحقیق اُسی وقت ہو سکتی ہے، جب پوری ایمان داری سے جستجو، تحقیق کے رجحان کو فروغ دیا جائے۔