• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتہائی ہنگامہ خیزی ہے ہماری سیاست میں۔ لگتا ہے اب حکومت جارہی ہے، پھر لگتا ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد میں سے ہوا نکل گئی۔ جس دن حزب اختلاف کا پلہ بھاری ہوتا ہے اس دن قوم کی پوری توانائی حزب اختلاف کی تعریفوں، اس کی عقلمندانہ حکمت عملی کے ایک ایک قدم پر تفصیلی تبصرہ کیا جاتا ہے۔ جیسے دنیا بھر کی ساری ذہانت یہاں جمع ہوچکی ہو۔ لیکن فورا ہی اگلے دن میدان حکمران جماعت کی حمایت میں جم جاتا ہے۔ اور سارے تبصروں اور شاباش کا محور و مرکز حکمران جماعت ہوجاتی ہےاور حزب اختلاف احمقوں کی جنت میں رہنے والے قرار دیئے جاتے۔ یہ سلسلہ ابھی نہیں بہت عرصے سے جاری ہے۔ عام آدمی کو اس چسکے میں لگا دیا گیا ہے کہ وہ ٹیبل ٹینس کی بال کی طرح سے کبھی ایک ایشو پر، تو کچھ ہی دیر کے بعد دوسرے ایشو پر، پھر کسی اور ایشو پر ، اور سارے کے سارے ایشو / مسائل سیاستدانوں کے بیانات یا ان کے پارلیمنٹ میں کچھ عمل کرنے کے گرد ہی گھومتے رہتے ہیں۔ کیا ہماری معصوم اور بڑی معذرت کے ساتھ کم عقل عوام کی زندگی کا حاصل دو گروپوں میں بٹ کر ایک گروپ کی تعریف اور دوسرے گروپ کی مخالفت کرنا اور اس میں اس طرح محو ہوجانا کہ اپنے دنیا میں آنے کا مقصد ہی بھول جانا۔ اپنے معاشی، سماجی، نفسیاتی مسائل چھوڑ کر ایک شخص کے ہارنے اور دوسرے کے جیتنے میں ایسے محو ہوجاتے ہیں کہ اگر اس پہ بحث نہ کی تو نا تو بیٹھ بھرے گا اور اگر بھر گیا تو ہاضمہ مشکل ہو جائے گا۔ اس پر بحث کرنا فرض عین ہے۔ سب اپنے مسائل چھوڑ کر اسی بے تکی گفتگو میں لگ جاتے ہیں۔ ایسے میں ہمارے قیمتی وقت اور وسائل کو ضائع کیا جاتا ہے۔ایک طرف دعوی ہے کہ ہم ابھی ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں شامل ہیں ۔ ترقی کرنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ دوسری طرف ترقی کی راہ میں رکاوٹ وسائل کی کمی کو گردانہ جاتا ہے۔ لیکن کبھی کسی کا خیال اس بات کی طرف نہیں گیا کہ ہمارے ہاں سب سے قیمتی وسائل( افرادی قوت،اور وقت، )کو کس بے دردی سے ضائع کیا جاتا ہے اور کسی کو احساس بھی نہیں ہوتا۔ نعرے لگوانے کے لیئے گھنٹوں ہماری افرادی قوت کو انتظار کروایا جاتا ہے، جلوس نکلوانے یا دھرنا کروانے کے لیے یہی قربانی کا بکرا بنتے ہیں۔ کیا یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا؟ یا کبھی صبح نو بھی آئے گی! کبھی ان وسائل سے بھر پور استفادہ کا بھی سوچا جائے گا۔ انہیں قیمتی وسائل میں شمار کیا جائے گا۔ ترقی یافتہ ممالک دنیا بھر کا ذہین دماغ تلاش کرکے اپنے یہاں جمع کرتے اور ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے جارہے ہیں۔ جب کہ ہم اپنا ذہین دماغ اور کارآمد افرادی قوت کو خوشی خوشی باہر بھیج (brain drain) کر سمندر پار پاکستانیوں سے بھاری زرمبادلہ کمانے کی نوید سناتے ہیں۔ کیا زبردست گھاٹے کا سودا ہے لیکن اس قدر فخر کیا جاتا ہے کہ اس سے زیادہ عقلمندانہ اور کوئی دوسرا راستہ نہ تھا اپنے current account balance کو maintain کرنے کا۔ جب ملک میں معاشی ترقی رفتار کم ہو تو جو یہاں پیسہ کما لیتے ہیں تو ان کی اولین خواہش ہوتی ہے کہ ہر حال میں ان کی بچتیں savings بیرونی بینکوں میں ہوں یا پھر بیرون ملک جائیداد کی شکل میں ہو یا پھر ملک میں ہو تو صرف غیر ملکی کرنسی کی شکل میں ہو۔ ایسے میں یہ سب ملکی وسائل کا غلط استعمال نہیں ہیں کیا۔ ملک وسائل سے مالا مالا ہے لیکن یہ وسائل دوسرے ممالک کی ترقی میں استعمال کئے جارہے ہیں صرف چند دماغ اپنے ذاتی مفادات کے لیے یہ سودا کررہے ہیں۔ لیکن اس طرف کوئی سوچنے کو تیار نہیں کیونکہ سب ڈگڈگی بجانے والے کو دیکھتے ہیں لیکن وہ کیوں ڈگڈگی بجاتا ہے اسے کوئی نہیں سوچتا!

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین